موروثی سیاست: سری لنکا، پاکستان – اوریا مقبول جان
قوموں کی زندگی میں ایک دن وہ لمحہ بالآخر آ ہی جاتا ہے جب ان کی قوتِ برداشت جواب دے جاتی ہے، پھر ان کا غصہ اور انتقام سب کچھ جلا کر بھسم کر دیتا ہے۔ یہ نفرت اور غصہ اس آتش فشاں کی طرح ہوتا ہے جس کا کسی کو اندازہ تک نہیں ہوتا۔ جس وقت ملک بھر میں یہ بربادی کا منظر ہوتا ہے تو بہت سے تبصرہ نگار خیر خواہی میں ایسی گفتگو کرنے لگتے ہیں کہ اس انارکی سے قومی املاک کا نقصان ہو رہا ہے، معیشت تباہ و برباد ہو رہی ہے، یہ یقیناً ملک دُشمنی ہے۔ لیکن وہ قوم جس نے مدتوں غربت، ننگ، افلاس، بیماری اور بے روزگاری دیکھی ہوتی ہے وہ بالکل ان باتوں پر کان نہیں دھرتی، اُسے ہر اس حکومتی علامت سے نفرت ہوتی ہے جو صرف حکمران طبقے کی عیش پسندی کا مظہر ہوتی ہے۔ انہیں موٹر ویز، ایئر پورٹ، بڑے بڑے گھر، دفاتر یہاں تک کہ ہسپتال بھی اس لئے اچھے نہیں لگتے کہ ان سے فوائد صرف حکمران طبقے ہی حاصل کرتے ہیں اور وہ ہمیشہ ان سے محروم رہے ہوتے ہیں۔ لیکن اگر کسی ملک میں اقتدار کسی ایک خاندان یا دو خاندانوں میں ہی گھومتا رہے تو پھر غصے میں مزید شدت آ جاتی ہے۔ سری لنکا کی کہانی بھی دو سیاسی خاندانوں کے درمیان اقتدار کی بندربانٹ کی کہانی ہے جو میرے ملک کی بدقسمت سیاست سے بالکل مختلف نہیں ہے۔ سری لنکا کی سیاست گذشتہ ایک سو سال سے دو خاندانوں میں تقسیم ہے جن میں ایک بندرا نائیکے خاندان اور دوسرا پکسا خاندان ہے۔ بندرا نائیکے خاندان اس وقت اہمیت اختیار کر گیا جب انہوں نے پرتگیزی آقائوں سے وفاداری کی اور ان آقائوں نے انہیں سیاسی طور پر نوازنا شروع کر دیا۔ یہ بنیادی طور پر سنہالی تھے مگر اتنے وفادار ہوئے کہ اپنے سنہالی نام بندرا نائیکے کو بدل کر انہوں نے اپنے نام کے ساتھ پرتگیزی نام دیاس (Dias) لکھنا شروع کر دیا۔ اس خاندان کا پہلا شخص جو وزیر اعظم بنا وہ سالمن ویسٹ ردگیوے دیاس بندرا نائیکے (Solomon West Ridgeway Dias Bandaranaike)تھا جو 12 اپریل 1956ء سے 26 ستمبر 1959ء تک وزیر اعظم رہا۔
اسی شخص کی بیوی مسز بندرا نائیکے 21 جولائی 1960ء کو اپنے خاوند کے قتل کے بعد پہلی دفعہ وزیر اعظم بنی اور 27 مارچ 1965ء تک برسراقتدار رہی، اس کے بعد 29 مئی 1970ء سے 23جولائی 1977ء تک اور تیسری مرتبہ 14 نومبر 1994ء سے 10 اگست 2000ء تک بندرا نائیکے خاندان کی یہ خاتون اقتدار پر براجمان رہی۔ دوسرا سیاسی خاندان پکسا نام سے مشہور ہے، جو 2005ء سے اب تک سری لنکا پر برسراقتدار ہے۔ اس خاندان کے اقتدار پر قبضے کا یہ عالم ہے کہ، اس وقت سری لنکا کا صدر گونابایا راجہ پکسا ہے، جب کہ اس کا سگا بھائی مہندا راجہ پکسا وزیر اعظم ہے، جس نے حال ہی میں وزارتِ عظمیٰ سے استعفیٰ دیا ہے۔ یہ وزیر اعظم خود بھی دو دفعہ سری لنکا کا صدر رہ چکا ہے۔ ان کا تیسرا بھائی باسل راجہ پکسا، وزیر خزانہ اور معاشی ترقیاتی پروگراموں کا انچارج ہے۔ تینوں بھائیوں کے زیر اختیار سری لنکا کا تقریباً 70 فیصد بجٹ ہے اور ملک کی پانچ بڑی وزارتیں ان کے پاس ہیں۔ ان کا چوتھا بھائی قومی اسمبلی کا سپیکر ہے۔ اس خاندان کے 29 افراد سری لنکا کی اہم ترین پوزیشنوں پر فائز ہیں۔ یہ صرف سیاسی عہدوں پر فائز نہیں بلکہ سول سروس، میڈیا یہاں تک کہ چیمبرز آف کامرس پر بھی اسی خاندان کا قبضہ ہے۔ یہ خاندان 2005ء میں برسراقتدار آیا اور اس نے گذشتہ تیس سالوں سے ملک کے اقتدار پر قابض بندرا نائیکے خاندان کو مستقل اپوزیشن میں دھکیل دیا۔ اس خاندان نے عوامی مقبولیت کے لئے تین بدترین فیصلے کئے۔ پہلا یہ کہ ایسے منصوبوں کے لئے قرضے لئے جو دکھاوے کے لئے خوبصورت اور جاذبِ نظر تھے لیکن عوام کی غربت اور افلاس کو دُور نہیں کرتے تھے، جیسے موٹر ویز، خوبصورت ایئر پورٹ، شاندار بندرگاہیں وغیرہ۔ یہ قرضے تعلیم دے سکے نہ صحت اور نہ ہی روزگار مگر عام آدمی پر بوجھ بنتے گئے۔
دوسرا فیصلہ انہوں نے یہ کیا کہ ان قرضوں کی ادائیگی کے لئے سرمایہ داروں پر ٹیکس لگانے چاہئے تھے تاکہ جلد قومی معیشت کو قرضوں سے نجات مل جاتی، مگر انہوں نے اپنے منظورِ نظر سیاسی وفادار سرمایہ داروں کی وجہ سے ان پر کوئی ٹیکس نہیں لگائے، بلکہ مزید قرضے لے کر پرانے قرضوں کی ادائیگی کی، جس سے وہ ملک پر اور قرضوں کا بوجھ بڑھاتے چلے گئے۔ تیسرا فیصلہ بھی سیاسی مقبولیت کے لئے کیا گیا کہ عام چیزوں، پٹرول اور اجناس پر سبسڈی دیتے رہے تاکہ وہ عوام میں مقبول رہیں جس کے نتیجے میں ایک دن ایسا آیا کہ خزانے میں سبسڈی دینے کے لئے ایک روپیہ بھی باقی نہ رہا۔ آج سری لنکا پر 51 ارب ڈالر، قرضہ ہے جس میں سے 80 فیصد قرضہ اسی پکسا خاندان کی حکومت کے دوران لیا گیا جو سری لنکا پر گذشتہ 18 سال سے مسلّط ہے۔ یوں پورے ملک کو قرضوں میں جکڑنے کے بعد یہ خاندان آئی ایم ایف سے بھیک مانگنے نکلا تو اس کے مطالبے بہت سخت تھے یعنی کہ تم پہلے عوام پر ٹیکس لگائو، اور سبسڈی ختم کر کے خود کو اس قابل بنائو کہ قرضے اُتار سکو۔ جوش میں آ کر پکسا خاندان نے آئی ایم ایف کو انکار تو کر دیا۔
لیکن معاشی منصوبہ بندی نہ کر سکے۔ بلکہ اُلٹا اپنے خاندان کی لوٹی ہوئی دولت کو بیرون ملک محفوظ کرنے میں لگ گئے۔ پانچ بڑی وزارتوں پر ہونے کی وجہ سے تمام کرپشن یہی خاندان کرتا رہا اور ایک اندازے کے مطابق اس خاندان کے پاس دس ارب ڈالر سے زیادہ چوری کا پیسہ موجود ہے۔ یوں سری لنکا گذشتہ ماہ دیوالیہ ہو گیا اور قرضے کی قسط بھی ادا نہ کر سکا۔ اس موروثی خاندانی سیاست کی لوٹ مار کی وجہ سے سری لنکا کی معاشی حالت اب یہاں تک آ گئی ہے کہ گذشتہ چار ماہ سے پٹرول پمپموں پر لائنیں لگی ہوئی ہیں، کرنسی کی قیمت پچاس فیصد سے زیادہ نیچے گر چکی ہے، ہسپتال میں دوائیاں بالکل ختم ہو گئیں ہیں اور اس پر ’’سونے پہ سہاگہ‘‘ یہ کہ دو عالمی حالات نے انہیں مزید برباد کیا۔ ایک کرونا اور دوسری یوکرین کی جنگ۔ سری لنکا کی معیشت تین اہم ذرائع آمدن پر کھڑی تھی۔ ایک کپڑوں کی برآمدات، دوسری بیرون ملک سری لنکا کے مزدوروں کے پیسے اور تیسری سیاحت۔ کپڑوں کی برآمدات اور سیاحت کو کرونا نے برباد کیا اور ساتھ ہی یوکرین کے تنازعے نے ان کو اس گندم سے بھی محروم کر دیا جو وہاں سے آنا تھی۔
اب ایک طرف بھوک، ننگ، افلاس اور بے روزگاری تھی اور دوسری طرف ایک ہی خاندان جو گذشتہ اٹھارہ سالوں سے سری لنکا کو لوٹ رہا تھا۔ بے قابو ہجوم جس کی قوتِ برداشت ختم ہو چکی تھی، اس نے سب سے پہلے پکسا خاندان کے آبائی گھر کو آگ لگائی، پھر وزیر اعظم ہائوس میں گھس گئے، یہاں تک کہ فوج نے آ کر اس کے خاندان کو وہاں سے نکالا، قتل و غارت شروع ہوئی، پہلے مرحلے میں سات لوگ مارے گئے جن میں دو اراکین پارلیمنٹ بھی شامل تھے۔ پینتیس کے قریب گھروں کو آگ لگا دی گئی۔ لوگ کولمبو کے سب سے بڑے سرکاری ہسپتال میں گھس گئے اور ڈھونڈتے رہے کہ کوئی زخمی سرکاری اہلکار یا سیاست دان تو یہاں علاج نہیں کروا رہا۔ پورے ملک میں کرفیو لگا دیا گیا ہے اور اس وقت دارالحکومت مکمل طور پر فوج کے قبضے میں ہے۔ اس تمام صورتِ حال کو سنبھالنے کے لئے ابھی تک فوج سری لنکا میں غیر متنازعہ ہے۔ بلکہ گذشتہ کئی سالوں سے تامل دہشت گردی کے خاتمے کی وجہ سے ایک قومی ہیرو کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس نے کبھی سری لنکا کی جمہوری سیاست میں مداخلت بھی نہیں کی۔ کیا ہم بھی سری لنکا والے راستے پر گامزن نہیں ہیں؟۔ ہر ڈرامے، فلم یا کہانی کے آغاز میں یہ فقرہ لکھا جاتا ہے کہ ’’کرداروں کی مماثلت محض اتفاقی ہے‘‘۔ لیکن یہاں یہ محض اتفاق نہیں ہے بلکہ ایک تلخ حقیقت ہے، کہ ہم تیزی سے اس انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
Source: 92 news
Must Read Urdu column Morosi Siasat Sri Lanka Pakistan By Orya Maqbool jan