ورنہ سے بھی آ گے – جاوید چوہدری
حسین نواز کا کہنا تھا میاں صاحب چوہدری نثار کی بہت عزت کرتے تھے‘ یہ انھیں خاندان حتیٰ کہ میاں شہباز شریف سے بھی زیادہ مقام دیتے تھے لیکن چوہدری صاحب نے اس محبت کا بھرم نہیں رکھا‘ میاں نواز شریف 2016 میں علیل ہوئے‘ آپریشن کے لیے لندن لائے گئے‘ آپریشن خراب ہو گیا‘ اﷲ تعالیٰ نے ان کی جان بچا لی لیکن یہ کم زور ہوتے چلے گئے۔
اس وقت یہ خبر اڑنے لگی میاں صاحب نے شہباز شریف کو وزیراعظم بنا کر سیاست سے ریٹائرمنٹ کا فیصلہ کر لیا ہے‘ یہ اطلاع چوہدری نثار تک پہنچی تو وہ مریم نواز کے پاس آئے اور ناراض لہجے میں کہا ’’میں شہباز شریف کو وزیراعظم نہیں مانوں گا‘‘ ان کا کہنا تھا ’’میں شہباز شریف سے زیادہ ڈیزرو کرتا ہوں‘ میرا تجربہ بھی زیادہ ہے اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات بھی آئیڈیل ہیں لہٰذا میرا حق بنتا ہے‘‘ ان کا دعویٰ تھا چوہدری صاحب کی وجہ سے شریف خاندان کو ماضی میں بھی کئی بار نقصان پہنچا۔
صدر غلام اسحاق خان کے ساتھ تعلقات بھی ان کی وجہ سے خراب ہوئے اور جنرل پرویز مشرف کے دل میں بھی انھی کی وجہ سے غلط فہمیاں پیدا ہوئیں‘ یہ پاناما کیس کے دوران پنجاب ہاؤس میں اسٹیبلشمنٹ کے اہم لوگوں سے بھی ملتے رہے تھے‘ ڈان لیکس میں بھی ان کا کردار سمجھ سے بالاتر تھا اور انھوں نے دھرنے کے دوران عمران خان کو شاباش کا میسج بھی بھیجا تھا اور عمران خان نے یہ پیغام کئی صحافیوں کو دکھایا اور صحافیوں نے ہمیں بتایا‘ مجھے 12 اکتوبر 1999 کی وہ شام بھی اچھی طرح یاد ہے جب فوج وزیراعظم ہاؤس میں داخل ہوئی‘ چوہدری صاحب کمرے میں لیٹے ہوئے تھے‘ فوج آئی اور اس نے سب کو گرفتار کر لیا لیکن چوہدری صاحب کمرے سے نکلے اور ہمیں ملے بغیر چپ چاپ گاڑی میں بیٹھ کر چلے گئے جب کہ سیف الرحمن وزیراعظم ہاؤس سے باہر تھے مگر وہ آئے اور خود کو ہمارے ساتھ شامل کر لیا۔
میں آج تک حیران ہوں چوہدری نثار اس وقت ہمیں چھوڑ کر کیوں چلے گئے جب ہمیں ان کی ضرورت تھی اور فوج نے بھی انھیں کیوں نہیں روکا؟ دوسرا یہ ہمیشہ کلیم کرتے تھے میں اسٹیبلشمنٹ کے قریب ہوں‘ میں انھیں سب سے زیادہ جانتا ہوںلیکن یہ کسی بھی معاملے میں پارٹی اور نواز شریف کی مدد نہ کر سکے‘‘۔
میں نے ان سے پوچھا ’’پارٹی اسحاق ڈار صاحب کو پاکستان کیوں بھجواناچاہتی ہے؟‘‘ ان کا جواب تھا ’’ڈار صاحب خود پاکستان جانا چاہتے ہیں‘ یہ کیس بھی فیس کرنا چاہتے ہیں اور یہ معیشت کو بھی اچھی طرح سمجھتے ہیں‘ پاکستان کے معاشی امور کو جاننے اور چلانے کے لیے اعلیٰ کوالی فائیڈ لوگوں کی ضرورت نہیں ہے‘ اس کے لیے اسٹریٹ اسمارٹ لوگ چاہییں اور ڈار صاحب میں یہ خوبی موجود ہے‘ یہ ان تھک انسان ہیں‘ یہ ماضی میں بھی 24 گھنٹے دستیاب ہوتے تھے‘ یہ مارکیٹ کے پلیئرز کو بھی ذاتی طور پر جانتے ہیں‘ یہ ماضی میں بھی فون اٹھاتے تھے اور پلیئرزکو کہتے تھے بھائی صاحب خیریت ہے۔
آپ کیا کرنا چاہتے ہیں اور وہ ساتھ ہی ہتھیار ڈال دیتا تھا‘ ہم مفتاح اسماعیل کے خلاف نہیں ہیں لیکن یہ ڈار صاحب کی طرح لوگوں کو ذاتی طور پر نہیں جانتے‘ یہ ایک بڑے مارکیٹ پلیئر سے براہ راست بات کر کے اپنی بات نہیں منوا سکتے‘ اسحاق ڈار صاحب یہ کام آسانی سے کر سکتے ہیں‘‘ میں نے پوچھا ’’یہ خبر گردش کر رہی ہے ڈار صاحب وزیر خزانہ کے بجائے چیئرمین سینیٹ بن رہے ہیں؟‘‘
حسین نواز کا جواب تھا ’’نہیں یہ وزیرخزانہ کا قلم دان سنبھالنے کے لیے پاکستان جا رہے ہیں اور ان شاء اﷲ جولائی کے آخری دنوں میں اسلام آباد لینڈ کر جائیں گے‘‘ میں نے پوچھا ’’آپ اور حسن نواز کا کاروبار کیسا جا رہا ہے؟‘‘
حسین نواز کا جواب تھا ’’اﷲ کا کرم ہے لیکن ہمارے خلاف کمپیئن نے ہمارے بزنس کو بہت نقصان پہنچایا‘ سعودی عرب میں میری کمپنی کا آڈٹ بھی ہوا‘ سعودی اتھارٹیز کئی دن ہمارے دفتر اور فیکٹری میں رہیں لیکن الحمد للہ انھیں ایک ریال کی بھی گڑ بڑ نہیں ملی‘ میرا خیال ہے یہ کنٹرول عمران خان کی درخواست پر کیا گیا تھا جب کہ حسن نواز کا کاروبار بھی بری طرح متاثر ہوا‘ یوکے اور یورپ میں پراپرٹی کے بزنس بینکوں کے بغیر ممکن نہیں ہیں اور بینک معمولی سے منفی پروپیگنڈے سے بھی بھاگ جاتے ہیں جب کہ ہم مسلسل آٹھ برسوں سے منفی پروپیگنڈے کا شکار ہیں لہٰذا آپ خود اندازہ کر لیجیے ہمارے بزنس کی صورت حال کیا ہو گی؟ بہرحال اس کے باوجود اﷲ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ کرم ہے‘‘۔
مجھے دو مرتبہ میاں نواز شریف کے دفتر جانے کا اتفاق ہوا‘ مجھے محسوس ہوا پارٹی ضمنی الیکشنز کے بارے میں پرامید تھی‘ یہ مریم نواز کی کوششوں اور بھرپور جلسوں پر بھی خوش تھی لیکن 17 جولائی کے نتائج نے پارٹی کو حیران کر دیا‘ نتائج پارٹی کے لیے غیرمتوقع تھے‘ میری ضمنی الیکشن سے پہلے میاں صاحب سے ملاقات ہوئی تھی تو انھوں نے پوچھا ’’آپ کا اب تک کیا تخمینہ ہے؟‘‘
میں نے بتایا ’’میرا خیال ہے اسٹیبلشمنٹ سیاسی امور میں سو فیصد نیوٹرل ہو چکی ہے‘ یہ اب کسی کا بھی ساتھ نہیں دے گی‘ سیاسی فیصلے میدان اورگھوڑے کریں گے‘ آپ اگر اچھا الیکشن لڑیں گے تو آپ جیت جائیں گے اور اگر غلطیاں کریں گے تو آپ ہار جائیں گے‘ میری ذاتی معلومات کے مطابق فوج نے یہ فیصلہ متفقہ طور پر کیا ہے اور اگلے بیس سال تک کی قیادت اس فیصلے سے آگاہ ہے‘ یہ لوگ خود کو اب صرف جغرافیائی سرحدوں اور دہشت گردی کے خلاف کارروائی تک محدود کر رہے ہیں‘‘ میاں صاحب اطمینان سے میری بات سنتے رہے‘ وہاں موجود ایک صاحب بولے ’’کیا اب 20سال بعد سیاسی مداخلت ہو گی؟‘‘
میں نے ہنس کر جواب دیا ’’میں صرف اپنی معلومات شیئر کر رہا ہوں‘‘ میں نے عرض کیا ’’میری اوپر نیچے عمران خان‘ اسٹیبلشمنٹ اور آپ تینوں اہم ترین کھلاڑیوں سے ملاقات ہوئی‘ میرا خیال ہے تینوں لیول پر احساس موجود ہے‘ عمران خان نے بھی کہا تھا یہ فیصلہ ضروری ہے ملک کس نے چلانا ہے‘ وزیراعظم اگر بے اختیار ہو گا تو پھر ملک نہیں چل سکے گا‘ آپ بھی یہ کہہ رہے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کے لیول پر بھی یہی سوچا اور کہا جا رہا ہے‘ یہ بھی مانتے ہیں سیاست ہمارے بس کی بات نہیں‘ ہم اگر فوج کی عزت برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں سیاست سے پرہیز کرنا ہوگا‘ سیاست دان جانیں اور سیاست جانے‘ ہمیں ہر حکومت کو چپ چاپ مان لینا چاہیے اور ان کی جائز اور قانونی مدد کرنی چاہیے‘ ہمیں اب حکومتیں بنانے اور توڑنے کا کام نہیں کرنا چاہیے لہٰذا میرا خیال ہے ملک میں گرینڈ ڈائیلاگ کا اب بہترین وقت آ چکا ہے‘ تمام اسٹیک ہولڈرز کو بیٹھ کر اب فیصلہ کرنا چاہیے ورنہ ہم فیصلہ کرنے کے قابل نہیں رہیں گے‘‘۔
میاں صاحب نے خاموشی سے میری بات سن لی‘ ہمیں جس طرح عمران خان کی دو خوبیوں کا اعتراف کرنا چاہیے بالکل ہمیں اسی طرح میاں نواز شریف کی خوبیوں کو بھی تسلیم کرنا چاہیے‘ عمران خان گیواپ نہیں کرتے‘ یہ ہارنے کے بعد بھی ہار نہیں مانتے اور ان کی دوسری خوبی ان میں بے انتہا انرجی ہے‘ یہ توانائی سے بھرے ہوئے ضدی انسان ہیں بالکل اسی طرح اﷲ تعالیٰ نے میاں نواز شریف کو توکل اور صبر کی نعمت سے نواز رکھا ہے‘ ان کا صبر لاجواب ہے‘ یہ بڑے سے بڑا دکھ بھی برداشت کر جاتے ہیں اور حالات جیسے بھی ہوں یہ توکل کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیتے‘ شاید اسی لیے اﷲ ان پر کرم کرتا ہے اور یہ بار بار پہلے سے زیادہ قوت کے ساتھ واپس آ جاتے ہیں‘ یہ اب چوتھی مرتبہ واپس آ رہے ہیں‘ گویہ واپسی سے انکار کر رہے تھے‘ یہ ’’آپ واپس کب آ رہے ہیں؟‘‘ کے سوال پر بار بار پوچھ رہے تھے ’’ کیا میرے ساتھ یہ سلوک ہونا چاہیے تھا؟‘‘ لیکن اس کے باوجود مجھے محسوس ہو رہا تھا یہ اب زیادہ دنوں تک ملک سے باہر نہیں رہ سکیں گے‘ یہ جانتے ہیں یہ جتنا عرصہ ملک سے دور رہیں گے ان کی پارٹی اتنی ہی کم زور ہوتی چلی جائے گی اور اگر اگلے الیکشن ان کے بغیر ہو گئے تو پھر ن لیگ سمٹ کر چھوٹی جماعت ہو جائے گی اور میاں نواز شریف یہ نہیں چاہیں گے‘ دوسرا ملک واقعی نازک دور میں داخل ہو چکا ہے‘ میں مدت سے اس خدشے کا اظہار کرتا آ رہا ہوں‘ لوگ مجھے ’’منفی ذہنیت‘‘ کا طعنہ بھی دیتے تھے اور مجھے یہ مشورہ بھی دیتے تھے ’’آپ کبھی پازیٹو سائیڈ بھی دیکھ لیا کریں‘ لوگ اس ملک میں دال اور چاول بیچ کر ارب پتی ہو گئے ہیں‘ آپ کو یہ نظر نہیں آتے؟‘‘۔
میں خاموش ہو جاتا تھا مگر اب پورے ملک کو دیوار بھی نظر آ رہی ہے اور اس پر تحریر بھی‘ ہم اگر اکٹھے نہ بیٹھے‘ یہ نفرت ختم نہ ہوئی‘ ہم نے اگر سسٹم کو صاف نہ کیا اور بڑے اور بنیادی فیصلے نہ کیے تو یہ ملک چلا جائے گا‘ ہم دو تین مہینے میں دیوالیہ ہو جائیں گے اور اگر خدانخواستہ یہ وقت آ گیا تو گوادر چین لے جائے گا‘ ایٹم بم امریکا اور آزاد کشمیر بھارت اور ہم اگر یہ چاہتے ہیں تو پھر وہ وقت دور نہیں اور ہم اگر اس انجام سے بچنا چاہتے ہیں تو پھر مہربانی فرما کر ’’ٹروتھ اینڈ ریکنسیلی ایشن کمیشن‘‘ بنائیں‘ شخصیات اور ادارے اپنی غلطیاں مانیں‘ یہ مانیں 1973 کا آئین 2023 کے چیلنجز کا مقابلہ نہیں کر سکتا لہٰذا نیا آئین بنائیں اور ملک کو نئے سرے سے چلانا شروع کریں ورنہ ہم ورنہ سے بھی آگے جا چکے ہیں۔
پنجاب کی تازہ ترین صورت حال آپ کے سامنے ہے‘آپ اس صورت حال کو معاشی صورت حال میں رکھ کر دیکھیں‘کیاہم مزید تاخیر افورڈکر سکتے ہیں؟ پنجاب کی صورت حال اگر اسی طرح پھیلتی چلی گئی تو ڈالر 300 کراس کر جائے گا اوراس کے بعد پاکستان معاشی طور پر بحال نہیں رہ سکے گا اگر ہم اس صورت حال کو جاری رکھنا چاہتے ہیںتو اس کا نتیجہ ایک او ر1971 کی شکل میں نکلے گالہٰذا ہمارے پاس سنبھلنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے اور اگر ہم نے یہ آپشن بھی ضایع کر دیا تو پھر ہم سب کچھ کھو دیں گے۔
Source: Express News
Must Read Urdu column Warna se bhi Aagay By Javed Chaudhry