اسلامی تشخص‘‘ کی تعریف و تلاش – حسن نثار
ہمارے ہاں بولنے لکھنے میں اک اصطلاح بہت مقبول ہے . . . ’’اسلامی تشخص‘‘ تو میں اکثر سوچتا ہوں کہ ’’اسلامی تشخص‘‘ کے لئے اسلام کا نام لینا، مخصوص قسم کا حلیہ، مخصوص قسم کے نام اور رسمیں وغیرہ ہی کافی ہیں یا ’’اعمال‘‘ جیسی کسی شے کی بھی ضرورت ہے جبکہ دراصل اعمال ہی ’’اسلامی تشخص‘‘ کی اصل روح ہیں تو پھر زمینی حقائق کیا ہیں؟
کاش میں بھی کوئی ’’عالم‘‘ ہوتا تو زندگی سوالوں کی صلیب پر نہ گزرتی اور کبھی کسی کنفیوژن کا شکار نہ ہوتا۔ چند فرامین پر سنجیدگی سے غور کرتے ہیں۔
’’اے نوحؑ! تمہارا بیٹا اہل و عیال میں داخل نہیں ہے کیونکہ اس کے اعمال اچھے نہیں‘‘۔
’’اے نبیؐ! اپنی بیویوں، لڑکیوں، مسلمانوں کی عورتوں سے کہو کہ اپنی چادریں اپنے اوپر اوڑھ لیا کریں۔ یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ پہچانی جائیں اور ان سے خوامخواہ چھیڑ چھاڑ کی جائے‘‘۔
’’اے ایمان والو! کہ یںتم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جن پر تم سے پہلے کتاب اتری لیکن زمانۂ دراز گزر جانے پر ان کے دل سخت ہوگئے اور وہ اس کو فراموش کر بیٹھے‘‘۔
’’تمہارے لئے خدا کے پیغمبرؐ عمدہ نمونہ ہیں‘‘۔
’’جو ہماری ناراضی لوگوں کی رضا مندی کے مقابلہ میں خریدتا ہے ہم اس کو انہی کے حوالے کر دیتے ہیں۔ مال اور اولاد دنیا کی چند روزہ زندگی کے بنائو سنگار ہیں اور نیک اعمال جن کا اثر دیرتک رہنے والا ہے تمہارے پروردگار کے نزدیک ثواب کے اعتبار سے بھی بہتر ہیں اور آئندہ توقعات کے اعتبارسے بھی بہتر ہیں۔ تم ہر اونچی جگہ پر بے ضرورت یادگاریں بناتے ہو اور محل تعمیر کرتے ہو، کیا تم ہمیشہ دنیا میں ہی رہو گے؟‘‘
’’ہر شخص اپنے عمل کے بدلے میں گروی ہے‘‘۔
’’تحقیق وہ لوگ جنہوں نے تفرقہ کیا اور فرقہ فرقہ ہوگئے۔ تجھے ان کے بارے میں کوئی اختیار نہیں۔ ان کا معاملہ خدا کے حضور پیش ہے اور ان کو ان کے افعال سے خبر دےگا‘‘۔
’’کیا لوگوں نے سمجھ رکھا ہے کہ زبان سے اتنا کہنے میں ہی چھوٹ جائیں گے کہ ہم ایمان لے آئے اور ان کو آزمایا نہ جائے گا‘‘۔
’’اور سچ کو جھوٹ کے ساتھ مخلوط نہ کرو اور جان بوجھ کر حق کی بات کو نہ چھپائو حالانکہ تم اس بات کو جانتے ہو‘‘۔
’’آپس میں ایک دوسرے کے مال کو ناحق ناروا خرد برد نہ کرو اور نہ مال کو حاکموں کے پاس رسائی پیدا کرنے کا ذریعہ گردانو‘‘ (صرف اس ایک حکم کی روشنی میں ’’اسلامی تشخص‘‘ ڈھونڈنے کی کوشش کریں تو ہمیں کیا دکھائی دیتا ہے؟)
’’اے نبیؐ! تم سے دریافت کرتے ہیں خدا کی راہ میں کس قدر خرچ کریں؟ تم ان کو سمجھا دو کہ جتنا تمہاری حاجت سے زیادہ ہو، خرچ کر دو‘‘۔
’’جو کوئی زور ظلم سے کسی کا مال ہڑپ کرے گا تو ہم اس کو قیامت کے دن دوزخ کی آگ میں جھونک دیں گے‘‘۔
قارئین!
صرف چند جھلکیاں جن کی روشنی میں ہم چاہیں تو اپنے اندر کا اصل خودساختہ ’’اسلامی تشخص‘‘ بہ آسانی دیکھ سکتے ہیں۔ فرض کریں کوئی نیوٹرل قسم کاغیرملکی، غیر مسلم قرآنی تعلیمات سے انسپائر ہو کر پاکستان آ کر دو چار سال گزار کے ایک کتاب لکھتا ہے جس کا عنوان ہو ’’اسلامی پاکستان اور اسلامی تشخص‘‘ تو دیانتداری سے فرمائیں کہ وہ ہمارے اور ہمارے ملک کے بارے میں کیا لکھے گا؟ ہمارا ’’اصل تشخص‘‘ ہے کیا؟
جتنی نحوستیں اور پھٹکاریں ہم پر طاری ہیں وہ نہ آسمان سے اتری ہیں نہ امپورٹ کی گئی ہیں۔ دنیا کا کوئی ایک باعزت کامیاب معاشرہ بتائیں جہاں خیر اور شر کا تناسب ہم جیسا ہو، تو جب ہم اپنے ’’اسلامی تشخص‘‘ کی بات کرتے ہیں تو دراصل ہم کیا کر رہے ہوتے ہیں؟ خود کو بہلا رہے ہوتے ہیں یا خود کو دھوکہ دے رہے ہوتے ہیں؟ جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں؟ منافقت کا مظاہرہ کر رہے ہوتے ہیں یا لاعلمی، بے خبری، ڈھٹائی کی معراج پر ہوتے ہیں؟
NORA B.KATHRINSکی شاعری سے چند مصرعے
"MIRROR, MIRROR ON THE WALL,
YOU ARE NOT PLEASING ME AT ALL;
I KNOW YOU CAN NOT LIE, FORSOOTH,
BUT CAN’T YOU SLIGHTLY BEND THE TRUTH?”
یہ ہے ہماری حقیقی اجتماعی صورت حال لیکن کیا کریں کہ سچ صحیح ہوتا ہے لیکن مقبول نہیں ہوتا، جھوٹ خود فریبی مقبول ہوسکتی ہے، سچ نہیں ہوسکتی۔
اگر ہماری آبادی کاصرف پانچ فیصد بھی اصل ’’اسلامی تشخص‘‘ کی تلاش پر تل جائے تو. . . . .
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)
Source: Jung News
Read Urdu column Islami Tashakhas ki Tareef o talash By Hassan Nisar