تبدیلی سرکار میں بغاوت- حامد میر
زیادہ پرانی بات نہیں جب پاکستان کی سیاست میں تبدیلی کا نعرہ امید کا استعارہ تھا۔ یہ عمران خان کا کمال ہے کہ انہوں نے اپنی حکومت کے صرف تین سالوں میں ہی تبدیلی کا لفظ اتنا بدنام کر دیا کہ اب یہ طعنہ اور گالی بن چکا ہے۔
سن 2018 میں جن لوگوں نے عمران خان کو ووٹ دیا تھا، اب وہ اپنے آپ کو کوستے پھر رہے ہیں جبکہ گزشتہ الیکشن میں تحریک انصاف کے ٹکٹ پر قومی یا صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑنے والوں کی تو راتوں کی نیندیں تک اڑ چکی ہے۔
ان میں سے کئی ایسے بھی ہیں جو کہیں اور اڑان بھرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان اور ان کی کابینہ کی کارکردگی سے تحریک انصاف کے متعدد اراکین قومی و صوبائی اسمبلی میں مایوسی بتدریج بڑھتے ہوئے بے چینی اور غصے میں تبدیل ہو رہی ہے۔
تبدیلی کا نعرہ لگانے والی سیاسی جماعت میں یہ تبدیلی بہرحال نظر آ رہی ہے کہ سن 2018 میں تحریک انصاف کے ٹکٹ پر کامیابی حاصل کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد آئندہ الیکشن میں تحریک انصاف کے ٹکٹ پر حصہ لینے کے لیے ہرگز تیار نہیں۔
یہ خاکسار تحریک انصاف کے ایسے کئی اراکین قومی اسمبلی کو جانتا ہے جو آئندہ الیکشن سے پہلے پہلے کسی اور پارٹی میں گھسنے کا راستہ تلاش کر رہے ہیں۔
ان میں سے دو تو ایسے بھی تھے، جنہوں نے میرے ذریعے شہباز شریف سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی تو میں نے انہیں کہا کہ ’جناب میں ان کو کافی عرصے سے ایک صحافی کی حیثیت سے جانتا ہوں، مجھے صحافی ہی رہنے دیں، ان کے مشیر کے درجے پر فائز نہ کریں‘۔
اس سے پہلے کہ یہ دونوں رو پڑتے، میں نے انہیں ان کے ہی ایک ساتھی ایم این اے کا نام بتا دیا، جو تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی کے مسلم لیگ نون والوں سے خفیہ رابطے کرا رہے ہیں۔
مسلم لیگ نون کے ٹکٹ کا حصول ان دوستوں کی مجبوری ہے، جنہوں نے اگلا الیکشن پنجاب سے لڑنا ہے۔ دوسری طرف سندھ یا خیبر پختونخوا سے الیکشن لڑنے کے خواہش مند پیپلز پارٹی، جے یو آئی ف اور اے این پی کے دروازے کھٹکھٹا رہے ہیں۔
آج کل اسلام آباد میں صورتحال بڑی دلچسپ ہے۔ تحریک انصاف کے چند اراکین اسمبلی دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ خفیہ رابطوں میں مصروف ہیں، تو کچھ ایسے بھی ہیں، جن کے رابطے اور گفتگو کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔
ایسے ہی دبنگ اراکین اسمبلی میں نور عالم خان بھی شامل ہیں۔ وہ گزشتہ الیکشن میں پشاور سے تحریک انصاف کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے، لیکن آج کل وہ اپوزیشن جماعتوں کی آنکھوں کا نور بنے ہوئے ہیں۔
کچھ دن پہلے نور عالم خان اور بلاول بھٹو زرداری کے درمیان بہت دلچسپ ایک گفتگو ہوئی۔ یہ گفتگو شیخ روحیل اصغر کی طرف سے دیے گئے ایک عشائیے میں ہوئی۔ شیخ صاحب کا تعلق مسلم لیگ نون سے ہے، جو سن 1985 میں پہلی مرتبہ ایم این اے بنے تھے۔
یہی وہ الیکشن تھا، جس میں شرکت سے نواز شریف اور شہباز شریف نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا تھا۔ شیخ صاحب سیاست میں اپنی قیادت سے کچھ زیادہ سینئر ہیں، جس کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ سن 1979 میں وہ لاہور سے کونسلر منتخب ہوئے تھے۔
شیخ روحیل اصغر ایک کھلے ڈلے سیاست دان ہیں۔ پارلیمنٹ لاجز کے ایک چھوٹے سے اپارٹمنٹ میں رہتے ہیں لیکن ان کا دل بہت بڑا ہے۔ اسی وسیع القلبی کا مظاہرہ وہ اپنے ہفتہ وار عشائیے میں کرتے رہتے ہیں، جہاں حکومت اور اپوزیشن کے ارکان پارلیمنٹ ایک ساتھ بیٹھ کر لاہوری کھانوں کا مزا لیتے ہیں۔
شیخ صاحب اپنے اپارٹمنٹ کے باہر برآمدے میں میز کرسیاں لگا دیتے ہیں اور پھر ہر میز پر حکومت اور اپوزیشن کے اراکین پارلیمنٹ آپس میں سر جوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ ایسی محافل میں پھر حکومت، حکومت نہیں رہتی اور اپوزیشن، اپوزیشن نہیں۔
آج کل ان محفلوں میں مسلم لیگ نون کے ممبران شہباز شریف پر تنقید کرتے بھی نظر آتے ہیں اور تحریک انصاف والے عمران خان کے انداز حکمرانی کو اپنی سیاست کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے بھی۔
پیر کی شام شیخ روحیل اصغر نے بلاول بھٹو زرداری کو بھی اپنے ڈیرے پر دعوت طعام دے ڈالی۔ بلاول صاحب نے فوری طور پر دعوت قبول کر لی اور وقت پر تشریف بھی لے آئے۔
شیخ صاحب کو نہ جانے کیا سوجھی کہ انہوں نے مجھے بلاول کے دائیں اور نور عالم خان کو بائیں جانب بیٹھا دیا۔ اس میز پر راجہ پرویز اشرف، سید خورشید شاہ اور محسن داوڑ بھی موجود تھے۔
بلاول صاحب نے کہا کہ انہیں بہت اچھا لگ رہا ہے کہ ’ہم پارلیمنٹ کے اندر اگرچہ ایک دوسرے پر تنقید کرتے ہیں لیکن یہاں مل بیٹھ کر کھانا کھا رہے ہیں‘۔
شیخ صاحب نے ان کے سامنے گچک لا کر رکھ دی اور بتایا کہ یہ گڑ سے تیار ہوتی ہے۔ راجہ پرویز اشرف نے پوچھ لیا کہ کیا یہ ریوڑی ہے؟ تب شیخ صاحب نے انہیں گچک اور ریوڑی کا فرق سمجھایا۔ پھر سٹارٹر کے طور پر پنیر والے تندوری نان آ گئے۔ سب نے گرم گرم نانوں کا مزا لینا شروع کیا تو میں نے نور عالم خان سے پوچھا کہ آپ اگلا الیکشن کس پارٹی کے ٹکٹ پر لڑیں گے؟
نور عالم خان کچھ مسکرائے، پھر کسمسائے اور شرما کر بولے کہ ابھی فیصلہ تو نہیں کیا، لیکن تحریک انصاف کے ٹکٹ پر نہیں لڑوں گا۔ محسن داوڑ نے شرارتی لہجے میں کہا یہ مولانا عطا الرحمان کے بہت قریب ہیں، انہیں جے یو آئی کی ٹکٹ مل جائے گی۔
یہ سن کر بلاول صاحب نے حیران کن نظروں سے نور عالم خان کی طرف دیکھا تو انہوں نے لہجہ بدل کر کہا کہ وہ استخارہ کریں گے۔ اس بات پر سب ہنس پڑے۔ سید خورشید شاہ بولے یہ ‘ان گائیڈڈ میزائل‘ ہے، جدھر بھی جائے گا تباہی پھیلائے گا۔ اس بات پر مسلم لیگ نون کی رکن قومی اسمبلی زہرہ ودود فاطمی نے لقمہ دیا کہ جتنی تباہی عمران خان نے پھیلائی ہے، اتنی کوئی دوسرا نہیں پھیلا سکتا۔
اس دوران ساتھ والی میز سے مسلسل قہقہے بلند ہو رہے تھے۔ وہاں میانوالی سے تحریک انصاف کے ایم این اے امجد خان نیازی مسلم لیگ نون کے لندن گروپ کے نرغے میں پھنسے ہوئے تھے۔
یہ لندن گروپ ڈاکٹر مختار، چوہدری حامد حمید، علی گوہر بلوچ، معین وٹو اور بہت سے دیگر مسلم لیگیوں پر مشتمل ہے جو دن رات نواز شریف کو پاکستان واپس لانے کے منصوبے بناتا ہے اور ان منصوبوں کو پارٹی کے اندر قہقہوں میں ہی اڑا دیا جاتا ہے۔
شیخ روحیل اصغر اس لندن گروپ کو شرارتی بچہ قرار دے کر کچھ نامی گرامی مفاہمت پرستوں کے غیض و غضب سے بچاتے رہتے ہیں۔ لگتا ہے کہ لندن گروپ اور مفاہمت گروپ میں فاصلے کم ہو رہے ہیں اور اسی لیے اب عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی بازگشت سنائی دینے لگی ہے۔
شیخ روحیل اصغر کے عشائیے میں ایک طرف مسلم لیگ نون والے بلاول صاحب کو اپنے درمیان دیکھ کر خوشگوار حیرت میں مبتلا تھے تو دوسری طرف مولانا فضل الرحمان کے ہونہار برخوردار اسد محمود نے بلاول کو ‘پینڈے‘ کی دعوت دے کر مجھے بھی کہا، ”آپ نے ضرور آنا ہے۔‘‘
میں نے بلاول صاحب کو بتایا کہ پینڈا کیا ہوتا ہے۔ اس کا کمال یہ ہے کہ ایک بڑی پرات میں مرغی کا شوربا اور روٹی توڑ کر ڈالی جاتی ہے، جسے سب ایک ساتھ مل کر کھاتے ہیں۔ پینڈے کا دستر خوان میز پر نہیں، فرش پر سجایا جاتا ہے اور یہ انداز فاصلے کم کرنے میں بڑا مشہور ہے۔
مولانا اسد محمود کی طرف سے پینڈے کی دعوت عمران خان کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ مجھے تو اس گھنٹی کی آواز سنائی دے رہی ہے لیکن شاید عمران خان ابھی تک اس سے غافل ہیں۔
اپوزیشن جماعتوں میں بہت سے اختلافات ہیں لیکن ان میں یہ اتفاق پیدا ہو رہا ہے کہ اگر عمران خان کی تبدیلی سرکار کو ہٹایا نہ گیا تو یہ تبدیلی پاکستان کی مکملمعاشی تباہی کی وجہ بن جائے گی۔
پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی اپنے اپنے طور پر اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا اعلان کر چکے ہیں لیکن یہ حقیقت دونوں کو پتہ ہے کہ لانگ مارچ تبدیلی کا مناسب راستہ نہیں۔ مناسب راستہ تحریک عدم اعتماد ہے۔
پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی میں دو معاملات پر بات چیت ہونا باقی ہے۔ اگلا وزیر اعظم کون ہو گا اور یہ کہ وہ کتنے عرصے میں نئے الیکشن کا اعلان کرے گا۔
مولانا فضل الرحمان کا خیال ہے کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ اب غیر جانبدار ہو چکی ہے۔ مسلم لیگ نون کے کچھ رہنماؤں کو ابھی تک اس کا یقین نہیں آیا۔
مولانا صاحب کو امید ہے کہ وہ مسلم لیگ نون کو غیر یقینی صورتحال سے نکال لیں گے، جس کے بعد نور عالم خان اور ان کے کم از کم بائیس ساتھی عمران خان کے خلاف اعلان بغاوت کر کے اگلے الیکشن کی تیاری شروع کر دیں گے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
Source: DW Urdu
Must Read Urdu Column Tabdeeli Sarkar Main Baghawat by Hamid Mir