مائنڈ سیٹ اور ہمارا مقدر، مستقبل – حسن نثار
اطہر شاہ خان المعروف جیدی مرحوم کا ایک قطعہ پیش خدمت ہے اور یہ آپ کی مرضی کہ صرف مزہ لے کر اسے فارغ کر دیں یا تھوڑی دیر رک کر اس پر تھوڑا سا غور بھی کرلیں۔
دعا یہ پوری پوری ہو خدایا
سپر پاور کو مٹی میں ملا دے
بہت نفرت ہے امریکہ سے ہم کو
مگر اک ملٹی پل ویزا دلا دے
جیدی مرحوم نے اپنی مخصوص معصومیت سے ہمیں ہماری اصل اوقات یاد دلائی لیکن ہم دلچسپ لوگ ہیں جو اپنے بدترین تضادات پر بھی غور نہیں کرتے حالانکہ اس مشہور زمانہ فلمی ڈائیلاگ نے جنم ہی ہماری اس نفسیات سے لیا تھا کہ ’’ چوری میرا پیشہ نماز میرا فرض‘‘ پوری زندگی ایسے ہی احمقانہ رویوں سے عبارت ہے لیکن بھلا ہو سفلی سطحی سوچ کا جو کبھی اس طرف دھیان نہیں دیتی ۔ پچھلے دنوں کسی نے کیا خوب لکھا کہ بہت سے لوگ پسند تو طالبان کے نظام کو کرتے ہیں لیکن رہنا امریکہ میں چاہتے ہیں۔ امریکہ کے ساتھ ہمارا LOVE HATE ریلیشن شپ ہے جسے کالم کا موضوع بنانا ممکن نہیں اس لئے چاہوں گا کہ حسین حقانی کی چند برس پرانی اک کتاب کا مطالعہ ضرور کر لیں جس کا عنوان ہے ۔
’’عالیشان واہمے۔پاکستان، امریکہ غلط فہمیوں کی تاریخ‘‘
یہ ایک ایسی کتاب ہے جس کے حقائق کو کوئی بہت ہی ڈھیٹ شخص بھی نہیں جھٹلا سکتا ۔ہماری زیادہ تر فکری عمارات کی بنیاد ہی تضادات پر رکھی ہے مثلاً ہماری وہ پڑھی لکھی خواتین جو مرد کے ساتھ برابری تو چاہتی ہیں لیکن جب انہیں مردوں کی طرح ٹریٹ کیا جائے تو چانگڑیں شروع ہو جاتی ہیں ۔’’کمیونیکیشن گیپ ‘‘کو ہم آج بھی ’’جنریشن گیپ‘‘ کہنے پر مصر ہیں حالانکہ یہ سوچ کب کی متروک ہو چکی ۔جو پابند صوم صلوۃ ہے وہ بھی عام زندگی میں ’’پابندی اوقات‘‘ کو پرکاہ جتنی اہمیت نہیں دیتا ۔ہمارا ہیوی ویٹ دانشور بھی جمہور دشمن جگاڑ کو سچ مچ کی جمہوریت سمجھتا ہے حالانکہ ایوانوں میں اصلی جمہور یعنی عوام آٹے میں نمک برابر بھی موجود نہیں ہوتے۔ زیادہ تر موروثیت ہے یا پیسہ ۔پارٹیوں کے اپنے اندر جمہوریت نام کی کسی شے کا وجود نہیں ۔کیا ہم نے کبھی سوچا کہ مشرقی پاکستان سے فارغ ہو کر جب اندرا گاندھی نے رخ دوسری طرف کیا تو اسے شٹ اپ کال کس نے دی تھی ؟ ایوب خانی دور میں کون یہاں گندم ڈھوتا رہا ؟ آج کتنے پاکستانی امریکہ میں بیٹھے ’’پیچھے‘‘کنبے پال رہے ہیں ۔ملکوں کےتعلقات سوہنی مہینوال کا رومانس نہیں ہوتے اور چین کی نوازشات بھی ضروریات سے خالی نہیں۔عرض کرنے کا مقصد یہ کہ ایسے معاملات کو معروضی صورتحال کے تناظر میں دیکھیں۔
’’کفار مغرب ‘‘ اگر ’’عالم اسلام ‘‘ پر غالب ہیں تو اس کی اصل وجوہات پر فوکس کرنا ہو گا ورنہ اگر مرض کی تشخیص ہی نہ ہو تو معالج بھاڑ جھونکے گا ؟ مثلاً حال ہی میں وہاں سے دو معصوم، بے ضرر سی خبریں آئی ہیں جو ان کے ہمارے رویوں کے درمیان روشن لکیر کی مانند ہیں بشرطیکہ کوئی دیکھنا پسند فرمائے۔
پہلی یہ کہ نائن الیون میں ہلاک ہونے والے ایک پاکستانی نوجوان محمد سلمان ہمدانی کو امریکی ہیرو قرار دیا گیا ہے ۔یہ نوجوان 1977ءکو کراچی میں پیدا ہوا اور وہاں ایمرجنسی میڈیکل ٹیکنیشن کے طور پر کام کر رہا تھا کہ نائن الیون حادثہ میں لوگوں کو بچاتے ہوئے خود زندگی کی بازی ہار گیا ۔ نیو یارک انتظامیہ نے اس نوجوان کی قربانی اور خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کوئینز کے علاقہ میں ایک سٹریٹ کو محمد سلمان ہمدانی کے نام سے منسوب کر دیا ہے تو میں یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ ’’مشاہیر‘‘ کے علاوہ سلمان ہمدانی ٹائپ عوام کے نام یہاں کتنی گلیاں اور سڑکیں ہیں؟
دوسری خبر کا تعلق وزیر اعظم عمران خان کے بیٹے سلمان خان کے ساتھ ہے حالانکہ اس میں ’’خبریت‘‘ نام کی کوئی شے ہی نہیں کیونکہ وہاں یہ ’’وے آف لائف‘‘ ہے، ان کا کلچر اور معمول کی بات ہے کہ وز راء اعظم تک بھی ٹیکسیوں اور ٹرینوں پر سفر کرتے پائے جاتے ہیں جبکہ ہمارے اسلامی جمہوریہ میں پلید ترین ذہنیتوں کا پروٹوکول ہی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا ۔بہتر ہو گا ہم ’’کفرواسلام‘‘ کی جنگ سے پہلے سوچ کی جنگ جیتنے کا سوچیں ورنہ موجودہ مائینڈ سیٹ کے ساتھ مقدر کی تبدیلی یا روشن مستقبل کا امکان صفر بھی نہیں …..بہرحال ’’خبر‘‘ یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کے بیٹے سلمان خان نے لندن میں ٹیکسی پرسفر کیا اور پھر ٹیکسی سے اتر کر ٹرین پر سوار ہوگیا جس کی ویڈیو وائرل ہوئی۔کیب ڈرائیور نے عمران خان کے بیٹے کو ’’عام‘‘ اور ’’سادہ‘‘ سا انسان قرار دیا حالانکہ وہاں انسان ’’عام‘‘ اور ’’سادہ‘‘ ہی ہوتے ہیں ۔دیوی دیوتا اور اوتار صرف یہیں اترتے ہیں اور شخصیت پرستی کا کورونا بھی یہیں پایا جاتا ہے ۔
مستقبل اور مقدر میں تبدیلی، مائنڈ سیٹ میں تبدیلی کے بغیر ممکن نہیں اور ہمیں یہ بات صدیوں پہلے سمجھا دی گئی تھی لیکن…
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)
Source: Jung News
Read Urdu column Mindset aur Hamara Muqaddar, Mustaqbil By Hassan Nisar