کس کو دیکھ کر مسلمان ہو جاؤں؟ – جاوید چوہدری

Javed Chaudhry

میں نے اپنے گورے کولیگ سے کہا ’’تم مسلمان کیوں نہیں ہو جاتے؟‘‘ اس نے مسکرا کر جواب دیا ’’تم مجھے کوئی اچھی سی ریزن دے دو میں اسلام قبول کر لوں گا‘‘ میں نے اسے اسلام کی حقانیت اور نبی اکرمؐ کی زندگی کے بے شمار واقعات سنائے‘ میں نے ان لوگوں کا حوالہ بھی دیا جو عیسائیت‘ یہودیت‘ بودھ ازم اور ہندومت چھوڑ کر مسلمان ہوئے تھے۔

میں نے اسے یہ بھی بتایا تم مسلمان ہونے کے بعد جنت میں جاؤ گے‘‘ وہ بڑی توجہ سے میری بات سنتا رہا‘ میں خاموش ہوا تو اس نے ہنس کر کہا ’’ہماری کمپنی میں دو درجن مسلمان ہیں‘ تم مجھے کسی ایک کا حوالہ دو جس کو دیکھ کر میں مسلمان ہو جاؤں‘‘ میں حیرت سے اس کی طرف دیکھنے لگا‘ وہ بولا ’’تم مسلمان اگر مل کر بھی اخلاقی لحاظ سے ہمارے کسی یورپی ساتھی کا مقابلہ کر لو تو میں مسلمان ہو جاؤں گا۔‘‘ وہ رکا اور اس کے بعد مجھ سے پوچھا ’’کیا تم لوگ حلال کھاتے ہو؟‘‘ میں نے سینے پر ہاتھ رکھ کر جواب دیا ’’الحمد للہ مسلمان حرام نہیں کھاتے‘‘ اس نے قہقہہ لگایا اور بولا ’’تمہاری بات چکن کی حد تک درست ہے لیکن جہاں تک کام سے محبت‘ کمپنی کے ساتھ وفاداری اور اعمال کا تعلق ہے میں نے تم میں سے کسی کو حلال کھاتے نہیں دیکھا‘ دفتر آنے کا وقت نو بجے اور چھٹی کا وقت پانچ بجے ہے لیکن تم لوگ ہمیشہ پانچ دس منٹ لیٹ آتے ہو اور جلدی نکل جاتے ہو جب کہ میں روزانہ پونے نو بجے دفتر پہنچتا ہوں‘ اپنا سامان ڈیسک پرسیٹ کرتا ہوں‘ کوٹ اتار کر لٹکاتا ہوں‘ لیپ ٹاپ آن کرتا ہوں اور ٹھیک نو بجے کام اسٹارٹ کر دیتا ہوں‘ میں شام ساڑھے پانچ بجے دفتر سے نکلتا ہوں‘ آدھ گھنٹہ اپنی چیزیں سمیٹتا ہوں‘ میز اور ڈیسک صاف کرتا ہوں‘ کرسیاں سیدھی کرتا ہوں‘ پردے سیدھے کرتا ہوں‘ لائٹس آف کرتا ہوں‘ درازیں لاک کرتا ہوں اور پھر دفتر سے نکلتا ہوں جب کہ تم لوگ چار بجے کام بند کر دیتے ہو اور گھنٹہ ٹہل ٹہل کر گزارتے ہو اور ڈیسک صاف کیے بغیر اور اپنی چیزیں سمیٹے بغیر نکل جاتے ہو‘ ہم یورپی لوگ اپنا باتھ روم خود صاف کرتے ہیں۔ کموڈتک صاف کر کے باہر نکلتے ہیں‘ دفتر کی لائٹس بند کرتے ہیں‘ پودوں کو پانی دیتے ہیں‘ اپنی پلیٹیں اٹھا کر ریک میں رکھتے ہیں جب کہ تم لوگ جھوٹے برتن میز پر چھوڑ جاتے ہو‘ فلش تک نہیں کرتے اور اگر کر جاؤ تو فرش گیلا کر دیتے ہو‘ سنک میں پاؤں دھوتے ہو اور پورے واش روم کا فرش گیلا کردیتے ہو؟ میں نے آپ میں سے کسی شخص کو لائٹس بند کرتے نہیں دیکھا‘ آپ کے لوگوں کے ڈیسک پر میس ہوتا ہے‘ کوئی چیز ترتیب سے نہیں ہوتی۔

آپ لوگوں کے لباس پر بھی سلوٹیں ہوتی ہیں اور ہاتھ بھی گیلے ہوتے ہیں‘ آپ لوگ دوسروں کی طرف دیکھ کر مسکرانا بھی جرم سمجھتے ہیں‘ کام لٹکانا آپ لوگوں کی عادت ہے اور کام کے دوران گپ لگانا آپ لوگوں کا مشغلہ ہے‘ آپ لوگ کھانا بھی نہایت بدتمیزی سے کھاتے ہیں‘ منہ سے چپ چپ کی آوازیں نکلتی ہیں اور چائے بھی شڑپ شڑپ کر کے پیتے ہیں۔

ہم یورپی لوگ کسی کی پیٹھ پیچھے بات نہیں کرتے جب کہ آپ لوگ سارا سارا دن دوسروں کے نقص نکالتے رہتے ہیں‘ ہم خوراک اور ادویات میں ملاوٹ نہیں کرتے‘ آپ یورپ کی کسی بھی جگہ سے کھانے کی چیز خرید لیں وہ خالص ہو گی اور ڈبے میں وہی کچھ ہو گا جو اس کے باہر لکھا ہے۔

ہم لوگ ایکسپائری ڈیٹ کے بعد خوراک کی کوئی چیز فروخت نہیں کرتے‘ یورپ اور امریکا میں ادویات میں ملاوٹ یا جعلی ہونے کا تصور بھی نہیں لیکن آپ کے معاشروں میں صدر ہو یا وزیراعظم اسے خالص خوراک اور اصلی ادویات نہیں ملتیں۔‘‘

وہ رکا اور پھر بولا ’’ میں نے تم لوگوں کو کبھی پڑھتے ہوئے بھی نہیں دیکھا‘ تم لوگ روز مٹھائی اور چاکلیٹ خریدتے ہو لیکن میں نے تمہیں کبھی کتاب خریدتے نہیں دیکھا‘ کتاب اور علم سے یہ دوری میرے لیے حیران کن ہے‘ ہم مرغی ہو یا گائے مذبح خانے میں ذبح کرتے ہیں۔

شہریوں کو اس کا خون نظر آتا ہے اور نہ ہی اوجڑی جب کہ تم لوگ روز گلیوں اور بازاروں میں جانور ذبح کرتے ہو اور اسے نالیوں میں تڑپنے کے لیے چھوڑ دیتے ہو اور آخر میں اس کی آلائشیں چوکوں اور گلیوں میں پھینک دیتے ہو اور انھیں کتے‘ کوے اور چیلیں بھنبھوڑتے رہتے ہیں۔

تم تنور پر چلے جاؤ یا قصاب کی دکان پر وہاں مکھیاں اور کاکروچ تمہارا استقبال کریں گے‘ تم اپنے مولوی حضرات کو دیکھ لو‘ ان کا لباس گندا‘ حلیہ بے پروا اور پیٹ حدیں کراس کرتا نظر آئے گا‘ سوال یہ ہے جو شخص اپنے چھ فٹ کے قد پر اسلام نافذ نہیں کر سکا اس سے مجھے کتنا ایمان مل جائے گا اور آخری بات کیا تمہارے معاشروں میں عورتیں‘ بچے اور جانور محفوظ ہیں؟ کسی مسلمان ملک میں دس فیصد خواتین بھی بے خوف ہو کر گھر سے نہیں نکل سکتیں۔

تم لوگ بچوں پر بھی تشدد کرتے ہو اور جانوروں کو پتھر یا ڈنڈا مارنا بھی اپنا فرض سمجھتے ہو تو پھر تم بتاؤ میں تم میں سے کس کو دیکھ کر اسلام قبول کروں؟ اسلام بے شک عظیم اور شان دار مذہب ہے لیکن تم مسلمان کسی بھی زاویے سے اچھے دکھائی نہیں دیتے‘ دنیا کی ہر بیماری‘ ہر برائی تم لوگوں میں کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔

لہٰذا پھر میرے جیسے لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں وہ مذہب جو آج تک اپنے ماننے والوں کو نہیں بدل سکا وہ مجھے کہاں تک بدلے گا؟ دوسرا میں اگر مسلمان ہو بھی جاؤں تو میں کروں گا کیا؟ کیا میں بآواز بلند ڈکار مارنے کے لیے اسلام قبول کروں یا عورتوں کو گھورنے اور چالیس انچ کی کمر کے لیے مسلمان ہوں‘ تم مجھے کوئی ریزن دے دو میں ابھی کلمہ پڑھ لیتا ہوں‘‘ وہ خاموش ہو گیا اور میرا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔

شیخ فرید صاحب رکے اور پھر لمبی سانس لے کر بولے ’’میں اس گورے کی باتوں پر آج تک شرمندہ ہوں اور میں نے اس کے بعد کسی غیر مسلم کو تبلیغ نہیں کی‘ میں یہ بھی مانتا ہوں میں 84 سال کی عمر میں بھی خود کو مکمل مسلمان نہیں بنا سکا‘ میں اسلام کے معیار پر پورا نہیں اتر سکا‘‘ میں بھی شیخ فرید صاحب کی باتیں سن کر بڑی دیر تک انھیں حیرت سے دیکھتا رہا‘ شیخ فرید صاحب کا تعلق مانسہرہ سے ہے اور یہ سکردو کے ٹور پر ہمارے ساتھ تھے۔

ان کی عمر 84 سال ہے‘ ان کی زندگی کا بڑا حصہ سعودی عرب اور امریکا میں گزرا‘ بائی پروفیشن انجینئر ہیں‘ پٹرولیم کی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی میں کام کرتے رہے اور ریٹائرمنٹ کے بعد مانسہرہ آ گئے‘ چھڑی کے ساتھ چلتے پھرتے ہیں مگر ان کی باتوں میں وزڈم اور تجربہ ہے‘ دوسروں سے محبت کرتے ہیں اور خوش رہنے اور خوش رکھنے کی کوشش کرتے ہیں‘ میرے بیٹے شماعیل کو بزرگ اچھے لگتے ہیں۔

اس کی اپنے دادا (میرے والد) کے ساتھ بھی بہت دوستی تھی‘ یہ انھیں بہت یاد کرتا ہے لہٰذا یہ اپنے ہر ٹور میں بزرگ خواتین اور مردوں کو ضرور شامل کرتا ہے اور دل و جان سے ان کی خدمت کرتا ہے‘ بزرگ بھی اسے دل کھول کر دعائیں دیتے ہیں‘ یہ اس سفر کے دوران بھی شیخ فرید کو ساتھ ساتھ لے کر چل رہا تھا اور شیخ صاحب اسے ہر قدم پر دعائیں دے رہے تھے۔

مجھے شماعیل نے ان کے وزڈم کے بارے میں بتایا اور پھر میں نے ان کی باتوں کو انجوائے کرنا شروع کر دیا‘ اب سوال یہ ہے اس گورے نے کون سی بات غلط کی تھی‘ کیا ہم مسلمان ایسے نہیں ہیں؟ دنیا میں ہر سال صفائی پسند‘ پرسکون اور پرامن ملکوں کی فہرست شایع ہوتی ہے۔

خوش رہنے‘ کام کرنے اور سستے ترین ملکوں‘ تعلیم‘ انسانی حقوق‘ انصاف‘ ماحولیاتی نفاست‘ پینے کے صاف پانی‘ خالص خوراک اور کام یابی کے برابر مواقع پر بھی ڈیٹا شایع ہوتا ہے اور تمام غیر مسلم ملک ان شعبوں میں ایک دوسرے کا مقابلہ کرتے نظر آتے ہیں مگر میں نے کبھی اسلامی ملکوں کو اس فہرست میں نہیں دیکھا‘ تعلیم ہو‘ صحت ہو‘ صفائی ہو‘ انصاف ہو‘ انسانی حقوق ہوں‘ رواداری یا بھائی چارہ ہو۔

خدمت یا اخلاقیات کے شعبے ہوں یا پھر کتب بینی اور ہنرمندی ہو اس میں کبھی سعودی عرب یا پاکستان کا نام نہیں آیا‘ ہم پورا عالم اسلام سال میں جتنا کاغذ استعمال کرتے ہیں اتنے کاغذ امریکا کا ایک شہر بوسٹن ریسرچ پیپر میں استعمال کر دیتا ہے‘ کتاب خواہ اسلام کے بارے میں ہی کیوں نہ ہو لیکن اس کے سب سے زیادہ خریدار امریکا اور یورپ میں ہوتے ہیں‘ قرآن مجید اور احادیث پر بھی سب سے زیادہ ریسرچ یورپ میں ہو رہی ہے۔

خانہ کعبہ کے فرش کا ماربل بھی یورپ سے امپورٹ ہوتا ہے اور اسے اٹلی کی کمپنیاں کاٹتی اور پالش کرتی ہیں اور یہی اسے فرش پر لگواتی ہیں‘ عالم اسلام کی تمام مساجد میں اذان اور تلاوت بھی یہودی کمپنیوں کے ساؤنڈ سسٹم سے نشر ہوتی ہے اور ہم سب لوگ ادویات بھی ان کی استعمال کرتے ہیں لہٰذا پھر سوال یہ ہے اقوام عالم کی گلیوں میں اسلام اور مسلمان کہاں ہیں؟ ہمارا کنٹری بیوشن کیا اور کہاں ہے۔

دنیا جہاں کی برائیاں‘ خامیاں‘ کم زوریاں اور آزمائشیں صرف ہمارے کھاتے میں کیوں درج ہیں؟ وہ قوم جو اپنے مسلمان بھائیوں کو اسلام کے نام پر قتل کر دیتی ہو اور مسجد پر حملہ کر کے دو دو سو نمازیوں کو شہید کر دیتی ہو کیا وہ اسلام جیسے عظیم مذہب کو ڈیزرو کرتی ہے؟ ہم مسلمانوں کی زندگی میں بھی اسلام کہاں ہے؟ آپ نے اگر اس سوال کا جواب تلاش کرنا ہو تو آپ آج اور کل پاکستان کی گلیاں دیکھ لیجیے گا۔

آپ کو جگہ جگہ قربانی کے جانوروں کی آلائشیں ملیں گی اور آپ پھر خود سے سوال کیجیے گا جو قوم آج تک قربانی بھی صفائی اور سلیقے کے ساتھ نہیں کر سکی کیا اسے دوسروں کو تبلیغ کرنے کا حق حاصل ہے؟

Source: Express News

Must Read Urdu column Kis ko Dekh ker Musalman ho jaon By Javed Chaudhry

Leave A Reply

Your email address will not be published.