تھینک یوں شاہ صاحب – جاوید چوہدری
"میں آپ کو کچھ نہیں دے سکتا لیکن مجھے یقین ہے آپ اگر میری مدد کریں گے تو اللہ آپ کو اس کا اجر ضرور دے گا” مجھے دو دن قبل واٹس ایپ کے ذریعے یہ پیغام ملا اور میں نے دوسرے سیکڑوں میسجز کی طرح اسے بھی اگنور کر دیا، ہم منگتوں اور بھکاریوں کا معاشرہ بن چکے ہیں، صدر سے لے کر عام ریڑھی بان تک ہم سب منگتے بن چکے ہیں، وزیراعظم اس وقت چین میں ہیں اور پوری قوم منتظر ہے۔
یہ وہاں سے کیا لے کر آتے ہیں اور یہ صورت حال اوپر سے نیچے تک سیم ہے لہٰذا آپ سے بھی جب کوئی دوست، عزیز یا جاننے والا یہ کہتا ہو گا "مجھے آپ سے کام ہے یا میں نے آپ سے مشورہ کرنا ہے”تو آپ کا ردعمل بھی وہی ہوتا ہو گا جو اس وقت میرا تھا، آپ بھی اسے "اگنور” کر دیتے ہوں گے کیوں کہ آپ بھی اب تک یہ سمجھ چکے ہوں گے لوگ جب بھی "مشورہ” یا "کام” کی بات کرتے ہیں تو ان کا مقصد کچھ نہ کچھ وصول کرنا ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود اس پیغام میں کچھ تھا لہٰذا میں چند لمحے بعد اسے دوبارہ کھولنے پر مجبور ہو گیا۔
یہ موٹروے پولیس کراچی کا سب انسپکٹر تھا، باریش تھا اور چہرے مہرے سے شریف بھی دکھائی دیتا تھا، اس نے پیغام میں لکھا، میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں میں نے آج تک ڈیوٹی اور رزق میں بے ایمانی نہیں کی لیکن میری اہلیہ کو اچانک کینسر ہو گیا ہے، علاج مہنگا ہے، میرے پاس ستر لاکھ روپے نہیں ہیں، آپ اگر میری بیوی کے علاج کا بندوبست کر دیں تو میں آپ کو دعا کے سوا کچھ نہیں دے سکوں گا لیکن مجھے یقین ہے اللہ آپ کو اس کا ضرور اجر دے گا۔
پیغام کے ساتھ میڈیکل رپورٹس بھی تھیں، میں نے چند لمحوں کے لیے سوچا، میں اسے دعائیہ پیغام کے ساتھ ٹال دیتا ہوں لیکن پھر خیال آیا میں اسے ٹیسٹ کر کے دیکھ لیتا ہوں شاید یہ سچ کہہ رہا ہو، میں بات آگے بڑھانے سے پہلے آپ کو اپنے ٹیسٹ کا طریقہ بھی بتاتا چلوں، مجھے آج سے 25سال قبل ایک بزرگ نے ضرورت مندوں اور اللہ کے فضل کو ٹیسٹ کرنے کا طریقہ بتایا تھا، باباجی کا کہنا تھا آپ کے پاس جب بھی کوئی شخص کوئی درخواست لے کر آئے تو آپ اس کا کام فوراً کسی بھی اجنبی کی طرف ریفر کر دیں اگر وہ بندہ سچا ہوگا اور اللہ واقعی اس کی مدد کرنا چاہتا ہوگا تو اس کا کام اسی وقت ہو جائے گا اور یہ ثابت ہو جائے گا اللہ تعالیٰ کا آپ پر خصوصی فضل ہے اور اگر وہ غلط ہوا یا قدرت کو اس کی مدد منظور نہ ہوئی توآپ جہاں اس کی درخواست بھجوائیں گے وہاں سے کوئی جواب نہیں آئے گا۔
میں نے باباجی سے پوچھا تھا "کیا لوگوں کے کام کا کوئی ٹائم فریم بھی ہوتا ہے” باباجی نے بتایا تھا "قدرت ٹائم اینڈ سپیس میں کام کرتی ہے، اگر قدرت کے آفس میں کسی شخص کے کام کی سپیس یا وقت نہ نکل رہا ہو تو قدرت اس شخص اور اس کے کام کو ویٹنگ ٹرے میں رکھ دیتی ہے، آپ بھی جب ویٹنگ روم کے لوگوں کا کام کسی کو ریفر کرتے ہیں تو وہ شخص بھی اس درخواست کو ویٹنگ میں ڈال دیتا ہے لیکن پھر جوں ہی عرضی منظور ہونے کا وقت آتا ہے تو لوگوں کو اچانک وہ شخص اور اس کا کام یاد آ جاتا ہے اور گھنٹیاں بجنے لگتی ہیں "۔
مجھے باباجی کی بات دل کو لگی لہٰذا میں عموماً درخواستیں اور لوگوں کو ٹیسٹ کرنے کے لیے ان کے کام اور درخواستیں آگے بھجواتا رہتا ہوں، کام ہونے والوں کا کا م ہو جاتا ہے اور ٹائم اور سپیس میں پھنسے لوگوں کو انتظار کرنا پڑ جاتا ہے، میں نے اس موٹروے انسپکٹر کو بھی آزمانے کا فیصلہ کیا، میرے سامنے فوری طور پر دو لوگ آئے، پہلے شخص خاور صاحب تھے، یہ کراچی میں بزنس کرتے ہیں، سال قبل خود بھی کینسر کے مریض بن گئے۔
علاج چل رہا ہے لہٰذا یہ مرض اور مریض دونوں کی کیفیات سے واقف ہیں، مریضہ کے لیے پہلے انجیکشن کی ذمہ داری خاور بھائی نے اٹھا لی، انجیکشن ساڑھے پانچ لاکھ روپے کا تھا، خاور بھائی کی کوشش سے کمپنی ایک انجیکشن کی قیمت میں دو انجیکشن دینے کے لیے تیار ہو گئی چناں چہ دو ڈوز کا بندوبست ہو گیا لیکن مکمل علاج کے اخراجات 70 لاکھ روپے تھے اور یہ کسی ایک شخص یا چند لوگوں کے بس کی بات نہیں تھی لہٰذا خاور بھائی کے بعد میرے ذہن میں وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کا نام آیا۔
میری شاہ صاحب سے بے تکلفی نہیں ہے لیکن میں نے اس کےباوجود سب انسپکٹر کی درخواست انہیں بھجوا دی، میں اگلی صبح اٹھا تو میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا، مجھے نہ صرف مراد علی شاہ کا جواب موصول ہوگیا بلکہ انہوں نے اپنے سٹاف میں شامل ڈاکٹر فیض منگی کی ڈیوٹی بھی لگا دی، ڈاکٹر فیض نے سب انسپکٹر کو بلایا، رپورٹس دیکھیں اور مریضہ کے فری علاج کا حکم جاری کردیا، آپ یقین کریں میرے پاس وزیراعلیٰ کے شکریے کے لیے الفاظ نہیں تھے، مجھے تھوڑی دیر بعد سب انسپکٹر کا فون آیا اور وہ ہچکیوں کے ساتھ رو رہا تھا، اس کا کہنا تھا، میری بیوی اس وقت سجدے میں پڑی ہے اور یہ اللہ تعالیٰ سے رو رو کر سید مراد علی شاہ، خاور صاحب اور آپ کے لیے دعائیں کر رہی ہے، آپ لوگ ہمارے لیے فرشتے ثابت ہوئے ہیں۔
اس کا کہنا تھا "میں نے جس دن آپ کو میسج کیا تھا میں نے اس دن اللہ سے دعا کی تھی یا پروردگار میں بے بس ہوں، میرا آپ کے سوا کوئی آسرا نہیں ” میں یہ دعا کرتا جاتا تھا او رروتا جاتا تھا، ذرا حوصلہ ہوا تو پتا نہیں کیسے میرے ذہن میں آپ کا خیال آ گیا اور میں نے آپ کو میسج کر دیا، اللہ تعالیٰ نے آپ کے دل میں رحم ڈال دیا اور یوں ہمارے علاج کا بندوبست ہو گیا” میری آنکھوں میں بھی آنسو آگئے اور میں نے اس سے کہا” میرے بھائی میں صرف ڈاکیا ہوں، آپ کےاصل محسن سید مراد علی شاہ اور خاور بھائی ہیں، آپ ان کے لیے دعا کریں، اللہ تعالیٰ انہیں مشکل حالات اور مصیبتوں سے محفوظ رکھے” ان کا جواب تھا "سر ہم دعائوں کے علاوہ دے بھی کیا سکتے ہیں "میں اس کے بعد دیر تک اللہ کا شکر ادا کرتا رہا، اس نے مجھے دوسروں کی مدد اور خدمت کے قابل بنایا۔
یہ ایک واقعہ تھا اور یہ ہو گیا لیکن اس میں سیکھنے کے تین سبق ہیں، پہلا سبق مراد علی شاہ ہیں، یہ ملک کے دوسرے بڑے صوبے کے وزیراعلیٰ ہیں، موٹروے پولیس کا ایک عام سا سب انسپکٹر انہیں کیا دے سکتا ہے، میں بھی ان کی پارٹی میں شامل ہوں اور نہ دوستوں کی فہرست میں لہٰذا یہ میرے میسج کو اگنور بھی کر سکتے تھے اور 70 لاکھ روپے کی یہ رقم کسی اہم شخص یا پارٹی کے ورکر پر خرچ کر دیتے لیکن یہ ان کا ظرف اور مظلوم پروری ہے جس کی وجہ سے نہ صرف انہوں نےفوری ایکشن لیا بلکہ چند گھنٹوں میں مریضہ کے علاج کا بندوبست بھی کر دیا، مجھے یقین ہے ان کی یہ نیکی رائیگاں نہیں جائے گی اور مریضہ اور سب انسپکٹر کی دعائیں ان کا پوری زندگی ساتھ دیں گی، پاکستان تحریک انصاف کے لوگ ان پر بہت اعتراضات کرتے ہیں لیکن میرا شاہ صاحب سے ایک ہی انٹرایکشن ہوا اور مجھے ان کے ریسپانس نے حیران کر دیا۔
د وسرا سبق، پولیس فورس افواج پاکستان کے بعد ملک کا سب سے بڑا ادارہ ہے، پاکستان میں جہاں کوئی ادارہ یا سرکاری دفتر موجود نہیں پولیس وہاں بھی ہوتی ہے، اس کے اختیارات افواج کے اختیارات سے بھی زیادہ ہیں لیکن عملاً صورت حال یہ ہے پولیس نے پورے ملک میں کوئی ایک بھی ایسا ہسپتال نہیں بنایا جس میں فورس کے اپنے لوگ اور ان کے اہل خانہ کا علاج ہو سکے، آئی جی تک ملٹری اور پرائیویٹ ہسپتالوں میں علاج کراتے ہیں، سوال یہ ہے پولیس کو آج تک کس نے اس کام سے روکا؟
یہ اپنے ہسپتال کیوں نہیں بناتے لہٰذامیری ملک کے چھ آئی جیز سے درخواست ہے آپ کے پاس پورے ملک میں زمینیں بھی موجود ہیں اور فنڈز بھی ہیں، آپ وزراء اعلیٰ سے بات کریں اور کم ازکم صوبائی ہیڈکوارٹرز ہی میں اعلیٰ درجے کے پولیس ہسپتال بنا لیں، ان ہسپتالوں میں فورس کے ملازمین اور فیملیز کا علاج بھی ہو اور آپ فیس لے کر عام شہریوں کو بھی طبی سہولیات فراہم کریں، ہیلتھ کارڈز کے بعد پولیس ہسپتال ٹھیک ٹھاک سرمایہ بھی جمع کر سکتے ہیں۔
میری دوبارہ مراد علی شاہ سے درخواست ہے آپ کراچی میں پہلے پولیس ہسپتال کی بنیاد رکھ دیں، یہ ہسپتال ملک میں نیا ٹرینڈ ثابت ہو گا، مصر جیسے ملک میں بھی پولیس ہسپتال موجود ہیں اور ان کا معیار اتنا اچھا ہے کہ ملٹری جنرلز اور سیاست دان تک ان میں علاج کراتے ہیں اور تیسرا سبق، پولیس کے پاس اپنے ملازمین اور ان کی فیملیز کے علاج کے لیے فنڈز موجود نہیں ہیں، یہ پورے ملک کی حفاظت کرتی ہے لیکن یہ اپنے خاندان اور اپنی حفاظت نہیں کر سکتی۔
یہ لوگ مشکل وقت میں دوسروں کی طرف دیکھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں لہٰذا میری آئی جی حضرات سے درخواست ہے آپ پوری پولیس فورس اور ان کے خاندانوں کی انشورنس کرا دیں اور انشورنس کی قسط پولیس ویلفیئر فنڈ سے ادا کریں تاکہ کم از کم پولیس کی فیملیز محفوظ ہو جائیں اور دوسرا اپنا ویلفیئر فنڈ بھی بڑھائیں، اس سے فورس کے لوگ خود اور اپنے خاندان کو محفوظ سمجھیں گے۔
میں آخر میں ایک بار پھر سید مراد علی شاہ کا شکریہ ادا کرتا ہوں، تھینک یوں شاہ صاحب۔
Source: Express News
Must Read Urdu column Thank you Shah Sb By Javed Chaudhry