ڈیل اور سیاست – انصار عباسی
نواز شریف کیا واقعی واپس آ رہے ہیں؟ اس بارے میں بہت شور مچا ہوا ہے۔ ایک طرف ن لیگی رہنما اور سابق ا سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کا بیان، دوسری طرف وزیر اعظم عمران خان کی ’’حیرانی‘‘ پھر کچھ صحافیوں کی اپنی اطلاعات، اس سب نے پاکستانی سیاست کو نواز شریف پر مرکوز کر دیا ہے۔
ہر کوئی یہی بات کر رہا ہے کہ نواز شریف واپس آ رہے ہیں یا نہیں؟ جب واپسی کی بات ہو رہی ہے تو پھر ڈیل کی بات لازم ہے ‘جس پر سوال اُٹھ رہے ہیں کہ کیا ڈیل ہو چکی یا پھر ابھی کچھ رکاوٹیں ہیں؟ یہ سارا شور ایاز صادق صاحب کے بیان سے پیدا ہوا۔
ایاز صادق حال ہی میں نواز شریف سے لندن میں ملاقات کے بعد واپس لوٹے اور آتے ہی ہاپنے بیانوں کی وجہ سے میڈیا پر چھا گئے۔ وہ کہتے ہیں کہ’’ جلد کچھ بڑا ہونے والا ہے اور جو ہو گا وہ دھماکہ ہو گا‘‘۔
ایاز صادق نے یہ بھی کہا کہ ہو سکتا ہے نواز شریف اُن کے دوبارہ لندن جانے سے پہلے ہی واپس لوٹ آئیں۔ یہ بھی کہا کہ غیر سیاسی لوگ نواز شریف سے لندن میں ملاقاتیں کر رہے ہیں، وہ جلد واپس آئیں گے۔
اسی ماحول میں وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے کہا گیا کہ نواز شریف کی نااہلی کو ختم کرنے کے رستے نکالے جا رہے ہیں! اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ سزا یافتہ مجرموں کو چھوڑنا ہے تو جیلوں کے دروازے کھول دیں۔
خان صاحب اس بات پر بھی حیران ہیں کہ تین دفعہ وزیراعظم رہنے والا فرد جو سزا یافتہ بھی ہے، کیسے چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بن سکتا ہے۔
اس ماحول میں جیو کے سینئر اینکر سلیم صافی صاحب کا ایک ٹویٹ بڑی اہمیت اختیار کر گیا جس میں وہ لکھتے ہیں: ’’ایک ضروری اعلان سنیے: میاں نواز شریف جنوری میں پاکستان آنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ منصوبے کے مطابق واپسی پر جیل جائیں گے، پھر عدالتوں سے ریلیف اور سابقہ سزائوں کے خاتمے کی اپیلیں ہوں گی۔
ڈی جی نیب لاہور کا تبادلہ اسی سلسلے کی کڑی ہے جبکہ نواز شریف سکرپٹ سے مطمئن ہیں۔ اعلان ختم ہوا۔‘‘
ڈیل ہو چکی، یا ڈیل ہو رہی ہے، سکرپٹ فائنل ہو چکا یا ابھی اُس پر کام ہو رہا ہے، ان سب سوالات پر ہر طرف بحث و مباحثہ جاری ہے۔ نام کوئی نہیں لے رہا۔
نام وزیر اعظم نے بھی نہیں لیا کہ کون نواز شریف کی نااہلی کے خاتمہ کا رستہ نکال رہا ہے، ایاز صادق بھی کھل کر نہیں بتا رہے کہ کون غیر سیاسی لوگ نواز شریف سے لندن میں ملاقاتیں کر رہے ہیں۔
سلیم صافی نے بھی وضاحت نہیں کی کہ وہ سکرپٹ کس کا ہے جس سے نواز شریف مطمئن ہیں۔ابھی گزشتہ ہفتہ ہی سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا تھا کہ فارمولے والے اُن کی مدد لینے آئے تھے کہ کس طرح ملک کو اس موجودہ بھنور سے نکالا جائے، جس پر اُنہوں نے فارمولے والوں کو کہا کہ پہلے عمران خان کو نکالو۔ یعنی ہر طرف ڈیل ہی ڈیل کی کہانیاں چل رہی ہیں۔
سچ کیا ہے، کون سی ڈیل کس سے فائنل ہوتی ہے، عمران خان حکومت کا کیا بنتا ہے، آئندہ کون آگے آئے گا یا کسی کو غیبی مدد سے آگے لایا جائے گا، اس کا انتظار ہے۔ سیاسی جماعتیں ڈیل کے ہی انتظار میں ہیں۔
اگر کوئی یہ ڈیل چاہتا ہے کہ موجودہ حکومت کو ختم کر کے اُس کے لیے رستہ بنایا جائے تو کسی دوسرے کی یہ خواہش ہے کہ اُس کے لیے ملک اور سیاست میں واپسی کا راستہ ہموار کر کے آئندہ الیکشن کو آزادانہ کروایاجائے تو وہ خوش ہو گا۔ جو ڈیل کا مزہ لے چکے۔
وہ چاہتے ہیں کہ ڈیل والے اُن کے ساتھ ہی مخلص رہیں ، چاہے اُن کی کارکردگی جیسی بھی ہو اُن کی حمایت جاری رکھیں اور اُن کے مخالفین کو کوئی رعایت نہ دیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان کی سیاست ڈیل کے ہی ارد گرد گھوم رہی ہے۔
حالات بدل نہیں رہے، ماضی سے کوئی سبق سیکھا نہیں جا رہا۔ ڈیل کرنے والے اور ڈیل کے طلب گار سب اپنا اپنا ذاتی مفاد دیکھتے ہیں۔ بیانات، نعرے، باتیں سب کچھ زبانی جمع خرچ ہے۔
حقیقت تلخ ہے، تلخ ہی رہے گی۔ فکر یہ ہے کہ نجانے پاکستان کا کیا بنے گا!
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)
Source: Jung News
Read Urdu column Deal aur Siasat By Ansar Abbasi