جاتے جاتے – جاوید چوہدری
ملائیشیا میں 18 دسمبر 2019کوکوالالمپور سمٹ تھی‘اس کانفرنس کا آئیڈیا عمران خان نے اپنے سیاسی استاد مہاتیر محمد کو دیا تھا‘ ہمارے کپتان ملائیشیا کے ساتھ مل کر اسلامی دنیا کا نیا بلاک بنانا چاہتے تھے‘ مہاتیر کو آئیڈیا پسند آگیا‘تیاریاں مکمل ہو گئیں‘ اسلامی دنیا کے سربراہوں کو دعوت بھی دے دی گئی۔
عمران خان بھی جوش وجذبے کے ساتھ تیارہو گئے لیکن کانفرنس سے صرف چار دن قبل برادر اسلامی ملک نے ہمارے وزیراعظم کو طلب کر لیا‘ ہمارے بہادر وزیراعظم 14 دسمبر کو تشریف لے گئے اور وہاں برادر ملک کے ولی عہد نے ہمارے وزیراعظم کو دو آپشن دیے‘ہماری رقم واپس کردیں اور نتائج بھگتنے کے لیے تیار ہو جائیں یا پھر ملائیشیا کو انکار کر دیں اور ہمارے نہ جھکنے اور نہ دبنے والے وزیراعظم نے ملائیشیا کا دورہ منسوخ کر دیا۔
مہاتیر محمد اور طیب اردگان دونوں نے عمران خان کو فون کیا لیکن ہمارے آزاد اور خودمختار وزیراعظم نے دونوں کو صاف جواب دے دیا‘ یہ ملائیشیا نہیں گئے‘ وزیراعظم صرف یہاں تک نہیں رہے بلکہ انھوں نے 21 جنوری 2020کو ڈیوس میں طیب اردگان سے ملاقات کی اور اردگان کو ملائیشیا نہ جانے کی وجہ بتا دی اور ترک صدر نے یہ وجہ پریس کانفرنس میں پوری دنیا کو بتا دی یوں ہماری رہی سہی عزت بھی خاک میں مل گئی اور ہم نے جس ملک کے لیے یہ خاک چاٹی تھی وہ بھی ناراض ہو گیا اور پھر جنرل قمر جاوید باجوہ کو اوپر تلے تین چار دورے کر کے تعلقات بحال کرنا پڑے۔
میرا سوال یہ ہے کیا یہ غیرملکی مداخلت نہیں تھی اور ہم اگر اتنے ہی خودمختار اور باوقار ہیں تو پھر ہم نے یہ مداخلت کیوں قبول کر لی تھی اور یہ دھمکی برادر ملک کے کسی افسر نے ہمارے سفیرکو نہیں دی تھی‘ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیراعظم کو طلب کر کے براہ راست کہا گیا تھا اور ہم نے کان لپیٹ کر اس پر من وعن عمل کیا تھا‘ ہماری بہادری اس وقت کہاں تھی؟
آپ اب دوسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ پاکستان تحریک لبیک نے ملک میں سات دھرنے دیے‘ آخری دھرنااکتوبر 2021 میں دیا گیا اور اس میں چھ پولیس اہلکار شہید ہو گئے‘ ٹی ایل پی کا صرف ایک مطالبہ تھا فرانسیسی صدر ایمانویل میکرون نے گستاخ رسول سیمویل پیٹی کی حمایت کر کے ہمارے جذبات کو ٹھیس پہنچائی لہٰذا فرنچ سفیر کو فی الفور ملک بدر کیا جائے‘ وزیراعظم نے قوم سے خطاب فرمایا تھا فرانس اکیلا نہیں ہے۔
ہم اگر فرنچ سفیر کو نکال دیتے ہیں تو یورپی یونین ہم سے جی ایس پی پلس کا اسٹیٹس واپس لے لے گی اور یوں ہماری ایکسپورٹس ختم ہو جائیں گی‘ میں نے اس وقت وزیراعظم کی حمایت کی تھی‘ میں آج بھی سمجھتا ہوں ہم گلوبل ویلج کا حصہ ہیں اور ویلج کا کوئی گھر کسی دوسرے ویلج کے سفیر کو نکال کر سروائیو نہیں کر سکتا‘ صدر ایمانویل میکرون کے ایک فعل سے ہم پوری فرنچ قوم کو برا نہیں کہہ سکتے۔
فرنچ سوسائٹی اور لوگ بے انتہا مہذب اور پڑھے لکھے ہیں۔ میں اپنا ویو چند لمحوں کے لیے سائیڈ پر رکھتا ہوں اور وزیراعظم کی مذہبی فلاسفی کی طرف چلتا ہوں اور سوال کرتا ہوں آپ اپنی ہر تقریر میں عشق رسولؐ ‘قومی خود مختاری اور وقار کا حوالہ دیتے ہیں پھر آپ 9 بلین یورو کی ایکسپورٹس کے ہاتھوں کیوں مجبور ہو گئے؟ آپ نے اس وقت توکل کا سہارا کیوں نہیں لیا! آپ نے اس وقت کیوں نہیں سوچا اللہ غیرت مند قوموں کی غیب سے مدد کرتا ہے؟
میں پچھلے آٹھ برس سے عرض کر رہا ہوں یہ لوگ ناتجربہ کار بھی ہیں‘ نااہل بھی اور متکبر بھی‘ وقت نے ثابت کر دیا میری بات غلط نہیں تھی‘ ان لوگوں نے جھوٹ پر جھوٹ بول کر ملک تباہ کر دیا‘ یہ لوگ حقیقتاً اس ملک کے خلاف سازش ہیں‘ آپ 2018 کا پاکستان دیکھ لیں اور 2022کا ملک دیکھ لیں‘ یہ ملک کہاں سے کہاں آ گیا ۔عمران خان اقتدار کے لیے کچھ بھی کر سکتا ہے۔ آپ کو اگر یقین نہ آئے تو آپ موجودہ بحران ہی کو دیکھ لیں۔
امریکا میں ہمارے سفیر ڈاکٹر اسد مجید خان نے 7 مارچ کو دفتر خارجہ کو ایک مراسلہ بھجوایا تھا‘ میں بات آگے بڑھانے سے پہلے ڈاکٹر اسد مجید اور مراسلوں کا تعارف بھی کراتا چلوں‘ اسد مجید کیریئر ڈپلومیٹ ہیں‘ جاپان میں سفیر رہے‘ جاپانی زبان بھی جانتے ہیں اور انھوں نے جاپان سے پی ایچ ڈی بھی کی‘ وزارت خارجہ میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں‘ سینئر ترین سفیروں میں شامل ہیں‘ یہ ایک مشکل ترین وقت میں امریکا میں پاکستان کے سفیر تھے اور دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بہتری چاہتے تھے‘ دنیا بھر کے سفیر روزانہ اپنے ملکوں میں مراسلے بھی بھجواتے ہیں۔
ان میں ملکوں کے احوال بھی ہوتے ہیں اور تعلقات کی نئی جہتیں بھی‘ مراسلے عموماً تین قسم کے ہوتے ہیں‘ پہلی قسم میں سفیر صرف احوال یا ملاقات کے نقاط (منٹس) لکھ کر بھجوا دیتے ہیں‘ دوسری قسم میں نقاط کے ساتھ اپنی رائے بھی لکھ دیتے ہیں اور تیسری قسم میں یہ آخر میں مشورہ بھی دے دیتے ہیں‘ یہ مراسلے خفیہ الفاظ میں ہوتے ہیں جنھیں سفارتی زبان میں سائفر (Cypher) کہا جاتا ہے۔
وزارت خارجہ میں پورا ایک یونٹ ہے جو مراسلوں کو ڈی سائفر کرتا ہے اور پھر اسے افواج پاکستان‘ خفیہ اداروں اور وزیراعظم ہاؤس کو بھجوا دیتا ہے‘ سفیر اسد مجید نے بھی سات مارچ کو ایک مراسلہ بھجوایا جس میں انھوں نے ساؤتھ اینڈ سینٹرل ایشین افیئرز کے اسسٹنٹ سیکریٹری ڈونلڈ لو (Donald Lu) کے ساتھ اپنی ملاقات کا احوال لکھا‘ میں یہاں آپ کو ڈونلڈ لو کے بارے میں بھی بتاتا چلوں‘یہ بھی کیریئر ڈپلومیٹ ہیں۔
یہ 1992-94 میں پشاور میں تعینات رہے‘ بھارت میں چارج ڈی افیئرز رہے‘ کشمیر پر بھی کام کرتے رہے‘ یہ پاک بھارت تعلقات کے ایکسپرٹ بھی ہیں‘ ڈونلڈ لو جارجیا‘ کرغزستان‘ آذر بائیجان اور البانیہ میں سفیر بھی تعینات رہے‘ صدر جوبائیڈن نے انھیں ساؤتھ اینڈ سینٹرل ایشیا کا اسسٹنٹ سیکریٹری تعینات کر دیا‘ یہ اردو اور ہندی کے ساتھ ساتھ آٹھ زبانیں بول سکتے ہیں۔
سفارت کار ہیں لہٰذا ان سے غیر سفارتی زبان کی توقع نہیں کی جا سکتی اور اگر یہ ہو بھی تو یہ کوئی بہت بڑے افسر نہیں ہیں‘ ان کے پاس 13 ملک ہیں اور امریکا میں اس وقت اس لیول کے اڑھائی سو آفیسرز ہیں اور ان کی بات کسی بھی طرح امریکا کی پالیسی نہیں ہوتی‘بہرحال ہمارے سفیر کے ساتھ ان کی ملاقات ہوئی اور سفیر نے اس ملاقات کا مراسلہ بھجوا دیا اور وزیراعظم نے اس میں میاں نواز شریف بھی ڈال دیا‘ عالمی سازش بھی‘ دھمکی بھی‘ غیرت بھی اور پیسہ بھی اور اس کے بعد دے مار اور ساڑھے چار‘ عمران خان نے جاتے جاتے اپنے چھوٹے سے سیاسی مقصد کے لیے پورے ملک کو داؤ پر لگا دیا۔
ہمیں یہاں یہ بھی ماننا ہو گا عمران خان نے اس بے ضرر سے مراسلے کو بڑی خوب صورتی سے اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا‘ ان کی پاپولیرٹی میں بھی اضافہ ہوا اور اس نے اپوزیشن کو پریشان بھی کر دیا لیکن یہ پھر جذبات کی رو میں وہ غلطی کر بیٹھے جس سے اب ان کا سیاسی کیریئر داؤ پر لگ جائے گا‘ میرے ایک دوست نے کل بڑا خوب صورت فقرہ کہا تھا ’’وزیراعظم نے اپنی منجی خود ہی ٹھونک دی‘‘یہ معاملہ اگر تقریروں تک رہتا تو عمران خان کو فائدہ ہوتا رہتا لیکن حکومت نے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری سے آرٹیکل پانچ کی رولنگ دلا کر مراسلے کے ایشو کو قانونی شکل دے دی اور یہ ایشو سپریم کورٹ پہنچ گیا‘ عمران خان کو اب مراسلہ عدالت میں بھی پیش کرنا پڑے گا۔
اسے سازش بھی ثابت کرنا ہوگا‘ میاں نواز شریف اور اپوزیشن کے کردار کے ثبوت بھی دینے ہوں گے اور وہ رقم بھی ثابت کرنا پڑے گی جو باہر سے آئی تھی اور اس سے ایم این ایز خریدے گئے تھے‘عدالت اب آئی ایس آئی اور آئی بی کے نمایندوں کو بھی بلائے گی‘ اٹارنی جنرل کو بھی اور سفیر اسد مجید کو بھی اور یوں وزیراعظم کے ساتھ ساتھ صدر عارف علوی‘ اسپیکر اسد قیصر اور ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری چاروں پھنس جائیں گے‘ اب انھیں پینتیس پنکچرز کی طرح ہر فورم پر جواب بھی دینا ہوگا‘ معافی بھی مانگنی پڑے گی اور سزائیں بھی بھگتنا ہوں گی لہٰذا عمران خان نے کریز سے نکل کر وہ غلطی کر دی جس سے ملک کے ساتھ ساتھ یہ خود بھی خوار ہو جائیں گے‘ ان پر آرٹیکل چھ کی کارروائی شروع ہو سکتی ہے۔
یہ لوگ اب قصہ پارینہ بن چکے ہیں‘ یہ آپ کو چند دنوں میں دنیا کے مختلف ملکوں یا ایک عدالت سے دوسری عدالت میں دوڑتے پھرتے نظر آئیں گے تاہم یہ جاتے جاتے ملک کا بیڑہ غرق کر گئے ‘ یہ ملک کو اندر اور باہر دونوں جگہوں سے کھوکھلا کر گئے ہیں‘ یہ اس کا رہا سہا بھرم بھی ساتھ لے گئے ہیں‘ آپ کو مستقبل قریب میں انکشافات حیران کر دیں گے۔
آپ مستقبل کو سائیڈ پر رکھ دیں اور صرف یہ جواب دے دیں عدالت جب سفیر اسد مجید کو طلب کرے گی تو کیا اس کے بعد ہمارا کوئی سفیر مراسلہ بھجوانے کی جسارت کرے گا اور اگر سفیر مراسلے نہیں بھجوائیں گے تو پھر ہمیں وزارت خارجہ کی کیا ضرورت ہے؟ لہٰذا آپ نے جاتے جاتے اپنے عارضی فائدے کے لیے پوری سفارتی کور تباہ کر دی‘ اس کا جواب کون دے گا‘ اس کا ذمے دار کون ہوگا؟
Source: Express News
Must Read Urdu column Jate Jate By Javed Chaudhry