چند سنجیدہ سوال – جاوید چوہدری
سیالکوٹ میں 3دسمبر کو سری لنکن پروڈکشن مینیجر پریانتھا کمارا ہجوم کے ہاتھوں قتل ہوا اور ہجوم نے اس کے بعد اس کی لاش کی بے حرمتی کی‘ لاش کو ڈنڈے‘ اینٹیں اور ٹھڈے بھی مارے گئے اور پٹرول چھڑک کر آگ بھی لگا دی گئی۔
آج اس واقعے کو11دن گزر چکے ہیں لیکن یہ افسوس بن کر آج بھی ہر پاکستانی کی روح میں سلگ رہا ہے‘ ہم سب اندر سے گھائل ہو چکے ہیں‘ پولیس نے واقعے کے بعد کمال کر دیا‘ 124لوگ گرفتار ہوئے‘ ان میں 34 بڑے مجرم ہیں‘ آٹھ مجرموںنے اپنی غلطی بھی مان لی اور یہ مرکزی مجرم بھی ڈکلیئر ہو چکے ہیں‘ یہ مقدمہ عن قریب چلے گا اور سات آٹھ مجرموں کو بہت جلد سزائے موت بھی ہو جائے گی۔
حکومت اس معاملے میں بہت کلیئر ہے‘ یہ چاہتی ہے یہ کیس جلد سے جلد وائینڈ اپ ہو جائے تاکہ دنیا میں ثابت کیاجا سکے پاکستان مکمل‘ آزاد اور قانون پسند ملک ہے‘ یہ بنانا اسٹیٹ نہیں ‘ یہ پیش رفت قابل تحسین ہے‘ ہم جتنا جلد بنانا اسٹیٹ کے ٹیگ سے نکل جائیں گے ہمارے لیے اتنا ہی بہتر ہوگا لیکن یہاں پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے اور میں ریاست سے یہ سوال کرنا چاہتا ہوں‘ آپ دل پر ہاتھ رکھ کرجواب دیں‘ پریانتھا کمارا کو قتل کرنے والے لوگ عام فیکٹری مزدور تھے‘ یہ کسی مذہبی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں رکھتے تھے‘ یہ بھڑک اٹھے‘ ہجوم کی نفسیات غالب آئی اور یہ افسوس ناک‘ اندوہناک واقعے کے ذمے دار بن گئے۔
یہ اب اپنے کیے کی سزا بھی پائیں گے اور انھیں یہ سزا ملنی بھی چاہیے لیکن سوال یہ ہے ’’مجرم اگر عام غریب مزدور نہ ہوتے اور ان کا تعلق کسی مذہبی سیاسی جماعت کے ساتھ ہوتا تو کیا ریاست کا ردعمل اس وقت بھی یہی ہوتا‘ کیا یہ انھیں بھی اسی طرح گرفتار کرتی‘ کیا ان کے خلاف بھی اسی طرح مقدمے بنتے اور کیا انھیں بھی اسی طرح گرفتار کر کے جلد سے جلد کیفرکردار تک پہنچایا جاتا یا پھر ان کی گرفتاری کے بعد جی ٹی روڈ پر دھرنا ہوتا۔
پولیس کے سات آٹھ لوگوں کو بھی سری لنکن پریانتھا کمارا کی طرح قتل کر کے کھیتوں میں پھینک دیا جاتا اور ریاست نہ صرف ان کے ساتھ خفیہ معاہدہ کر لیتی بلکہ انھیں فورتھ شیڈول سے نکال کر انھیں سیاسی جماعت بھی مان لیا جاتااور ریاست اپنے تمام الزامات بھی واپس لے لیتی؟‘‘ آپ ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجیے اور آپ اگر جواب دے ہی رہے ہیں تو میں یہ بھی پوچھ لیتا ہوں‘ یہ124 لوگ آج حوالات میں ہیں تو کیا اس کی وجہ یہ نہیں کسی سیاسی اور مذہبی جماعت نے ابھی تک انھیں اون نہیں کیا۔
یہ اگر انھیں ’’عاشق رسولؐ‘‘ مان لیتی تو کیا پھر بھی ان کے ساتھ یہی سلوک ہوتا؟ کیا پھر بھی ریاست میں انھیں گرفتار کرنے کی ہمت ہوتی؟ آپ یقین کریں یہ سوال پاکستان کا مستقبل ہیں‘ ہم نے جس دن ان سوالوں کا جواب تلاش کر لیا‘ یہ ملک اس دن اپنے قدموں پر کھڑاہو جائے گا‘ ملک کی اصل حالت یہ ہے فیصل آباد کے الائیڈ اسپتال کی دو کرسچین نرسز پر9 اپریل 2021 کو توہین کا الزام لگا۔
ہجوم نے انھیں گھیر لیا‘ اسپتال کی انتظامیہ نے بڑی مشکل سے ان کی جان بچا کر پولیس کے حوالے کیا‘ یہ اب جیل میں الگ تھلگ کمرے میں بند ہیں اور8ماہ میں کوئی جج ان کا کیس سننے کے لیے تیار نہیں ہوا‘ انھیں وکیل تک نہیں مل رہا اور پولیس کا کوئی اہلکار ان کا چالان بھی تیار کرنے کے لیے راضی نہیں لہٰذا آپ پھرخود سوچیے خوف کے اس عالم میں یہ ریاست کیسے چلے گی؟
میں اس سوال کے ساتھ ساتھ مدت سے چند اور سوال بھی پوچھنا چاہتا ہوں‘ میرے یہ سوال علماء کرام سے ہیںاور میں یہ صرف اور صرف اپنے نالج کے لیے پوچھنا چاہتا ہوں۔ ہم اگر رسول اللہﷺ جیسی ریاست مدینہ بنانا چاہتے ہیں تو کیا یہ ہم جیسے گناہ گار بنا سکتے ہیں؟
رسول اللہﷺ فخر کائنات ہیں‘ ان جیسی ریاست قائم کرنا تو دور ہمیں تو یہ سوچنے سے پہلے بھی اپنی سوچ کو ہزاروں مرتبہ عرق گلاب سے غسل دینا چاہیے‘ پھر بھی شاید ہی ہماری سوچ کا وضو مکمل ہو سکے گا لہٰذا میری علماء کرام سے درخواست ہے آپ مہربانی فرما کر ریاست مدینہ کی تشریح کر دیں اور وزیراعظم صاحب کو بھی بتا دیں تاکہ یہ جب ریاست مدینہ کی بنیاد رکھیں تو یہ اپنی ذات میں کلیئر ہوں‘ کیوں؟ کیوں کہ مجھے خطرہ ہے یہ ریاست بنانے کے بعد کہیں یہ نہ سوچ رہے ہوں ہم نے اس ریاست پر تختی کس کی لگانی ہے؟
ہم اس بحث کو چند لمحوں کے لیے سائیڈ پر رکھتے ہیں اور فرض کرلیتے ہیں ہمارے وزیراعظم ایک کرائم فری اسٹیٹ بنانا چاہتے ہیںتو پھر میرا انھیں مشورہ ہے آپ کو پیچھے ماضی میں جانے کی کوئی ضرورت نہیں‘ دنیا میں اس وقت 12 کرائم فری ملک ہیں‘ آئس لینڈ پہلے نمبر پر آتا ہے‘ سنگا پور دوسرے‘ آسٹریا تیسرے اور اس کے بعد ڈنمارک‘ پرتگال‘ کینیڈا‘ سوئٹزر لینڈ‘ نیوزی لینڈ‘ ناروے‘ اسپین‘ ہانگ کانگ اور نیدرلینڈ آتے ہیں‘ آئس لینڈ میں ہفتہ اور اتوار دو دن تھانے تک بند ہوتے ہیں۔
پورے ملک میں صرف دو سو پولیس اہلکار ہیں اور بس جب کہ دنیا کے ٹاپ 20 کرائم فری ملکوں میں اومان‘ یواے ای‘ قطر اور بحرین چار اسلامی ملک بھی شامل ہیں‘ آپ ان کو کاپی کر لیں‘ آپ اگر ٹیکس فری اسٹیٹ بنانا چاہتے ہیں تو دنیا میں اس وقت 20 ٹیکس فری ملک ہیں‘ ان میں بھی دو اسلامی ملک شامل ہیں‘ آپ اگر ایک غیر مقروض ملک بنانا چاہتے ہیں تو دنیا میں اس وقت 13غیر مقروض ملک ہیں‘ ان میں ایک اسلامی ملک اردن بھی شامل ہے۔
آپ اگر قانون کی ایسی پابند ریاست بنانا چاہتے ہیںجس میں صدر سے لے کر چپڑاسی تک تمام لوگ قانون کی پابندی کرتے ہوں تو دنیا میں اس وقت دس قانون کے پابند ملک بھی ہیں‘ ڈنمارک‘ ناروے‘ فن لینڈ‘ سویڈن‘ ہالینڈ‘ جرمنی‘ نیوزی لینڈ‘ آسٹریا‘ کینیڈا اور آسٹریلیا‘ آپ اگر انصاف پر مبنی معاشرہ بنانا چاہتے ہیں تو پھر دنیا میں 9 ایسے ملک ہیں جن کے جسٹس سسٹم کی قسم کھائی جا سکتی ہے اورآپ اگر معاشی طور پر مضبوط اور خودمختار ملک بنانا چاہتے ہیں تو دنیا میں 15 معاشی طاقتیں بھی موجود ہیں اور آپ اگر ایسی ریاست بنانا چاہتے ہیں جن میں عورتوں اور مردوں کے حقوق برابر ہوں تو دنیا میں اس وقت ایسے دس ملک موجود ہیں۔
ان ملکوں میں عورتوں اور مردوں کے ساتھ ساتھ تمام طبقے بھی برابر ہیں‘ ان میں کوئی غریب اور امیر‘ چھوٹا یا بڑا اور کالا اور گورا نہیں‘ تمام انسان برابر ہیں‘ وزیراعظم صاحب ان میں سے کسی ملک کو اٹھائیں اور کاپی کر لیں اور اگر اس کے باوجود ان کا اصرار ہے یہ ریاست مدینہ ہی بنائیں گے تو پھر سوال یہ ہے کیا آپ خود اور آپ کے ساتھی ریاست مدینہ کے معیار پر پورے اترتے ہیں؟
کیا آپ کی کابینہ کے دس بڑے وزراء ریاست مدینہ کی شہریت کے قابل ہیں‘ کیا آپ ان کی صداقت اور امانت کی قسم کھا سکتے ہیں‘ کیا ان کے دامن اتنے پوتر ہیں کہ انھیں نچوڑ کر فرشتے وضو کر سکیں؟اگر اس کا جواب نہیں ہے اور اگر آپ خود بھی ریاست مدینہ کے اسٹینڈرڈ پر پورے نہیں اترتے تو کیا پھر آپ سے ریاست مدینہ کی بنیاد رکھوائی جا سکتی ہے؟ اگر نہیں تو پھر آپ کس کو دھوکا دے رہے ہیں۔
کس کے جذبات سے کھیل رہے ہیں اور کیا اسلام میں سیاسی جماعتوں اور حکمرانوں کو رسول اللہﷺ کے نام پر عام لوگوں کے جذبات سے کھیلنے کی اجازت دی جا سکتی ہے؟ لہٰذا میری آپ سے درخواست ہے ہم سب کی عزت‘ جان اور مال ہمارے آقا نبی اکرمؐ پر قربان‘ آپ پلیز ان کا نام لے کر لوگوں کودھوکا نہ دیں‘ اللہ کے عذاب سے ڈریں‘ ہم پہلے ہی اپنی اوقات سے زیادہ عذاب بھگت رہے ہیں۔
Source: Express News
Must Read Urdu column Chnd Sanjeeda Sawal By Javed Chaudhry