وزیراعظم سے وزیر خزانہ تک اور… – حسن نثار

hassan-nisar

میں ذاتی طور پر تو نہیں جانتا لیکن جب سے ہوش سنبھالا، یہی سنتا آیا ہوں کہ زراعت ہماری معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے اور اگر یہ بات درست ہے تو پھر یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ ٹریکٹر انڈسٹری زراعت کی ریڑھ کی ہڈی ہے جو اِس وقت شدید قسم کے مالی بحران کی وجہ سے لرزاں و ترساں حالت میں تباہی کے کنارے کھڑی ہے۔

اور وجہ اُس کی یہ ہے کہ ایف بی آر یعنی فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے مارچ 2020 سے ٹریکٹر سازی کی صنعت کے سیلز ٹیکس ری فنڈز کی ادائیگی روکی ہوئی ہے جو اب 6ارب روپے سے بھی تجاوز کر چکی ہے جس کے نتیجہ میں صنعت کاروں کی طرف سے مالی دبائو کے سبب ٹریکٹروں کی اسمبلی اور ترسیل بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔

اس کے علاوہ 250سے زیادہ وینڈرز کمپنیوں کے ٹیکس ایڈجسٹمنٹ حوالہ سے ادائیگیاں بھی رکی ہوئی ہیں جس نے 5لاکھ سے زیادہ ہنرمند افرادی قوت کھپانے والی ذیلی صنعتوں کو بھی بحرانی کیفیت میں مبتلا کر رکھا ہے۔

اگر اس بد سے بدتر ہوتی ہوئی صورتحال کو بروقت نہ سنبھالا گیا تو نہ صرف ٹریکٹر سازی کی صنعت بلکہ بےچارے کاشت کار، زرعی ترقی اور فوڈ سیکوریٹی پر بھی منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

کمال یہ ہے کہ متعلقہ حکومتی نمائندوں کے ساتھ اس انڈسٹری کے نمائندوں کی بار بار ملاقاتوں کے بعد بھی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی اس لئے وزیراعظم اور وزیر خزانہ کو مخاطب کرنا ضروری جانا کہ ٹریکٹر اور اس سے متعلقہ دیگر صنعتوں کو بچانے کیلئے میں بھی اپنا حصہ ڈال سکوں… باقی ان کی مرضی۔

قارئین! اس ’’خشک‘‘ موضوع پر تقریباً آدھا کالم قربان کرنے پر آپ سے معذرت چاہتا ہوں حالانکہ یہ آپ کا بھی مسئلہ ہے کیونکہ ٹریکٹر بنیں گے تو چلیں گے اور اگر چلیں گے تو گھروں میں چولہے جلیں گے کیونکہ چولہوں پر اناج، سبزی، دال چڑھائی جاتی ہے…

خواب اور خواہشیں نہیں اور اب ہم چلتے ہیں ایک چالو قسم کے مقبول موضوع کی جانب۔ آج کل بذریعہ ٹیکنالوجی فیئر اور شفاف الیکشنز کا اتنا چرچا، تذکرہ ہے کہ میں تنگ آ گیا ہوں۔

’’جیو‘‘ کے مقبول پروگرام ’’رپورٹ کارڈ‘‘ میں بھی شفاف الیکشنز کی رَٹ بہت سنائی دیتی ہے جبکہ میری رائے یہ ہے کہ پاکستان میں فیئر اور شفاف الیکشنز مدتوں تک ناممکن ہیں جس ملک، معاشرہ میں کروڑوں لوگ خطِ غربت پہ رینگ رہے ہوں وہاں ووٹ کیا اور اس کی اوقات کیا؟

اور جو خطِ غربت پر نہیں رینگ رہے، وہ بھی ’’رینگ‘‘ ہی رہے ہیں کہ جس کے پائوں تلے زمین اپنی اور سر کے اوپر چھت اپنی نہیں… اس کا ووٹ، اس کی رائے بھی اپنی نہیں ہو سکتی۔

سرمایہ کیا، رائے چرائی جا سکتی ہے

پانی میں بھی آگ لگائی جا سکتی ہے

یہ شعر بھی میرا ہے اور رائے بھی جس سے آپ اختلاف کر سکتے ہیں لیکن میرا کوا سفید اور مرغا ایک ٹانگ پر ہی کھڑا رہے گا کیونکہ یہ فہم میرے سیاسی ایمان کا حصہ ہے کہ جب تک اس ملک کا عام ووٹر، خصوصاً پسماندہ علاقوں کا عام ووٹر غربت، جہالت، ضرورت کی زنجیروں اور مجبوریوں، محرومیوں، لالچ، خوف کی بیڑیوں میں جکڑا ہوا ہے تو سمجھ لو اس کا ووٹ بھی جکڑا ہوا ہے اور یاد رہے ذات برادری بھی جہالت کی ہی آوارہ اولاد ہے۔

سو سطحی سوچ تو فیئر اور شفاف الیکشنز کے ٹوپی ڈرامے سے لطف اندوز ہوتے ہوئے لڈیاں ڈال سکتی ہے، مجھ جیسا حقیقت پسند اور سائنٹیفک انداز میں سوچنے والا اس گناہ کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔

چلتے چلتے یہ بات بھی سن لیں کہ ہم ’’خطِ غربت‘‘ کی اصطلاح پڑھتے اور سنتے تو بہت ہیں لیکن شاید بھاری اکثریت اس اصطلاح کی DEFINITIONسے بھی واقف نہیں تو پیارے ہم وطنو! خطِ غربت پر رینگنے والے لوگ وہ ہوتے ہیں جن کیلئے اپنے مردوں کیلئے کفن اور قبر، چارپائی اور قاری صاحب کو ’’افورڈ‘‘ کرنا بھی جوئے شیر لانے سے بڑھ کر ہوتا ہے۔

اس لئے ووٹ کی عزت، ووٹ کا تقدس اور جمہوریت کا استحکام وغیرہ سب دھوکہ، فریب اور سراب ہے۔

74سال تو گئے، آئندہ 74سال بعد بھی اگر پاکستان میں شفاف الیکشن (جینوئن) ہو گئے تو میں مارے حیرت اور خوشی کے جنت میں دوبارہ مر جاؤں گا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

Source: Jung News

Read Urdu column Wazir e Azam se Wazir e Khazana tak aur By Hassan Nisar

Leave A Reply

Your email address will not be published.