اک اور دنیا کی کہانی – حسن نثار
عجیب بات ہے کہ 9ویں صدی کی مسلمان عورت کو بہت سی آزادیاں حاصل تھیں لیکن 10ویں صدی کے آخر تک پردہ نشینی اور مردوں کی صفوں سے ان کی مکمل علیحدگی کا رواج عام ہو چکا تھا۔ عباسیوں کے ابتدائی دور کا مطالعہ کریں تو ’’شریک زندگی‘‘ صحیح معنوں میں زندگی کی بھرپور شریک دکھائی دیتی ہے۔ خواتین نے نہ صرف بڑے بڑے امتیاز حاصل کئے بلکہ عرب دوشیزائیں فوجوں کی کمان سنبھالتی اور میدان جنگ میں دادِ شجاعت دیتی ہوئی بھی دکھائی دیتی ہیں۔ وہ شعر و ادب کے میدانوں میں بھی مردوں کے مقابل یاشانہ بشانہ دیکھی جاسکتی ہیں۔ موسیقی اور خوش گلوئی میں بھی مہارت رکھتی تھیں۔ ان کی ذکاوت بھی قابل ذکر و فخر تھی۔
جب زوال کا مرحلہ شروع ہوا تو اس کی بڑی وجوہات میں جنسی اخلاقیات کی بربادی اور لونڈیاں رکھنے کا رواج بہت اہم ہے کیونکہ یہ دیگر بے شمار عوارض کو بھی جنم دیتا ہے۔ عیش پرستی اور ہوس رانی کا وائرس عروج پر ہو تو سمجھ لو کہ زوال کی رفتار ضربیں کھا رہی ہے۔ بتدریج عورت کے مقام اور درجات میں انحطاط بڑھتا چلا گیا۔ داستانوں میں عورتوں کو سازش، مکر و فریب کی علامت کے طور پر پیش کیا جانے لگا اور یہ تاثر عام ہوا کہ عورت کا وجود ہی فاسد خیالات کا محور و مرکز ہے۔
دوسری طرف انہی زمانوں کی عشقیہ شاعری میں عورت کے حسن و جمال کے معیار پیش کئے گئے جن میں ذہنی و فکری حسن کا حوالہ تک موجود نہیں۔ معیار یہ تھا کہ عورت خیزران کے درخت کی مانند بلند قامت ہو، چہرہ چودھویں کے چاند جیسا گول اور روشن ہو، زلفیں اندھیری رات کی طرح سیاہ ہوں، رخسار صبیح اور گلاب جیسے جن پر تل ایسے ہو جیسے مرمریں طشت پر خام عنبر کی بوند، آنکھیں ہرنی جیسی، پلکیں لمبی، دہن تنگ اور دانت جیسے مرجان میں جڑے موتی، سرین بھاری، انگلیاں مخروطی یعنی سرتاپا بدن ہی بدن۔
زیادہ تر عرب مورخین کا فوکس ان کے حکمران، ان کا عروج و زوال رہا۔ عوام کا ذکر ڈھونڈنا بھوسے میں سوئی تلاش کرنے جیسا کام ہے۔ مثلاً عوام کے لباس میں قطع و برید تو ہوتی رہی لیکن آج تک کوئی بنیادی تبدیلی نہیںہوئی۔ پوشاک ایرانی الاصل پاجامے، قمیض، عبا، صدری اور جبہ پر مشتمل ہوتی تھی۔ ’’جبہ‘‘ کا لفظ عربی سے ہی سپینی زبان میںمنتقل ہوا۔ انگریزی میں MATTRESSکا لفظ عربی کے لفظ ’’مترہ‘‘سے آیا جس کا مطلب تھا گدی دار مربع وضع کی چھوٹی چٹائی۔
جو لوگ کبھی بچھوئوں، ٹڈیوں اور سوسماروں کو شوق سے کھاتے، چاول کو ایک زہریلی شے سمجھتے اور آٹے کی چپٹی ٹکیوں پر لکھا کرتے تھے، مہذب و متمدن کھانوں سے آشنا ہو رہے تھے۔ ایران کے دم پخت کھانے، حلوے اور مٹھائیاں انہیں پسند آگئیں اور تواور یہ لوگ اپنے چوزوں کو دودھ، بادام، اخروٹ کھلا پلا کر فربہ کرتے۔ کافی پینے کا رواج عام نہیں تھا اور تمباکو کا تو کسی نے نام تک نہ سنا تھا۔ نشہ آور مشروبات سے لطف اندوز ہونا بہت عام تھا۔ خلیفوں، شہزادوں، وزیروں اور قاضیوں تک کا پسندیدہ مشروب کھجور سے تیار شدہ شراب’’خمر‘‘ لوگوں کا دل پسند مشروب تھا۔ پینےپلانے کی محفلوں میں مہمان اور میزبان دونوں اپنی داڑھیوں کو مشک یا عرق گلاب سے معطر کرتے۔ عود دان میں عنبر یا ایلوے کی لکڑی جلا کر کمروں کو مہکایا جاتا۔
10ویں صدی کی ابتدا میں بغداد کے اندر تقریباً 27 ہزار حمام تھے جن کی تعداد بعد ازاں 60 ہزار تک بتائی جاتی ہے۔ ایک مسلمان اندلسی سیاح ابن جبیر نے 1327 میں بغداد کی سیاحت کی تو اس وقت بغداد کا مغربی حصہ 13 محلوں پر مشتمل تھا۔ ابن جبیر نے ہر محلے میں کم و بیش دو، تین اعلیٰ قسم کے ایسے حمام دیکھے جن میں بہتا ہواٹھنڈا اور گرم پانی مہیا کیا جاتا تھا۔
میدانی کھیلوں کی فہرست میں تیر اندازی، چوگان، گیند اندازی، صولجان (ایک طرح کی ہاکی)، شمشیر زنی، نیزہ بازی، گھڑ دوڑ اور شکار بہت مقبول تھے۔ شطرنج کا بھی رواج تھا۔ یہ مشغلے یا کھیل خلافت کے خاتمہ کے بعد اور صلیبی جنگوں میں خاص طور پر بہت مقبول ہوئے۔ غلاموں میں حبشی، ترک اور سفید فام ہوتے جو زیادہ تر یونانی، سلافی، آرمینی اور بربر ہوتے۔ بعض غلام غلمان کہلاتے تھے اور اس سلسلہ میں خلیفہ امین کا وہ ’’کارنامہ‘‘ قابلِ ذکر ہے جو اس نے ایران کی تقلید میں سرانجام دیا۔
قارئین!
معذرت خواہ ہوں۔ کرنٹ افیئرز میں کچھ نہ ملا تو مجھے موضوع کی تلاش میں چند صدیاں پیچھے جانا پڑا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)
Source: Jung News
Read Urdu column Aik aur Dunya ki Kahani By Hassan Nisar