چار موسم، دریا اور پہاڑ – علی معین نوازش

ali-moeen-nawazish

پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ملک ہے۔ ایسی کوئی ’’نعمت‘‘ نہیں جو اِس ملک کو عطا نہ کی گئی ہو۔ پاکستان کے ’’چاروں موسم‘‘، اِس کے ’’دریا‘‘، ’’بلند و بالا پہاڑ‘‘، ’’صحرا‘‘ اور وسیع و عریض ’’سمندر‘‘ دنیا کو ایک اور ہی کہانی سناتے ہیں۔ دنیا میں ’’نمک‘‘ کا دوسرا بڑا ذخیرہ بھی پاکستان کے پاس ہے، پاکستان کے ’’پِنک سالٹ‘‘ کی دنیا بھر میں مانگ ہے۔ معدنی وسائل کے اعتبار سے پاکستان’’ کوئلے، تانبے اور قدرتی گیس‘‘ کے ذخائر سے بھرا پڑا ہے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے،ہمارے ملک کی زرعی زمین بھی دنیا کے دیگر ممالک کی زرعی زمین کے مقابلے میں زیادہ زرخیز سمجھی جاتی ہے(اِتنی زرخیز زمین ہونے کے باوجود انتظامی نااہلی اور مناسب تربیت اور آگہی نہ ہونے کی وجہ سے ہماری فی ایکڑ پیداوار دنیا کے دیگر ممالک سے بہت کم ہے)۔پاکستان کے پاس ٹھاٹھیں مارتا ہوا بحیرۂ عرب بھی ہےجس سے علاقے کے لینڈلاکڈ ممالک بھی فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔دنیا کی بلند ترین چوٹیوں میں سے کئی ایک پاکستان میں واقع ہیں۔ یہ اور اِس طرح کے اور کئی جملے برسوں سے ملکی ترقی کی استعدادکی ضمانت کے طور پر پیش کیے جاتے ہیں۔ ہمیں ہمیشہ یہی سکھایا جاتا ہے کہ پاکستان کو اِن بےشمار نعمتوں سے نوازا گیا ہے ،اِس لیے پاکستان کو ایک کامیاب اور ترقی یافتہ ملک بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ ہم بچپن میں اپنے گھروں اور اسکول میں بھی یہ باتیں سنتے ہیں اور اُس کے بعد بھی شاید ہی کوئی ایسی تقریب ہو جس میں نوجوانوں کو ایسے حوالے نہ دیے جاتے ہوں۔

میں جب اسکول یا کالج میں ایسی باتیں سنتا تھا تو سوچتا تھا کہ ہمارے ملک میں موجود دنیا کی بلند ترین چوٹیاں یہاں سے غربت کیسے ختم کر یں گی؟ یاہمارے ملک میں آنے والے چار موسم یہاں حقیقی جمہوریت کیسے لائیں گے؟اور ہمارے دریاؤں، صحرائوں اور سمندروں سے ہماری نوجوان نسل کو تعلیم کیسے ملے گی؟ دنیا اب بہت بدل چکی ہے، لیکن ہماری یہی باتیں جنہیں ہم اُمید کی کرنیں تصور کرتے ہیں، جوں کی توں ہیں۔ ایک تو ہم ایسی باتیں شاید اِس لیے بھی کرتے ہیں کہ انسانی ترقی کے مشن میں ناکام ہونے کے بعد ہم اِس قدرتی وسائل کو ہی اپنے مسائل کا حل سمجھتے ہیں۔ جب عمران خان برسرِ اقتدار آئے تب بھی ملک میں تیل کی دریافت کے حوالے سے خبریں گردش میں تھیں، جس سے پاکستانی عوام بہت پُرجوش ہو گئے کہ شاید ملک

میں تیل دریافت ہونے سے سارے مسائل حل ہو جائیں گے۔ لیکن دنیا اب قدرتی وسائل سے زیادہ انسانی وسائل پر انحصار کرتی ہے اور ہم ابھی تک اِنہی پہاڑوں اور دریاؤں کی باتوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔

2020-21میں بھارت کی صرف آئی ٹی کے شعبہ میں برآمدات 148.3عرب ڈالر رہیں اور سعودی عرب کی اِسی سال میں ہونے والی تیل کی کل برآمدات 145.3عرب ڈالر رہیں۔چین کے بعد بھارت میں دنیا میں سب سے زیادہ انجینئرز اور سائنسدان موجود ہیں۔اِس سب کے پیچھے بھارت کے تعلیمی نظام اور آئی ٹی یونیورسٹیوں کا بہت بڑا کردار ہے، جس کی وجہ سے بھارت آج سعودی عرب کی تیل کی کمائی سے بھی زیادہ آئی ٹی سیکٹر سے کما رہا ہے۔ ہم اِس دوڑ میں بہت پیچھے رہتے جا رہے ہیں۔ اِس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنے لوگوں بالخصوص نوجوانوں کی کثیر تعداد اور اُن کے ٹیلنٹ کو اہمیت نہیں دیتے۔ ہم جب بھی پاکستان کی بات کرتے ہیں تو صرف ایک خطہ ارضی کی بات کر رہے ہوتے ہیں اور اِس ملک میں رہنے والے باسیوں کو اِس سے بالکل الگ تھلگ کر دیتے ہیں۔ہم اپنے ملک میں ایسے بےشمار لوگ ملیں گے جن کو اکثر یہ کہتے یا ایسا سوچتے ہیں کہ پاکستان بہت اچھا ملک ہے لیکن پاکستانی اچھے نہیں ہیں، یا ہمارے ملک میں فلاں قسم کے لوگ نہ ہوں تو ہمارا ملک بہت ترقی کرے گا۔اِس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں کبھی کوئی بھی پالیسی بنانے یا اُس کو نافذ کرنے کے حوالے سے انسانی ترقی کو مدِ نظر نہیں رکھا گیا اور رکھا جا رہا ہے۔

پاکستان خطے میں تعلیم پر سب سے کم پیسہ خرچ کرنے والا ملک ہے، ہمارے ملک میں ایک یونیورسٹی ایسی نہیں جس کا شمار دنیا کی 100بہترین یونیورسٹیوں کی فہرست میں ہو سکے جبکہ اِس ضمن میں زیادہ افسوسناک امر یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں۔ یہی پاکستانی پاکستان سے باہر جا کر نوبل انعام بھی جیتتے ہیں، نئی نئی ایجادات اور دریافتیں کرتے ہیں اور جس ملک میں رہائش پذیر ہوتے ہیں اُس کی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ہمارے ملک میں ٹیلنٹ تو موجود ہے لیکن ہماری ترجیحات کچھ اور ہیں۔ میرے اِس مکالمے کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ پاکستان میں موجود وسائل کا کوئی فائدہ نہیں ہے، لیکن آج کی دنیا میں صرف اِن وسائل کی بنیاد پر ہی ترقی نہیں کی جا سکتی بلکہ اِس وقت آئی ٹی اور دیگر ہنروں کی اہمیت زیادہ ہو رہی ہے۔ قومی دفاعی پالیسی میں جیو اکانامی کی بات کی جا رہی ہے اور معیشت کو قومی سلامتی کا اہم ستون کہا جا رہا ہے لیکن آج کے دور میں انسانی ترقی کے بغیر معاشی ترقی ممکن نہیں۔

پاکستان کے 31فیصد نوجوان تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بےروزگار ہیں، کسی بھی ملک کیلئے اِس سے بڑا نقصان اور کیا ہو سکتا ہے۔ یا تو ہمارے نوجوان ایسے مضامین کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں جن کا براہِ راست معیشت کو کوئی فائدہ نہیں یا پھر انڈسٹری میں اتنی کھپت نہیں ہے کہ اُن سب کو روزگار فراہم کیا جا سکے۔ ہمارے ملک میں تعمیرات کے شعبے کو تو ایمنسٹی بھی مل جاتی ہے لیکن ایسے شعبے جو حقیقی طور پر ملکی معیشت کی بہتری میں اپنا بھرپور کردار ادا کرسکتے ہیں، جن کے لیے طویل مدتی سرمایہ کاری کی منصوبہ بندی کی جانی چاہیے، اُنہیں ہم کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ حکومتیں ایسے منصوبوں پر اِس لیے کام نہیں کرتیں کیونکہ وہ ایسے منصوبوں کو الیکشن کے دوران ووٹ حاصل کرنے کیلئے استعمال نہیں کر سکتیں اِس لیے وہ صرف سڑکیں، میٹرو بس اور انڈر پاس بنانے پر اکتفا کرتی ہے۔ کیونکہ ایسا کرنا اُن کے لیے زیادہ آسان ہوتا ہے۔ مانا کہ ایسے منصوبے راتو رات شروع نہیں کیے جا سکتے اور نہ اِن منصوبوں کے فوائد فوراً سامنے آ سکتے ہیں لیکن اِس حوالے سے کام شروع ہوگا تو ہی اُس کے مثبت پہلو سامنے آئیں گے۔اگر معاشرے کی اِس حوالے سے مناسب تربیت کی جائے گی تو ہی وہ اِس کی اہمیت اور کامیابی سے روشناس ہو سکے گا۔ پاکستان اور پاکستانیوں کی ترقی ایک دوسرے کی ترقی کے ساتھ منسلک ہے۔ ہمیں اب اِن چار موسموں، دریاؤں، پہاڑوں اور سمندروں کے حسین خوابوں سے باہر نکل کر عالمی معیار کے تعلیمی اداروں، بہترین تعلیمی نظام، بہترین انڈسٹری ،ہائی اسکلڈ ورک فورس اور ہنرمند مزدروں کی بات کرنا ہوگی۔ اِن پہلوؤں پر کام کرکے ہی پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

Must Read Urdu column Chaar Mousam Darya aur Pahar By Ali Moeen Nawazish
Source: Jang

Leave A Reply

Your email address will not be published.