موبائل فون، آپ کے بچے کا دشمن – انصار عباسی
اگر بچے چھوٹے ہوں تو اُنہیں موبائل فون مت دیں۔ لڑکے ہوں یا لڑکیاں جب تک وہ کم از کم اٹھارہ سال کے نہ ہو جائیں اُنہیں موبائل فون نہ لے کر دیں۔ کوئی پتہ نہیں کہ یہ موبائل فون کس کی زندگی تباہ کر دے، کس خاندان کی عزت خاک میں ملا دے؟ موبائل فون کے ذریعے دوستیاں اور لڑکوں اور لڑکیوں کے گھر سے بھاگنے کے واقعات بہت ہی عام ہونے لگے ہیں۔
ایسی صورت میں عموماً دونوں خاندانوں کے لئے بڑی شرمندگی اور سخت آزمائش کا وقت ہوتا ہے لیکن لڑکی کے والدین اور قریبی عزیزوں کا تو جینا ہی محال ہو جاتا ہے۔
اس کے علاوہ اگر آپ ایف آئی اے سے سائیبر کرائم کا ریکارڈ چیک کریں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ موبائل فون کے استعمال اور انٹر نٹ کے ذریعے دوستیوں نے کس طرح بالخصوص سینکڑوں لڑکیوں کو سنگین ہراسانی اور زیادتی کا نشانہ بنایا۔ شہروں میں رہنے والوں کو چھوڑیں اب تو گاؤں کی بچیوں کے ساتھ بھی ایسے واقعات ہونے لگے ہیں۔
موبائل فون کے ذریعے ہی سلام دعا ہوتی ہے، وہیں دوستیاں ہوتی ہیں جو بڑھتے بڑھتے گھر سے بھاگنے پر منتج ہوتی ہیں ۔ موبائل فون کے ذریعے ہی ایک دوسرے کی تصویریں شئیر کی جاتی ہیں اور پھر اسی بنیاد پر بلیک میلنگ کا سلسلہ بھی شروع ہوتا ہے۔
ایف آئی اے کے مطابق ایسی بلیک میلنگ کا شکار اگرچہ بعض اوقات مرد بھی ہوتے ہیں لیکن اکثر اس کا نشانہ بچیاں اور خواتین بنتی ہیں۔
میڈیا کے ذریعے گاہے گاہے ایسے واقعات رپورٹ ہوتے رہتے ہیں، جس سے معاشرہ کو سبق حاصل کرنا چاہئے۔ خاص طور پر والدین اپنے چھوٹے بچوں (اٹھارہ سال سے کم عمر کے بچوں اور بچیوں) کو کسی بھی صورت موبائل فون مت لے کر دیں۔
اگر اسکول کے ساتھ رابطہ کے لئے موبائل فون کی ضروت ہو تو ماں یا باپ میں سے کسی کا بھی موبائل فون استعمال ہوسکتا ہے۔ اسی طرح آج کل کمپیوٹر اور انٹرنٹ، تعلیم کے لئے بہت ضروری ہے۔ بچوں کے لئے کمپیوٹر کا استعمال روکا نہیں جا سکتا۔
والدین کوشش کریں کہ جب بچے کمپیوٹر استعمال کریں تو وہ ایسی جگہ ہو جہاں گھر والوں کی اُس پر نظر پڑتی رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کو غلط اور صحیح کی تعلیم بھی دیتے رہیں، اُنہیں موبائل فون اور انٹرنٹ کے درست استعمال اور اس سے جڑے خطرات اور برائیوں سے بھی آگاہ رکھیں۔ سب سے اہم بات یہ کہ اپنی اولاد کےلئے دعا کرتے رہیں۔
میڈیاکی بھی ذمہ داری ہے کہ ایسے واقعات کو جب رپورٹ کیا جائے تو اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ گھر سے بھاگنے والوں کو ہیرو بنا کر نہ پیش کیا جائے کیوں کہ اس طرح دوسرے بچوں کے ذہن بھی خراب ہو سکتے ہیں۔ اگر کسی کا بیٹا یا بیٹی ایسے کسی عمل میں شامل ہو تو اُن کو پیار سے سمجھایا جائے.
اگر والدین کی بات نہیں سنتے تو ایسے افراد کو اُنہیں سمجھانے کے لئےشریک کیا جائے جس کی وہ بات سن سکتے ہوں۔
حال ہی میں مجھے ایک جاننے والے نے بتایا کہ اُس کی بھتیجی جو نویں کلاس کی طالبہ ہے، گھر سے بھاگ گئی۔
اُن کا کہنا تھا کہ اُن کی بھتیجی گاؤں میں رہتی تھی ،بہت ہی معصوم بچی تھی اور اُس کے خاندان والے سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ وہ کوئی ایسا قدم اُٹھا سکتی ہے۔
اُن کا بھی یہی رونا تھا کہ موبائل فون اُس کے پاس تھا اور نجانے کیا ہوا کہ وہ بغیر کسی کو بتائے گھر چھوڑ کی چلی گئی۔
اب والدین اور قریبی عزیز پولیس کے پاس چکر لگا رہے ہیں کہ بچی کو بازیاب کروایا جائے۔ اُن کے کہنا تھا کہ پولیس کے مطابق بچی نے دوردراز کسی شہر میں اُس شخص سے نکاح کر لیا ہے جس سے اُس کی موبائل فون کے ذریعے دوستی ہوئی۔
ایسے واقعات سے والدین اور معاشرہ کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں اور ہر ایک کو ضروری احتیاط کرنی چاہئے تاکہ اُن کے ساتھ ایسا نہ ہو۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہر بچے اور تمام والدین کو ایسی آزمائش سے بچائے۔ آمین۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)
Source: Jung News
Read Urdu column Mobile Phone aap k bachay ka dhushman By Ansar Abbasi