ذیشان عثمانی جیسے لوگ – جاوید چوہدری
ذیشان عثمانی سے میرا تعارف اچانک ہوا‘ میں یوٹیوب پر سکرولنگ کر رہا تھااور اچانک میرے سامنے ایک وڈیو آ گئی‘ موضوع تھا ’’کھال موٹی رکھیں‘‘ عنوان بھی پرکشش تھا اور وڈیو بھی چھوٹی تھی‘ میں نے دیکھنا شروع کر دی اور ایک ہی وڈیو میں ان کا فین ہو گیا‘ میں اس کے بعد ان کی وڈیوز دیکھتا چلا گیا اور متاثر ہوتا چلا گیا۔
عثمانی صاحب شکل سے مولوی لگتے ہیں لیکن گفتگو جدید کرتے ہیں‘ شین قاف بھی درست ہے‘ لہجہ خالصتاً اردو سپیکنگ ہے اور قدرت نے روانی اور علم بھی دے رکھا ہے‘ میں نے پروفائل تلاش کیا‘ پتا چلا ’’ڈیٹا سائنٹسٹ‘‘ ہیں‘ دنیا کے نامور اداروں میں کام کر چکے ہیں اور آج کل امریکا میں رہائش پذیر ہیں‘ میں نے نمبر تلاش کیا‘ ڈائل کیا تو پتا چلا ان کا نمبر فون بک میں موجود ہے اور ماضی میں ان کے ساتھ رابطہ بھی رہا تھا۔
بہرحال پیغامات کا تبادلہ ہوا تو معلوم ہوا ذیشان صاحب دو بار ملاقات کے لیے بھی تشریف لا چکے ہیں اور ان دونوں ملاقاتوں کا انجام بھی زیادہ اچھا نہیں رہا تھا‘ یہ پہلی مرتبہ خودکش حملوں کا ٹرینڈ جانچنے کا سافٹ ویئر لے کر آئے تھے اور آئی جی پنجاب کو سافٹ ویئر گفٹ کرنا چاہتے تھے‘ ان کا دعویٰ تھا سافٹ ویئر خود کش حملہ آوروں کا ٹرینڈ دیکھ کر آپ کو بتا دے گا اگلہ حملہ کب اور کہاں ہو گا؟
میں نے انھیں مشورہ دیا ’’آپ سرکاری دفتروں میں رل جائیں گے‘ کوئی شخص آپ کی بات نہیں سمجھے گا‘ آپ یہ سافٹ ویئر وہاں بیچیں جہاں سے آپ کو چند پیسے بھی مل جائیں ‘ خریدار آپ کی بات بھی سمجھ سکے اور آپ کے کام کی نوعیت بھی‘‘ میرے جواب نے ذیشان عثمانی صاحب کو بہت مایوس کیا تھا‘ یہ دوسری مرتبہ اپنی چند تحریریں لے کر میرے پاس آئے‘ میں نے تحریریں پڑھیں اور انھیں مشورہ دیا‘ آپ اپنے کام پر توجہ دیں‘ لکھنا ایک مکمل پیشہ ہے‘ آپ اس میں اچانک چھلانگ لگا کر کام یاب نہیں ہو سکیں گے یوں میں نے انھیں دوسری بار بھی مایوس کر دیا۔
عثمانی صاحب نے ان دونوں ملاقاتوں کا حوالہ دیا‘ میں نے ان سے معذرت کی اور عرض کیا‘ میں زیادہ پڑھے لکھے اور ذہین لوگوں کو ہمیشہ اپنے سسٹم سے بچانے کی کوشش کرتا ہوں اور دوسرا میری رائے اور تجربہ ہے تیس سال کے بعد لکھنے کی کوشش میں کام یابی کے امکانات کم ہوتے ہیں لہٰذا میں کام یاب لوگوں کو لکھنے لکھانے سے ڈس کرج کرتا ہوں کیوں کہ یہ کام مشکل بھی ہے‘ طویل بھی اور اس میں فاقوں اور بے روزگاری کی ہزاروں چٹانیں بھی آتی ہیں چناں چہ آپ کے ساتھ بھی ’’مساویانہ سلوک‘‘ ہوا‘ یہ ہنس کر بولے ’’لیکن میں نے آپ کی بات کو چیلنج کے طور پر لیا۔
میں نے اس دن اللہ تعالیٰ کو خط لکھا اور عرض کیا’’یاباری تعالیٰ جاوید چوہدری کا خیال ہے میں رائٹر نہیں بن سکتا‘ آپ مجھے ہمت دیں تاکہ میں اس شخص کو غلط ثابت کر سکوں‘‘ میں نے پوچھا ’’پھر کیا نتیجہ نکلا؟‘‘ وہ بولے ’’آپ کی پہلی رائے درست ثابت ہوئی‘ میں نے پاکستان کی ایک یونیورسٹی میں ڈیٹا سائنس پڑھانا شروع کی اور مجھے ان لوگوں نے تیرہ ماہ میں جوتے مار مار کر سیدھا کر دیا اور میں بھاگ کر امریکا میں پناہ لینے پر مجبور ہو گیا ہاں البتہ آپ کی دوسری رائے غلط ثابت ہوئی‘ میں اب تک 36کتابوں کا مصنف بھی ہو چکا ہوں‘ یوٹیوبر بھی بن چکا ہوں اور گفتگو پبلی کیشنز کے نام سے اپنا ادارہ بھی چلا رہا ہوں‘‘ میں ان سے مزید متاثر ہو گیا اور یوں ان سے دوستی کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
ذیشان عثمانی خود بھی ایک موٹی ویشنل اسٹوری ہیں‘ اندرون سندھ میں گائوں میں پیدا ہوئے‘ 14بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے‘ والد برتن بیچتے تھے‘یہ وڈیروں سے مار کھا کھا کر بڑے ہوئے‘ بڑی مشکل سے اسکول میں داخل ہوئے‘ اللہ تعالیٰ نے صلاحیتوں کے خزانے سے نواز رکھاتھا‘ وظائف لے لے کر یونیورسٹی تک پہنچ گئے‘ دو بار فل برائیٹ اسکالر شپ لیا‘ کمپیوٹر سائنسز میں مختلف اداروں سے ڈگریاں لیں اور دنیا کے اعلیٰ ترین اداروں میں ملازمتیں اختیار کیں۔
سعودی عرب میں ولی عہد محمد بن سلمان کے پرسنل اسٹاف میں بھی شامل رہے‘ 103 ملک گھوم چکے ہیں اور 76 سربراہ ریاست اور گلوبل لیڈرز سے مل چکے ہیں‘ وسیع المطالعہ ہیں‘ تیس ہزار کتابیں اسلام آباد پڑی ہیں اور عثمانی صاحب نے یہ تمام کتابیں پڑھی ہوئی ہیں‘ زندگی کے تھپیڑوں نے بے انتہا سیریس بنا دیا ‘ ہنستے اور مسکراتے نہیں ہیں‘ انتہائی غیرسنجیدہ بات کا جواب بھی پورے خشوع وخضوع کے ساتھ دیتے ہیں‘ دنیا کے بڑے اداروں سے 176 سرٹیفکیٹ لے چکے ہیں‘ پانچ سات شہریتیں بھی ہیں‘ گفتگو پبلی کیشنز کے نام سے کتابیں بھی چھاپ رہے ہیں‘ یہ ان کا ’’اسٹارٹ اپ‘‘ ہے اور اس اسٹارٹ اپ سے انھوں نے 76کتابیں شایع کیں‘ ٹیکنالوجی کو بھی اردو میں منتقل کر دیا۔
آپ یہ کتابیں پڑھ کر ڈیٹا سائنس دان بھی بن سکتے ہیں اور ڈیجیٹل مارکیٹنگ بھی سیکھ سکتے ہیں‘ یہ کتابوں سے کس قدر محبت کرتے ہیں آپ صرف ایک مثال لے لیجیے‘ مسدس حالی میں المجستی نام کی عربی زبان کی ایک کتاب کا ذکر ہے‘ یہ کتاب دوسری صدی عیسوی میں کلائیو ڈیس ٹالمی نے لکھی تھی‘ فلکیات کی کتاب ہے اور ہزار سال تک اسلامی مدارس میں پڑھائی جاتی رہی‘ ذیشان عثمانی نے تلاش شروع کی‘ تلاش بسیار کے بعد پتا چلا ’’برٹش میوزیم‘‘ میں صرف ایک کاپی موجود ہے‘ میوزیم نے فی صفحہ ساڑھے چار پائونڈ (1ہزار 52 روپے) وصول کیے۔
کتاب کی کاپی ملی اور ذیشان عثمانی نے یہ عظیم کتاب دو سو سال کے وقفے کے بعد شایع کر دی لیکن اس کتاب کی ایک بھی کاپی فروخت نہیں ہوئی‘ کسی مدرسے تک نے کتاب نہ منگوائی‘ گفتگو پبلی کیشنز ویب سائیٹ بیسڈ اسٹارٹ اپ ہے‘ کتابیں اپ لوڈ بھی ہوتی ہیں اور کتاب کی شکل میں بھی بیچی جاتی ہیں لیکن یہ تجربہ بھی عثمانی صاحب کو بہت مہنگا پڑ رہا ہے‘ لوگ دھڑادھڑ ’’فیک آرڈرز‘‘ کر دیتے ہیں اور کتابیں خوار ہو کر واپس آ جاتی ہیں‘ انھوں نے دو واقعات سنائے‘ کسی صاحب نے دس کتابیں آرڈر کر دیں‘ کتابیں کوریئر کے ذریعے بھجوائی گئیں اور واپس آ گئیں‘ فون کے ذریعے ان صاحب سے رابطہ کیا گیا‘ وہ معذرت خواہ ہوئے اور فرمایا‘ کتابیں دوبارہ بھجوا دیں‘ میں کوریئر کے پچھلے اخراجات بھی دے دوں گا۔
کتابیں دوسری بار بھی واپس آ گئیں‘ دوسری بار رابطہ کیا گیا تو وہ صاحب ہنس کر بولے ’’آپ لوگوں سے انتقام لینے کا یہ ہی طریقہ ہے‘ آپ کتابوں کے نام پر لوگوں کو لوٹتے ہیں‘‘ اسی طرح کسی موٹی ویشنل اسپیکر نے مفت کتابیں منگوائیں‘ انکار کر دیا تو انھوں نے اپنے شاگردوں کو گفتگو کی ویب سائیٹ ہیک کرنے پر لگا دیا اور ویب سائیٹ پر سائبر حملے شروع ہو گئے‘ ذیشان عثمانی کو ان فیک آرڈرز کی وجہ سے سال میں اٹھارہ لاکھ روپے نقصان ہو جاتا ہے اور اب تک تین سی ای اوز نوکری چھوڑ کر جا چکے ہیں لیکن یہ اس کے باوجود ڈٹے ہوئے ہیں‘ ان کا خیال ہے ہم لوگوں کو صرف کتاب کے ذریعے ہی بدل سکتے ہیں اور یہ کام ہو کر رہے گا۔
ذیشان عثمانی کا کہنا ہے ملک میں بے شمار چیزیں خراب ہیں‘ گالی گلوچ کا کلچر بھی ہے‘ میں بھی جب کوئی وڈیو اپ لوڈ کرتا ہوں یا کسی کتاب کا تعارف کراتا ہوں تو لوگ مجھے بھی جی بھر کر گالیاں دیتے ہیں‘میری کتاب شایع ہونے سے پہلے اس کے بارے میں منفی تبصرے چھپ جاتے ہیں‘ پاکستان آتا ہوں تو ہر بار مار کھاتا ہوں‘ کبھی سڑک پر مار پڑ جاتی ہے اور کبھی کوئی دوست‘ عزیز یا رشتے دار لوٹ لیتا ہے لیکن میں اس کے باوجود مایوس نہیں ہوتا‘ میرا مشورہ ہے‘ آپ بھی معاشرے کے مثبت پہلوئوں پر توجہ دیں‘ پاکستان میں برائیوں کے ساتھ ساتھ بے شمار اچھے کام بھی ہو رہے ہیں‘ نوجوانوں نے لاتعداد شان دار اسٹارٹ اپس شروع کیے ہیں‘ آپ ان کو پروموٹ کریں‘ اس سے معاشرے میں مثبت تبدیلیاں آئیں گی۔
میں نے ان سے اتفاق کیا اور انھیں اپنے اسٹارٹ اپ کے بارے میں بتایا‘ ہم مائینڈ چینجر یوٹیوب چینل اور ٹریننگ سیشنز کے ذریعے لوگوں کو بدلنے کی کوشش کر رہے ہیں‘ ہماری سوچ بدلے گی تو ہم بدلیں گے ورنہ یہ معاشرہ اسی طرح گٹڑ بنتا چلا جائے گا‘ ہم اس بگڑتے ہوئے معاشرے کو صرف کتاب اور خطاب سے ٹھیک کر سکتے ہیں لیکن خطاب اور کتاب دونوں کا عقلی‘ منطقی اور عملی ہونا ضروری ہے‘ تقریر برائے تقریر نہیں ہونی چاہیے‘ ہمیں یہ بھی ماننا ہوگا یہ معاشرہ بری طرح جہالت میں لت پت ہے اور ہم اسے اب کتابوں اور ذیشان عثمانی جیسے لوگوں کے ذریعے بچا سکتے ہیں لہٰذا یہ اہتمام کریں ورنہ ہم گئے۔
نوٹ:آپ اگر ذیشان عثمانی کے بارے میںمزید جاننا چاہتے ہیں تو آپ ان کا سوانحی ناول ’’جستجو کا سفر‘‘ پڑھ لیں۔
Source: Express News
Must Read Urdu column Zeeshan Usmani Jaise Log By Javed Chaudhry