توڑ دیں‘ گرا دیں – جاوید چوہدری
ہنری ٹموتھی کونویل(Henry Toomithi Conville)زمین دار تھا‘ وہ 1880میں ہندوستان آیا اور پنجاب کے مختلف جاگیرداروں اور زمین داروں کو زرعی مشینری بیچنا شروع کر دی‘ وہ اس دور میں زرعی مشینری کا سب سے بڑا امپورٹر تھا‘ مشینیں یورپ سے کول کتہ‘ ممبئی اور کراچی لائی جاتی تھیں اور پھر ٹرینوں کے ذریعے پورے ملک میں پہنچا دی جاتی تھیں۔
وہ 1896میں ملتان میں رہائش پذیر تھا اور اللہ تعالیٰ نے اسے اولاد نرینہ سے نواز دیا‘ بچے کا نام لیوپولڈکونویل (Leopold Conville) رکھ دیا گیا‘ لیو پولڈ کونویل نے برطانیہ کے ڈلوچ (Dulwich)ا سکول اور پھر رائل ملٹری کالج سینڈہرسٹ سے تعلیم حاصل کی اور برطانوی فوج میں بھرتی ہو کر ہندوستان آ گیا اور ترقی کرتا کرتا لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے تک پہنچ گیا‘وہ عرف عام میں کرنل کونویل کہلاتا تھا‘ یہ دونوں باپ بیٹا وائسرائے کے دوست بن گئے اور وائسرائے نے انھیں مونٹگمری (ساہیوال) میں 120 مربع زمین الاٹ کردی۔
یہ ننانوے سال کی لیز تھی‘ لیز مکمل ہونے کے بعد 60 مربع زمین کونویل فیملی کے نام منتقل ہو جانی تھی جب کہ باقی 60 مربعے واپس حکومت کے پاس آ جانی تھی‘ کونویل فیملی نے 8 فروری 1915ء کو اس زمین پر پنجاب کے سب سے بڑے زرعی فارم کی بنیاد رکھی‘ زمین کے درمیان تین گاؤں آباد تھے‘ چک 836‘ 837 اور 838‘ کونویل نے اپنی زمین کے درمیان سے نہر نکالی‘ سڑکیں بنوائیں‘ زمین کو مختلف حصوں میں تقسیم کیا اور جدید مشینری کے ذریعے اجناس اور پھل کاشت کرنے لگا اور اس نے ڈیری پراڈکٹس کے یونٹس بھی لگائے‘ فارم ہاؤس پر دو اڑھائی ہزار لوگ کام کرتے تھے۔
کونویل فیملی نے ان لوگوں کو گھر بھی بنا کر دیے اور یہ لوگ انھیں تنخواہ کے ساتھ ساتھ خوراک‘ دودھ اور کپڑے جوتے بھی دیتے تھے‘ کرنل کونویل کا والد اور والدہ ساہیوال ہی میں فوت ہوئے‘ان کی قبریں آج بھی ساہیوال کے کوونینٹ چرچ کے ساتھ موجود ہیں‘ کرنل کونویل نے فارم ہاؤس پر اپنے دو گھر بنائے‘ ایک سمر ہاؤس تھا اور دوسرا ونٹر ہاؤس‘ یہ لوگ سردیوں میں ونٹر ہاؤس میں شفٹ ہو جاتے تھے۔
وہ گھر گرم بھی تھا اور اس کی چھت اور دیواروں میں بڑے شیشوں کی کھڑکیاں اور روشن دان تھے جب کہ سمر ہاؤس گرمیوں کے لیے تھا‘وہ گھنے درختوں کے درمیان تھا اور کھلا اور ہوادار تھا‘فارم پر دس پندرہ ہزار گھنے اور بڑے درخت تھے‘ فیملی گرمیوں میں کشمیر چلی جاتی تھی‘ ان کا بڑا بیٹا ڈیوڈ ہنری کونویل 1929 میں کشمیر میں ہی پیدا ہواتھا‘ ڈیوڈ نے تعلیم ہندوستان میں حاصل کی تھی۔
ساہیوال کا کونویل فارم پنجاب کا آئیڈیل فارم تھا‘ کرنل بادشاہ کی طرح اپنی ریاست میں رہتا تھا‘ وہ آتا تھا تو بگل بجایا جاتا تھا اور لوگ قطار میں کھڑے ہو کر اس کا استقبال کرتے تھے‘ لیڈی کونویل اور اس کے بچے فارم میں گھڑ سواری کرتے تھے‘ نہر میں نہاتے تھے اور فارم ہاؤس کے تازہ پھل‘ سبزیاں اور گوشت کھاتے تھے‘ کرنل نے فارم ہاؤس پر بھنگ کاشت کر کے افیون بھی بنانا شروع کر دی۔
وہ یہ افیون برطانیہ لے جا کر فارما سوٹیکل کمپنیوں کو فروخت کرتا تھا اور ہزاروں پاؤنڈز کماتا تھا‘ وہ اس دوران ایک بار فارم ہاؤس جوئے میں بھی ہار گیا لیکن پھر ساہیوال کے ایک وکیل بیرسٹر رادھا کشن نے اسے فارم واپس لے دیا‘ یہ کیس قانون کی کتابوں تک میں لکھا گیا اور مدت تک اس کے حوالے بھی دیے جاتے رہے‘ یہ سلسلہ چلتا رہا لیکن پھر 1947 میں پاکستان بن گیا۔
انگریز واپس چلا گیا اور ملک مقامی انتظامیہ کے ہاتھ میں آگیا مگر کرنل کونویل نے فارم چھوڑنے سے انکار کر دیا‘ وہ 1971تک پاکستان میں رہا‘وہ سردیوں میں ساہیوال میں رہتا تھا اور گرمی زیادہ بڑھ جاتی تھی تو لندن چلا جاتا تھا‘ دو بیٹے تھے‘ ڈیوڈ اور مائیکل‘ یہ بھی پاکستان آتے اور جاتے رہتے تھے‘ ڈیوڈ نے تھیٹر اور فلم لائن جوائن کر لی اور برطانیہ کا مشہور ایکٹر بن گیا‘ وہ ریجنٹ پارک اوپن ایئر تھیٹر کا ڈائریکٹر بھی رہا جب کہ مائیکل نے گمنام زندگی گزاری‘ نواب آف کالاباغ ملک امیر محمد خان کرنل کونویل سے بہت متاثر تھے‘ وہ اسے سپورٹ کرتے رہتے تھے۔
اس دوران کرنل کی زمینوں پر قبضے بھی شروع ہو گئے اور مقدمے بازیاں بھی‘ وہ مختلف عدالتوں میں لڑتا رہا لیکن پھر 1971 میں بے بس ہو گیا اور زمینیں بیچنا شروع کر دیں‘ فارم ہاؤس کا کچھ حصہ اونے پونے بک گیا لیکن اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے یہ رقم بھی برطانیہ بھجوانے کی اجازت نہ دی اور یوں اس نے اپنی بیگم کو ساتھ لیا‘ اپنے والد اور والدہ کی قبر پر آخری حاضری دی اور برطانیہ واپس چلا گیا۔
وہ انگلینڈ میں لندن سے 70کلومیٹر کے فاصلے پر اودھم (Odiham) میں شفٹ ہو گیا‘ یہ ہیمپشائر کا چھوٹا سا گاؤں ہے‘ آبادی صرف ساڑھے چار ہزار ہے‘ کرنل کونویل 1979 میں اودھم میں انتقال کر گیا اور اس کے رشتے داروں نے اسے لوکل قبرستان میں دفن کر دیا‘ ڈیوڈ ہنری کونویل بھی 2018 میں 89سال کی عمر میں فوت ہو گیا اور یوں یہ فیملی ماضی کا قصہ بن گئی۔
میں عید کی چھٹیوں کے دوران کرنل لیوپولڈ کونویل‘ ساہیوال جیل میں فیض احمد فیض وارڈ‘ شورش کشمیری‘ خان عبدالقیوم خان‘ ولی خان اور ممتاز بھٹو کا جیل ریکارڈ دیکھنے اور ہڑپہ کے وزٹ کے لیے ساہیوال پہنچ گیا‘ کرنل کونویل کا فارم ہاؤس ختم ہو چکا ہے‘ اس میں درجن بھر ہاؤسنگ اسکیمیں بن چکی ہیں‘ ایک دو کھیت بچے ہیں مگر ان پر بھی مقدمے بازی چل رہی ہے‘ نہر موجود ہے لیکن اس کی دوسری طرف پکی سڑک بن چکی ہے اور اس پر دو دو‘ تین تین مرلے کے بے ہنگم سے پلازے آڑھے ترچھے ہو کر لیٹے ہیں‘ کرنل کونویل کا دفتر باقی ہے۔
یہ ایک سو سات سال پرانی عمارت ہے‘ اس میں اس کا بیڈروم بھی تھا اور آفس بھی جب کہ احاطے میں اناج اور زرعی آلات رکھے جاتے تھے‘دفتر کا 14فٹ بلند گیٹ تاحال موجود ہے تاہم اس کے ونٹر ہاؤس میں اسکول بن چکا ہے اور اسکول کی انتظامیہ نے عمارت کی خوب صورتی واہیات قسم کے رنگوں کے نیچے چھپا دی ہے جب کہ سمر ہاؤس آخری سانسیں لے رہا ہے‘ چھت گر چکی ہے‘ فرش ٹوٹ گئے ہیں‘ برآمدہ جھک کر سجدے کی جگہ تلاش کر رہا ہے۔
باتھ ٹب کی کرچیاں فرشوں پر بکھری ہوئی ہیں تاہم ایک کموڈ حیرت سے دائیں بائیں دیکھتا رہتا ہے‘ عمارت کی بیرونی دیوار کے ساتھ چینی کا ایک سنگ ابھی تک موجود ہے‘ لوگوں نے یقینا اسے بھی توڑنے کی کوشش کی ہو گی لیکن یہ شاید ڈھیٹ ہے لہٰذا یہ ابھی تک دیوار کے ساتھ چپکا ہوا ہے‘ مقامی لوگ اس عمارت کو میم کی حویلی کہتے ہیں لیکن حویلی بھی موجود نہیں اور میم بھی‘ عمارت کی پچھلی سائیڈ پر ٹیرس ہے۔
اس کے سامنے مالٹوں کا باغ تھا‘ باغ آج بھی ہے لیکن ٹیرس تقریباً مٹی ہو چکا ہے اور سمر ہاؤس کی دیواریں شکستہ ہیں اور کھڑکیاں وقت کی نذر ہو چکی ہیں‘ میں بڑی دیر تک افسردگی کے عالم میں وہاں کھڑا رہا اور یہ سوچتا تھا آج اگر کرنل کونویل یہاں آ جائے تو کیا وہ یہ سب کچھ دیکھ سکے گا؟ وہ یقینا خودکشی کر لے گا‘میں وہاں سے کرنل کے متروک آفس میں چلا گیا‘ یہ آج کل کرنل کے منشی شاہ محمد کے پوتے صبار کی ملکیت ہے۔
یہ درددل رکھنے والے سمجھ دار انسان تھے‘ انھوں نے بتایا ہم نے کرنل کونویل کی تمام اشیاء‘ پینٹنگز اور تصاویر اکٹھی کر کے ان کے خاندان کو لندن بھجوا دی تھیں تاہم ان کے پاس کونویل فیملی کی چند تصاویر موجود تھیں‘ میری درخواست پر انھوں نے یہ تصاویر مجھے دکھا دیں‘ فارم تصویروں میں برطانیہ کی کوئی قدیم ریاست دکھائی دیتا تھا اور کونویل فیملی شاہی خاندان‘ وہ تصویریں‘ وہ آفس اور وہ سمر ہاؤس دیکھنے کے بعد سوال پیدا ہو رہا تھا کون کون لوگ‘ کہاں کہاں سے آ کر‘ کہاں کہاں آباد ہوئے اور پھر کہاں نکل گئے؟زندگی کے لیے اس سے بڑا المیہ کیا ہو سکتا ہے؟
ساہیوال میں اویس ملک ڈپٹی کمشنر ہیں‘ میری ان سے ملاقات نہیں ہو سکی لیکن لوگ ان کی بہت تعریف کرتے ہیں‘ یہ پڑھے لکھے بھی ہیں اور شاعر بھی ہیں لہٰذا میری ان سے درخواست ہے یہ کرنل کونویل کے گھر اور دفتر کا وزٹ کریں اور اس کے گھر کی تزئین وآرائش کر کے اسے میوزیم یا ریسٹ ہاؤس بنا دیں اور صبار صاحب سے کونویل فیملی کی تصاویر لے کر انھیں اس گھر میں لگا دیں تاکہ ساہیوال کے لوگ اس شخص کو یاد رکھ سکیں اور دوسرا کرنل کے والدین کی قبروں کی مرمت کر کے انھیں بھی بحال کر دیں اور اگر ممکن ہو تو کونویل فیملی کے کسی فرد کو برطانیہ سے بلا کر ساہیوال کی سیر کرا دیں۔
اس شخص کے لیے ہماری طرف سے کم از کم عطیہ ہو گا جس نے اپنی دو نسلیں اس زمین پر وار دی تھیں‘ وہ شخص واقعی کمال تھا‘ وہ سو سال پہلے وہ سب کچھ کر گیا جو ہم آج بھی نہیں کر سکتے‘ کاش حکومت ماضی کے ایسے کرداروں کو تلاش کر کے ان کے پروفائل مرتب کرے‘ شایع کرے اور کونویل ہاؤسز جیسی عمارتیں بحال کر کے لوگوں کو یہ بتا سکے ہمارے ملک میں بھی دیکھنے اور سیکھنے کی بے شمار جگہیں موجود ہیں لیکن شاید ہم یہ نہیں کر سکیں گے‘ کیوں؟ کیوں کہ تعمیر ہمارے ڈی این اے ہی میں نہیں ہے‘ ہمارے ہاتھوں میں تخریب کے سوا کوئی لکیر نہیں‘ ہم صرف ایک کام بہترین طریقے سے کر سکتے ہیں اور وہ ہے توڑ دیں‘ گرا دیں اور مار دیں اور ہم یہ کام من حیث القوم پوری ایمان داری کے ساتھ کر رہے ہیںاور دنیا میں شاید کوئی بھی قوم اس شعبے میں ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتی۔
Source: Express News
Must Read Urdu column Tor den Gira den By Javed Chaudhry