ایک انتظار کی موت – جاوید چوہدری
کمرے میں اداسی بُو کی طرح پھیلی تھی‘ اُس دیوار سے اس دیوار تک اور فرش سے لے کر چھت تک اداسی ہی اداسی تھی‘ خوشی میں خوشبو اور غم میں بو ہوتی ہے۔
آپ خوش ہیں تو آپ کے دائیں بائیں‘ آگے پیچھے خوشبو ہلکورے لے گی اور آپ کو دیکھنے‘ آپ کو ملنے والے لوگ اس خوشبو سے مست ہو جائیں گے اور جب غم آئے گا تو آپ کے وجود سے ہلکی ہلکی بو نکلے گی اور یہ آہستہ آہستہ آپ کے پورے ماحول کو آلودہ کر دے گی اور یہ آلودگی آپ کے ارد گرد موجود چیزوں کی ہیئت‘ رنگ اور روشنی پر اثرانداز ہو گی۔
آپ کی روشنیاں مدہم ہو جائیں گی‘ آپ کے رنگوں کا رنگ اڑ جائے گا اور آپ کی چیزوں کی شیپ خراب ہونے لگے گی‘ میں اس کے کمرے میں داخل ہوا تو وہاں اداسی کی بو پھیلی تھی اور وہ اس بدبو میں لاش بن کر ایزی چیئر پر بیٹھا تھا‘ چیئر آہستہ آہستہ آگے پیچھے ہو رہی تھی‘ اس کی روسی بلی اس کے قدموں میں بیٹھ کر اس کو حیرت سے دیکھ رہی تھی اور اس کی گھڑی معاف کیجیے گا وال کلاک کی ٹک ٹک ماحول کو مزید اداس‘ مزید دکھی بنا رہی تھی‘ ہماری جذباتی کیفیت کو سب سے پہلے ہمارے پالتو جانور پہچانتے ہیں۔
آپ خوش ہیں تو آپ کو اس خوشی کی جھلک سب سے پہلے آپ کے کتے‘ آپ کی بلی‘ آپ کے طوطے اور آپ کے گھوڑے کی آنکھوں میں ملے گی اور آپ دکھی‘ اداس یا افسردہ ہیں تو آپ کے پالتو جانوروں کی گردنیں فوراً لٹک جائیں گی اور ان کی آنکھوں میں حیرت اور اداسی موجیں مارنے لگے گی‘ اس کی وجہ جذبات ہیں‘ ہمارا اپنے پالتو جانوروں کے ساتھ جذبات کا تعلق ہوتا ہے چناںچہ یہ جانور ہمارے جذبات میں آنے والی ہر تبدیلی بھانپ لیتے ہیں۔
آپ کسی بھی شخص سے ملاقات سے قبل چند لمحوں کے لیے اس کے پالتو جانوروں کے پاس رک جائیں‘ وہ آپ کو اپنے مالک کی جذباتی کیفیت سے آگاہ کر دیں گے‘ ہماری اداسی اور ہمارے دکھ کا وال کلاک کے ساتھ بھی گہرا تعلق ہوتا ہے‘ ہم زندگی کے عام دنوں میں وال کلاک کی ٹک ٹک پر توجہ نہیں دیتے لیکن جونہی ہم پر غم اترتا ہے ہمیں ٹک ٹک کی آوازیں گھیر لیتی ہیں اور یہ آوازیں آہستہ آہستہ ماحول میں موجود آوازوں پر حاوی آ جاتی ہیں۔
گھڑی کی ٹک ٹک اور اداسی کا آپس میں کتنا گہرا تعلق ہے آپ اس کا اندازا فلموں سے لگا لیجیے ‘ دنیا کی تمام فلموں میں جب کردار اداس یا دکھی ہوتے ہیں تو فلم میکرز گھڑی کی ٹک ٹک سناتے ہیں اور کمرے میں بھی گھڑی کی ٹک ٹک تمام آوازوں پر بھاری تھی‘ میں کمرے میں داخل ہوا‘ کرسی کھینچی اور چپ چاپ اس کے سامنے بیٹھ گیا۔
ہم بڑی دیر تک اداسی کی بو اور وال کلاک کی ٹک ٹک میں چپ چاپ بیٹھے رہے‘ اس کی روسی بلی کبھی اس کی طرف دیکھتی تھی اور کبھی میرے پائوں چاٹنے کی کوشش کرتی تھی اور میں حیرت سے کبھی دائیں دیکھتا تھا اور کبھی بائیں۔ یہ شخص میرا دوست تھا‘ یہ ملک کا نامور تخلیق کار تھا‘ اس کی نظمیں‘ اس کے افسانے‘ اس کے کالم اور اس کے ڈرامے ملک کے لاکھوں لوگوں کی ذہنی غذا تھے‘ یہ جذبوں کو لفظ دینے کا ماہر تھا۔
لوگوں کی زبانیں جب بات کرتے کرتے تھک جاتی تھیں تو اس کے فقرے‘ اس کی تحریر آگے بڑھ کر اس کے ابلاغ کی انگلی پکڑ لیتی تھی‘ یہ انسان کے چھوٹے جذبوں اور گونگے احساسات کا ترجمان تھا‘ یہ انسان کے ٹوٹتے ارادوں کی خاموشی تک محسوس کر لیتا تھا انھیںبعدازاںآواز دے دیتا تھا لیکن پھر یہ خاموش ہوگیا۔
اس کی نظمیں‘ اس کے افسانے‘ اس کے ڈرامے اور اس کی ہدایت کاری چپ ہو گئی اور یہ گھر کے ایک کمرے تک محصور ہو کر رہ گیا‘ ڈاکٹر آتے رہے‘ ڈاکٹر جاتے رہے‘ دوائیں آتی رہیں اور خرچ ہوتی رہیں‘ بیوی بچے اپنا اپنا زور لگاکر تھک گئے لیکن اس کی اداسی‘ اس کی چپ کی برف نہ پگھلی یہاں تک کہ اس کی بیوی نے مجھے فون کیا اور میں اس کے کمرے میں اترنے پر مجبور ہو گیا۔
وہ کمرہ کمرہ نہیں تھا وہ زندہ انسان کی زندہ قبر تھی اور وہ اس قبر کے ایک کونے میں ایزی چیئر پر پڑا تھا‘ ہم بڑی دیر تک چپ بیٹھے رہے یہاں تک کہ اس نے بولنا شروع کر دیا۔ انسان کی موجودگی دنیا کی سب سے بڑی دوا ہوتی ہے‘ انسان جب بیمار کے سرہانے بیٹھ جاتا ہے تو بیمار کا حال اچھا ہونے لگتا ہے‘ یہی وجہ ہے دنیا کے تمام مذاہب نے عیادت کا حکم دے رکھا ہے۔
آپ کسی چپ مریض کے پاس بیٹھ جائیں وہ چند لمحے بعد بولنا شروع کر دے گا اور اس نے بھی یہی کیا مگر اس کی آواز صدیوں پرانی غار سے آ رہی تھی‘ مجھے اس آواز میں بند غار کی پھپھوندی کی بو تک محسوس ہو رہی تھی‘ وہ بولا ’’میں نے بیس سال انتظار کیا‘ یہ انتظار روز دروازے کی دستک بن کر میرا کواڑ بجاتا تھا‘ میں ہر ڈور بیل کو‘ اپنے کمرے کے دروازے پر ہونے والی ہر دستک کو‘ اپنے فون کے ہر ایس ایم ایس اور ہررِنگ کو اس کی آواز سمجھتا تھا اور پورے اشتیاق‘ پوری لگن سے دروازہ کھولتا تھا۔
میں ہر ایس ایم ایس کو بے تابی سے پڑھتا تھا اور ہر فون کو اس کا فون سمجھ کر اٹھاتا تھا‘ میں ہر آہٹ کو اس کے قدموں کی آواز اور ہر ہیلو کو اس کا ہیلو سمجھتا تھا‘ مجھے ہرپیلا دوپٹہ اس کا دوپٹہ‘ ہر گلابی سویٹر اس کا سویٹر‘ ہر آہستہ آہستہ پھیلنے والی خوشبو اس کی خوشبو اور ہر دوسرا‘ تیسرا چہرہ اس کا چہرہ لگتا تھا‘ میں کافی کے ہر کپ میں اس کی انگلیوں کی مٹھاس تلاش کرتا تھا اور چنار کے ہر گرتے پتے کو اس کے پائوں کی چاپ سمجھ کر چونک اٹھتا تھا۔
مجھے فائرپلیس کی ہر چٹختی چنگاری اس کی سرگوشی محسوس ہوتی تھی‘ مجھے پہاڑوں پر گرتی ہوئی برف میں اس کے سانسوں کی گرمی محسوس ہوتی تھی‘ میں ٹرین کی سیٹی اور چھک چھک میں اسے محسوس کرتا تھا‘ میں ائرپورٹس پر‘ جہاز کے اندر موجود مسافروں میں‘ ڈیوٹی فری شاپس پر اور ٹرانزٹ ہالز کے ریستورانوں میں اسے تلاش کرتا تھا‘ مجھے خطوں کے انبار میں دبے کسی ایسے خط کا انتظار تھا جو کھلے اور کھلتے ہی اس کی آمد کا پیغام دے دے۔
میں گیندے کے پھولوں کے موسم میں اسے تلاش کرتا تھا اور گلاب کی جھاڑیوں کے قریب بیٹھ کر اس کی باتیں‘ اس کے قہقہے یاد کرتا تھا‘ مجھے دیوسائی کی جھیلوں میں اس کے پائوں کا عکس نظر آتا تھا اور میں ہر سال اس کی یاد منانے کے لیے شگر‘ شنگریلا‘ پیرس اور کیپری جاتا تھا اور گھنٹوں جھیلوں‘ دریائوں اور آبشار کے پاس بیٹھا رہتا تھا‘ میں نے اس کی پسند کی ایک ایک فلم سیکڑوں بار دیکھی اور اس کی پسند کے گیت ہزاروں بار سنے۔
میرا دل کہتا تھا کوئی ایک دن اسے واپس لے کر آئے گا اور اس کی واپسی میری زندگی کے ٹوٹے ہوئے دھاگے پر دوبارہ گرہ لگا دے گی‘ زندگی کا پل دوبارہ بن جائے گا اور میرے جذبے اس پل پر چھوٹے بچوں کی طرح چھلانگیں لگائیں گے‘ ‘ وہ رکا‘ لمبی سانس لی اور دوبارہ گویا ہوا ’’میں بیس سال تک اس کا انتظار کرتا رہا‘ یہ انتظار جنون بن گیا اور مجھے اس جنون میں ٹی وی کے ہر اشتہار میں وہی نظر آتی تھی‘ انتظار تخلیق کی کھاد ہوتا ہے‘ یہ تخلیق کاروں کی تخلیق کی کھیتیاں لہلہاتا ہے۔
میری تخلیق بھی اس کے انتظار کی دین تھی ‘میرا انتظار میری کل تخلیق تھا‘ میں نے اس انتظار کی انگلی پکڑ کر سیکڑوں نظمیں‘ درجنوں افسانے‘ بیسیوں ڈرامے لکھے‘ یہ انتظار میری گفتگو کی گہرائی بھی تھا‘ یہ میری ذات‘ میری شخصیت کی کل عمارت بھی‘ میں سر سے پیر تک اور کام سے آرام تک انتظار تھا اور اس انتظار نے مجھے ائر پورٹ کی آمدورفت کا بورڈ‘ ٹرین آنے سے پہلے کی بے چینی اور چائے کی پتیلی میں ابال جیسی افراتفری بنا دیا تھا۔
میرے کان‘ میری آنکھیں‘ میرا لمس اور میرے ذائقے سب انتظار میں ڈھل چکے تھے لیکن پھر اچانک ‘‘اس نے ایک لمبی اور ٹھنڈی سانس بھری ’’لیکن پھر پچھلے مہینے یہ انتظار ختم ہو گیا‘ میری ڈوربیل بجی‘ میرے دروازے پر دستک ہوئی اور وہ میرے دروازے پر کھڑی تھی ‘ میںجس کا بیس سال سے انتظار کر رہا تھا۔
میرے دروازے پر کھڑی عورت صرف عورت نہیں تھی ‘وہ میرے انتظار کی نعش تھی‘ برائون بال سفید ہو چکے تھے‘ اس کے موتیوں جیسے دانتوں پر وقت کی بدبودار پیلاہٹ اتر چکی تھی‘ اس کی گردن کی جلد لٹک رہی تھی‘ چہرے کی سرخی بیمار زردی میں ڈھل چکی تھی‘ چال میں واضح لڑکھڑاہٹ تھی‘ اس کی باتوں کے ربط کو ختم ہوئے جیسے صدیاں گزر چکی تھیں‘ وہ بات کرتے کرتے بات کا سرا کھو بیٹھتی تھی اور پھر کئی منٹ تک لفظوں کے کاٹھ کباڑ سے پچھلی بات کا سرا تلاش کرتی رہتی تھی۔
ذات کی خوشبو اور رنگ دونوں اڑ چکے تھے‘ وہ ٹرین کے بعدا سٹیشن کا سناٹا بن چکی تھی اور میں اپنی پوری زندگی کو جس کی امانت سمجھتا رہا تھا وہ مجھ سے صرف چالیس ہزار روپے مانگنے آئی تھی‘ اس نے بچے کی فیس ادا کرنا تھی اور اس کے اس مطالبے کے ساتھ ہی میرا انتظار ختم ہو گیا اور اس انتظار کے ساتھ ہی میری تخلیقات کی روح بھی مر گئی‘ میں شاعر سے دیوالیہ پنساری بن گیا‘‘۔
اس نے لمبی آہ بھری اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا‘ اس کی بلی نے انگڑائی لی‘ گردن اوپر اٹھائی اور لمبی کڑلاہٹ بھری‘ میں نے زندگی میں پہلی بار کسی بلی کو انسان کی طرح کرلاتے دیکھا تھا۔
Source: Express News
Must Read Urdu column Aik intezar ki Mout By Javed Chaudhry