جمہوریت، موروثیت اور کرپشن کا گٹھ جوڑ – اوریا مقبول جان
گذشتہ صدی میں جو چند بدنام ترین کرپٹ حکمران گزرے ہیں، ان میں سے ایک فلپائن کا صدر فرڈینینڈ مارکوس (Ferdinand Marcos) تھا۔ایک محتاط اندازے کے مطابق وہ اکیلا فلپائن سے دس ارب ڈالر لوٹ کر لے گیا۔ اس کی بیوی امیلڈا مارکوس جو 1953ء کی ملکۂ حُسن تھی، اس کی تعیش کا یہ عالم تھا کہ جب 1986ء میں اس خاندان کو صدارتی محل سے نکالا گیا تو وہ اپنے ساتھ سونے اور ڈالروں کے کریٹوں کے علاوہ پوری دُنیا سے خریدے گئے تین ہزار ڈیزائنر شاپس سے خریدے جوتوں کے جوڑے بھی لے کر گئی۔ فلپائن نے امریکہ سے 4 جولائی 1948ء کو آزادی حاصل کی۔ امریکہ نے اس ملک کو دو بڑے تحفے دیئے۔ ایک کرپٹ جمہوری نظام اور دوسرا منیلا شہر کو جسم فروشی اور قحبہ گری کے اڈے میں تبدیل کرنا۔ امریکی فوج کی ایک پوری یونٹ پورے فلپائن سے کم سن بچیوں کو گھیر کر میٹرو منیلا اور مکاتی کے علاقوں میں سجائے گئے بازاروں میں لا کر بٹھاتی، جہاں امریکی فوجی اپنی شامیں رنگین کیا کرتے۔ مارکوس نے قانون کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد سیاست میں حصہ لینا شروع کیا اور وہ ایک دن فلپائن کے پہلے صدر مینوئل روکسس (Manuel Roxas)کا اسسٹنٹ مقرر ہو گیا۔ اس کے بعد وہ 1949ء سے 1959ء تک دس سال اسمبلی کا رکن رہا۔
پھر اسے سینیٹر بنا دیا گیا جہاں وہ دو سال سینٹ کا صدر بھی رہا۔ اس نے 30 دسمبر 1965ء کو صدارتی الیکشن لڑا اور چار سال کیلئے صدر منتخب ہو گیا۔ وہ دوبارہ صدر منتخب ہو گیا، مگر اب اس کی کرپشن کے افسانے منظرِ عام پر آ چکے تھے۔ اس کے خلاف طلبہ کی ایک احتجاجی تحریک شروع ہو گئی۔ اس نے اس تحریک پر روس اور چین کی سرپرستی کا الزام لگایا اور 21 ستمبر 1972ء کو ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا اور اپوزیشن لیڈر بنیگنو اکینو، سمیت 60 ہزار افراد کو جیل میں ڈال دیا۔ مارشل لاء کے تحت وسیع اختیارات ملتے ہی اس نے اپنی بیوی امیلڈا کو میٹروپولیٹن منیلا کا گورنر لگا دیا جو اس عہدے پر اسکی صدارت سے سبکدوشی تک موجود رہی۔ اس طاقتور خاتون نے اپنے لاتعداد رشتے داروں کو ملک کے اہم عہدوں پر تعینات کیا اور وہی اصل حکمران تصور ہوتی تھی۔ مارکوس کی سیاست ہمیشہ سے ہی پُر تشدد رہی تھی۔ ایک شخص جولیو نالندنسن (Julio Nalundasan)نے 1935ء میں جب اسے دوسری دفعہ ہرایا تو اس نے اسے صبح سویرے دانت صاف کرتے وقت قتل کر کروا دیا۔ اسے موت کی سزا ہوئی مگر وہ اپیل لے کر سپریم کورٹ چلا گیا۔سپریم کورٹ کے جسٹس جوز لارل نے بھی زمانہ طالبِ علمی میں کسی کو قتل کیا تھا، اور اس کی سزا کو سپریم کورٹ نے ختم کر دیا تھا، جس کے بعد وہ ایک ’’اچھا بچہ‘‘ بن گیا تھا۔ جج نے اپنے اس تجربے کے تحت مارکوس کو ’’اچھا بچہ‘‘ بنانے کے لئے پھانسی کی سزا ختم کر دی۔
مارکوس فلپائن کا پہلا حکمران تھا جس نے کرپشن اور عیاشی کے لئے ملک کو قرضوں کی دلدل کی طرف گھسیٹا۔ مارکوس جب برسراقتدار آیا، تو ملک پر ایک ارب سے بھی کم، یعنی 360 کروڑ ڈالر قرضہ تھا لیکن 1988ء تک یہ ساڑھے 26 ارب ڈالر ہو گیا۔ پورا ملک غربت و افلاس کی چکی میں پِس رہا تھا مگر مارکوس خاندان ان قرضوں سے پراجیکٹ بنانے اور کرپشن کر کے سرمایہ باہر بھیجتے رہے۔ اس کے خلاف زبردست تحریک کا آغاز ہوا جس میں تمام اپوزیشن پارٹیاں شامل تھیں۔ دسمبر 1970ء میں ایک فوجی بغاوت پکڑی گئی، کہا جاتا ہے کہ اس نے مرنڈا پلازا پر خود ایک دہشت گردی کا حملہ کروایا تاکہ اس بہانے مارشل لاء لگا سکے اور اس نے جولائی 1973ء میں مارشل لاء کے حق میں ایک ریفرنڈم کروایا جس میں اکیانوے فیصد ووٹ پڑے اسکے نتیجے میں اس نے مارشل لاء لگا دیا۔اس کی بارہ رکنی کابینہ میں آدھے جنرل تھے۔یہ مارشل لاء نو سال تک چلتا رہا،اور ان نو سالوں میں جمہوریت کے سب سے بڑے چیمپئن ’’امریکہ‘‘ نے فلپائن کو ڈھائی ارب ڈالر براہِ راست امداد دی اور ساڑھے پانچ ارب ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف سے لے کر دیئے۔ مارشل لاء ختم ہونے کے دو سال بعد 21 اگست 1983ء کو اس کا مخالف بنیگنو اکینو جب امریکی آشیر باد سے ملک واپس آیا، تو اسے جہاز کی سیڑھیوں پر ہی قتل کر دیا گیا۔ اس کے بعد امریکی اس ’’جمہوری مارکوس‘‘ سے ناراض ہو گئے۔ امریکیوں نے اپنا اگلا مہرہ تیار کر رکھا تھا، جسے اس نے قتل کروا دیا تھا۔ وہ اس دوران پریشانی کے عالم میں شدید بیمار پڑ گیا۔ اس کی بیماری کے دوران کاروبارِ سلطنت امیلڈا مارکوس نے سنبھال لیا۔ امریکی صدر ریگن نے امداد روک دی، اگلے صدر جمی کارٹر نے تو اس کا نام انسانی حقوق کے قاتلوں کی فہرست میں ڈالا۔ ابھی اس کی مدت صدارت میں ایک سال رہتا تھا، لیکن اسے الیکشن کروانے پر مجبور کیا گیا۔ بدنام الیکشن کمیشن نے 7 فروری 1986ء کو اسے کامیاب قرار دیا۔ عوام نے اس رزلٹ کو نہ مانا اور آزادانہ الیکشن کیلئے تحریک شروع کر دی، جو اس قدر کامیاب ہوئی کہ صرف 19 دن بعد مارکوس ملک چھوڑ کر امریکہ کے جزیرے ہوائی میں جلا وطن ہو گیا۔ اس کے خلاف کرپشن اور بددیانتی کے لاتعداد مقدمے، مقامی اور عالمی عدالتوں میں چلائے گئے۔ کمیشن بیٹھے اور تحقیقات کے بعد ثابت ہوا کہ مارکوس اور اس کے تمام خاندان کے افراد، 30 ارب ڈالر لوٹ کر ملک سے باہر لے گئے ہیں۔
جائدادیں ضبط کرنے اور دیگر عالمی ذرائع سے زیادہ سے زیادہ چار ارب ڈالر واپس حاصل کئے جا سکے۔ مارکوس 1989ء میں جلا وطنی کے دوران ہی مر گیا۔ لیکن اصل کہانی اب شروع ہوتی ہے۔ اس کی بیوی امیلڈا مارکوس جو اس وقت 92 سال کی ہے، اپنے خاوند کے انتقال کے 2 سال بعد ہی وطن واپس آ گئی۔ لوگ اسے اپنے درمیان دیکھتے ہی سب کچھ بھول گئے۔ وہ ایئر پورٹ سے سیدھی ایک گرجے گئی، عام لوگ اس کے گرد جمع ہو گئے اور یہ نعرے لگانے لگے کہ ’’مارکوس کی خفیہ دولت لوگوں کے دل میں ہے‘‘۔ اس پر ٹیکس حکام نے مقدمہ درج کیا، لیکن رائے عامہ اسے مسلسل معصوم کہتی رہی۔ اس کی مخالف اکینو کی حکومت اب اس کے خاوند کی طرح ہی کرپٹ مشہور ہو چکی تھی۔ امیلڈا مارکوس کا بیانیہ عوام میں بِکنے لگا کیونکہ لوگ اب اس کے خاندان کی کرپشن بھول کر اکینو خاندان کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔
آج 36 سال بعد مارکوس کا ہزاروں ایکڑ والا گھر جسے ٹورازم محکمے نے بنا کر دیا تھا، وہ ان کا خاندانی مزار اور میوزم بن چکا ہے۔ لوٹی ہوئی دولت میں سے اکثر خاندان کے پاس واپس آ چکی ہے۔ امیلڈا کا بیٹا فرنینڈ جونیئر مارکوس اگلے الیکشنوں کے لئے مضبوط ترین صدارتی امیدوار ہے۔ اسے فلپائن کے عوام پیار سے بونگ بونگ (Bong Bong) کہتے ہیں۔ آج پورے فلپائن میں کوئی شخص اگر یہ کہے کہ بونگ بونگ کا باپ مارکوس ایک کرپٹ اور بددیانت حکمران تھا تو لوگ اس کا گریبان تھام لیتے ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ موجودہ صدر روڈیگو ڈیو ٹریٹ (Rodrigo Duterte)کی بیٹی سارہ جو اسکے مخالف صدارتی اُمیدوار تھی، اس نے بھی بونگ بونگ کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے۔ بونگ بونگ کا یہ نعرہ بہت مقبول ہے کہ جو مجرم ایک سے زیادہ بار جرم کرتا ہے اور اصلاح نہیں کرتا تو اسے قتل کر دیا جائے۔ جمہوریت اور الیکشن ایک ایسا دھندا ہے جو سچ اور جھوٹ اور امانت و خیانت میں فرق ختم کر دیتا ہے۔ صرف پارٹی تعصب باقی رہ جاتا ہے۔اسی تعصب میں سیاسی خاندان پلتے ہیں اور عام آدمی پر راج کرتے ہیں
Source: 92 news
Must Read Urdu column Jamhoriat, Morosiat aur Corruption ka Gath Jor By Orya Maqbool jan