سلمان شہباز ایک کیس سٹڈی – انصار عباسی

Ansar Abbasi

سوال پوچھا جا رہا ہے کہ کیا واقعی انتخابات اکتوبر نومبر میں ہوں گے؟

اس سوال کا جواب ایک اور سوال سے منسلک ہے کہ کیا عمران خان کے مائنس ہونے اور نواز شریف کے عملی سیاست میں واپسی کے عمل کے مکمل ہونے تک الیکشن ممکن ہیں؟

کسی کے مائنس ہونے اور کسی کے پلس ہونے کا یہ سلسلہ پرانا ہے جو رکنے کا نام نہیں لیتا، جس میں اگر اسٹیبلشمنٹ کا ہمیشہ کلیدی کردار رہا تو سیاستدانوں نے بھی کبھی اس سلسلہ کو روکنے کی کوشش نہیں کی بلکہ الٹا ایسا کردار ادا کیا کہ اسٹیبلشمنٹ کے اس کردار کو مضبوط ہی کیا جائے۔

سویلین بالادستی کا نعرہ سیاستدانوں کی طرف سے صرف اُسی وقت لگایا جاتا ہے جب سیاسی طور پر اُنہیں اپنے لئے اس میں فائدہ نظر آتا ہے۔ جب اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلق سے اُنہیں اپنے اقتدار میں آنے کی امید ہوتی ہے تو پھر وہ سیاسی بالادستی کے اس نعرے کو بھلا کر اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر بیٹھ کر حکومت میں آنے کیلئے ہر جائز ناجائز کام کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔

اقتدار کی اس جنگ میں ایک دوسرے کو مائنس کرنے کا یہ کھیل جاری رہتا ہے۔ بظاہر اس جنگ میں ایک سیاستدان جیت رہا ہوتا ہے اور دوسرا سیاستدان ہار رہا ہوتا ہے لیکن اصل میں شکست سیاست کی ہی ہو رہی ہوتی ہے اور اسٹیبلشمنٹ طاقت ور ہی رہتی ہے، جو دراصل کسی ایک کو مائنس اور کسی دوسرے کو پلس کرنے کا فیصلہ کرتی ہے۔

آج جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں یہی کچھ ماضی میں ہوا۔ آج جس بات پر عمران خان کو بہت اعتراض ہے چند سال پہلے وہ اُسی کھیل کا حصہ تھے۔ کل عمران خان نواز شریف کے مائنس ہونے پر خوش تھے، آج پوری پی ڈی ایم، ن لیگ بشمول نواز شریف، عمران خان کے مائنس ہونے پر خوش ہیں۔ کل جن حالات کا ن لیگ کو سامنا تھا آج ویسے ہی حالات کا تحریک انصاف کو سامناہے۔ 9مئی کے واقعات کی وجہ سے تحریک انصاف کیلئے صورتحال زیادہ خراب نظر آتی ہے لیکن اس کی اصل ذمہ داری عمران خان اور پی ٹی آئی پر ہی آتی ہے۔

سول اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان طاقت کی جنگ کبھی سول کے حق میں نہیں ہوئی اور اُس کی بڑی وجہ یہ رہی کہ سول حکومتوں نے کبھی پرفارمنس اور کارکردگی پر توجہ نہیں دی، ادارے بنانے میں دلچسپی نہ دکھائی، گورننس عدم توجہی کا شکار رہی، معیشت بھی عدم استحکام کا ہی شکار رہی۔

اگر سول حکومتوں کا کہیں زور رہا تو وہ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے پر، جس کا نقصان ہمیشہ سیاستدانوں کو ہی ہوا، وہ ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہوتے رہے۔

اگر میاں نواز شریف نے 2017 میں اپنے اقتدار کے خاتمے (جس میں عمران خان کا اہم کردار تھا) پر’’ ووٹ کو عزت دو ‘‘ کا نعرہ لگایا تو تین بار اس ملک کا وزیر اعظم بننے والے میاں صاحب نے جنرل باجوہ کی ایکسٹینشن کی حمایت کر کے اُسی نعرہ کی نفی کردی۔

عمران خان اپنے پورے دورِ اقتدار میں آرمی چیف کے گن گاتے رہے اور اپنے سیاسی مخالفوں کو چور ڈاکو کہتے رہے، اُنہیں جیلوں میں ڈالتے رہے اور اہم سے اہم ملکی مفاد کے معاملہ پر بھی اپوزیشن سے ہاتھ ملانے اور اُس کے ساتھ بیٹھنے کیلئے ایک بار بھی تیار نہ ہوے۔

عمران خان کی حکومت ختم ہوئی تو ن لیگ اور پی ڈی ایم کے وارے نیارے ہو گئے اور پھر جو پہلے اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر نالاں تھے وہ اسٹیبلشمنٹ کے گن گانے لگے اور جو اسٹیبلشمنٹ کے کاندھے پر بیٹھ کراقتدار میں آئے تھے اپنے اقتدار کے خاتمے پر اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ہوگئے۔

اس دوران عمران خان سے دو بڑی غلطیاں ہوئیں۔ ایک تو یہ کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بولتے رہے، اُس پر ہر قسم کا الزام بھی لگاتے رہے، یہاں تک کہ فوج کو بھی ٹارگٹ کرتے رہے لیکن اس سب کا مقصد سولین بالادستی نہیں بلکہ محض یہ تھا کہ اسٹیبلشمنٹ عمران خان کو دوبارہ قبول کر لے اور اُن کے مخالفوں کو پہلے کی طرح حکومت سے نکالے تاکہ وہ دوبارہ اقتدار میں آ جائیں۔

9 مئی کو عمران خان اور تحریک انصاف نے دوسری غلطی کر دی جو اس قدر سنگین تھی کہ جس کے بارے میں فوج نے ہر فورم پر یہ کہا کہ ایسا تو پاکستان کا بدترین بیرونی دشمن سات دہائیوں میں نہ کر سکا جو تحریک انصاف نے9 مئی کو کردیا۔

اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی سیاستدان اور سول حکومتیں صرف پرفارمنس، بہترین طرز حکمرانی، مضبوط معیشت، اصلاحات اور اداروں کو مضبوط کرکےہی جیت سکتی ہیں، اُس لڑائی کو جو رخ 9 مئی کو دیا گیا اُس نے عمران خان کی سیاست کو تو تباہ کیا ہی ہے سویلین بالادستی کے خواب کو بھی مزید دھندلا کر دیا ہے ۔

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)وزیر اعظم شہباز شریف کے صاحب زادے سلیمان شہباز منی لانڈرنگ کیس میں بھی باعزت بری ہو گئے۔ جب حکومت اپنی ہو، وزیر اعظم گھر کا ہو تو مقدمات ایسے ہی ختم ہوتے ہیں۔ پاکستان کی سیاست کا یہی رجحان ہے۔ ہر آنے والی حکومت اپنے سیاسی رہنمائوں اور اُنکی آل اولاد کے کرپشن کیس ایک ایک کر کے ختم کرواتی ہے جبکہ اپنے مخالفین کے خلاف جھوٹے سچے کیس بنوا بنوا کر اُنہیں جیلوں میں ڈلواتی یا عدالتوں کے چکر لگواتی رہتی ہے ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ متعلقہ ادارے مثلاً نیب، پولیس، ایف آئی اے یا صوبائی اینٹی کرپشن کے محکمے سب استعمال ہوتے ہیں جبکہ عمومی طور پر عدلیہ بھی موسم کا حال دیکھ کر انصاف کرتی ہے۔ موسم اچھا ہو، ملزمان حکومت میں ہوں یا اقتدار میں لانےکیلئے اُن کی تیاری کی جا رہی ہو تو پھر کتنا ہی بڑا کیس کیوں نہ ہو ملزم باعزت بری ہونا شروع ہو جاتے ہیں، اُنہیں ضمانتیں ملنا شروع ہو جاتی ہیں۔ موسم ابرآلود ہو تو عدالتیں بھی نظریں پھیر لیتی ہیں، نہ ضمانتیں ملتی ہیں، نہ کیس ہی سنا جاتا ہے۔ متعلقہ محکمے جب کیس بنانے کی ڈیوٹی پر فائز ہوتے ہیں تو کروڑوں اربوں کے کیس دنوں میں بنا کر نشانے پر رکھے سیاستدانوں اور اُن کے عزیزواقارب پر ٹوٹ پڑتے ہیں، اُنہیں جیلوں میں ڈال کر میڈیا میں اُن کی کرپشن کی کہانیاں عوام کو سناتے بلکہ رٹواتے ہیں۔ جب حکومت تبدیل ہوتی ہے اور ملزمان اور اُن کی پارٹی حکومت میں آ جاتی ہے تو پھر یہی ادارے یوٹرن لیتے ہیں، کہنے لگتے ہیں کہ ثبوت ہی موجود نہیں، پچھلوںکے دباو کا بہانہ تراش کر اپنے ہاتھ جھاڑ کر کل کے ملزموں کو باعزت بری کرواتے ہیں اور آج کے حکمرانوں کے حکم پر پچھلوں کے خلاف کیس بنانے کا دھندا شروع کر دیتے ہیں۔ کیس جعلی بھی بنتے ہیں اور کیس ٹھوس ثبوت والے بھی ہوتے ہیں لیکن اختتام سب کا ایک جیسا ہی ہوتا ہے یعنی جو پارٹی حکومت میں آئے گی اُس سے منسلک افراد کے کیس ختم ہو جائیں گے۔ اس سارے گھنائونے کھیل میں عدالتوں کا کردار بہت افسوس ناک ہے۔ عدالتیں انصاف دیں تو جھوٹے کیسوں کو بننا نہیں چاہئے اور ٹھوس کرپشن کیسوں کو ختم نہیں ہونا چاہئے۔ انصاف ہو تو ہر کیس کے اختتام پر اس بات کا فیصلہ ہونا چاہئے کہ آیا یہ کیس جھوٹ پر مبنی تھا یا ملاپ اور فرینڈلی پروسیکیوشن کی وجہ سے ختم ہو رہا ہے۔ اسی بنیاد پر متعلقہ ادارے کے ایک ایک افسر جس نے جھوٹا کیس بنانے یا ٹھوس کیس ختم کروانے میں کردار ادا کیا اُن کے خلاف ایکشن ہونا چاہئے، اُنہیں نوکریوں سے نکالنا چاہئے۔ عدالتوں اور ججوں کے کردار اور اُن کے فیصلوں کو جانچنے کیلئے بھی عدلیہ کو خود ایک ایسا نظام بنانا چاہئے کہ فیصلوں میں کوئی دو نمبری نہ ہو۔ انصاف کے نام پر ناانصافی کرنے والے ججوںکو عدلیہ میں رہنے کا حق نہیں دیا جانا چاہئے۔ سلیمان شہباز کے خلاف جب منی لانڈرنگ کا کیس بنایا گیا تو ثبوتوں کے انبار ایف آئی اے نے میڈیا کے سامنے رکھ دیے۔ سلیمان شہباز ملک چھوڑ کر چلے گئے، عدالتوں نے اُنہیں مفرور قرار دیا، چالان جب پیش کیا گیا تو اُس پر بھی کوئی شکایت نہ کی۔ لیکن جب شہباز شریف واپس آئے، وزیر اعظم بنے تو پہلے تو اُن کے خلاف ایک ایک کر کے کیس ختم ہونا شروع ہوئے اور پھر سلیمان شہباز کی واپسی ہوئی اور اُن کیلئے بھی باعزت بری ہونے کا سلسلہ شروع ہوا اور اب وہ تمام الزامات سے پاک صاف کر دیے گئے ہیں۔ ہمارا احتساب کا نظام ، ہمارے ادارے چاہے نیب ہو، ایف آئی اے یا صوبائی اینٹی کرپشن کا محکمہ سب اشاروں پر چلتے ہیں، کچھ سنوارنے کی بجائے بگاڑنے کا کام کرتے ہیں۔ نظام عدل بھی گل سڑ چکا اور کسی بھی قسم کا انصاف دینے سے قاصر ہے بلکہ سچ پوچھیں تویہ مجرموں اور ظالموں کی ڈھال بن چکا ہے۔ یہ نظام عدل ہو یا نظام احتساب ان سب کو ایک بڑی سرجری کی ضرورت ہے ورنہ احتساب کے نام پرایک ایسا گھنائونا کھیل ،جس میں جھوٹا کیس بنانا اور ٹھوس کیس کو ختم کروانا معمول ہو،جاری رہے گا۔ اس نظام کےگھنائونے چہرے کو بے نقاب کرنے کیلئے سلیمان شہباز کیس کو کیس سٹیڈی کے طور پر لیا جانا چاہئے۔ ایک ایسا کمیشن بنایا جائے جس میںاہل اور بہترین شہرت کے افراد شامل ہوں جو اس کیس کے بننے اور اس کے خاتمہ تک متعلقہ محکموں اور عدلیہ کے کردار کو دیکھیں تاکہ نظام میں موجود اصل خرابیوں کی نشاندہی ہو سکے۔

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اورواٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

Source: Jung News

Read Urdu column Salman Shahbaz Aik Case Study By Ansar Abbasi

Leave A Reply

Your email address will not be published.