جنریشن گیپ – جاوید چوہدری
ہم چار نسلیں ایک گھر میں رہ رہی ہیں‘ میری والدہ ان کی عمر 76 برس ہے‘ یہ میرے ساتھ رہتی ہیں‘ دوسری نسل‘ میں اور میری بیوی ہے‘ ہم پچاس سال سے اوپر ہیں‘تیسری نسل میرے بیٹے اور بیٹیاں ہیں‘ بیٹوں کی عمریں 28 اور 25 سال ہیں اور ہماری چوتھی نسل میرے بیٹے کی بیٹی ہے‘ یہ بہت چھوٹی ہے اور یہ سارا دن پرام میں لیٹی رہتی ہے۔
میں نے ایک دن بیٹھے بیٹھے محسوس کیا ہم سب صرف لوگ نہیں ہیں‘ ہم مختلف نفسیات ہیں اور ہمارے تقاضے بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں‘ مثلاً میری والدہ ہر وقت مجھے تلاش کرتی رہتی ہیں‘ یہ بہانے بہانے سے مجھے اپنے پاس بلاتی ہیں اور ان کی کوشش ہوتی ہے میں ان کے پاس دیر تک بیٹھا رہوں‘ یہ جان بوجھ کر لمبی گفتگو شروع کر دیں گی‘ اپنی بیماریوں اور دوائیوں کا ذکر چھیڑ دیں گی‘ میرے بچپن کی داستان شروع کر دیں گی۔
اپنے والدین کے واقعات سنائیں گی اور مجھے لوگوں کے نام لکھوائیں گی اور یہ کہیں گی تم نے ان کو اتنے اتنے پیسے بھجوانے ہیں اورپھر مجھ سے بار بار فہرست کے نام اور رقمیں سنیں گی اور رقموں میں تبدیلی کرائیں گی‘ میں جب آخر میں نکلنے لگوں گا تو یہ مجھ سے کہیں گی تم مجھے مل تو لو اور یہ پھر اس کے بعد اپنے بیڈ سے اٹھیں گی‘ سہارا لے کر کھڑی ہوں گی اور مجھے گلے سے لگا کر ڈھیروں دعائیں دیں گی۔
مجھے روز محسوس ہوتا ہے یہ مجھے آج بھی تین چار سال کا بچہ سمجھتی ہیں‘ یہ جس طرح میرے بچپن میں میرے کھانے پینے‘ کپڑوں اور گرمی سردی کا خیال کرتی تھیں یہ آج بھی میرے بارے میں اتنی ہی پریشان رہتی ہیں‘ میں گرمی میں باہر نکلنے لگوں تو یہ روک دیتی ہیں اور سردی کا موسم ہو تو یہ سویٹر‘ کوٹ اور جیکٹ کے بغیر مجھے باہر نہیں جانے دیتیں‘ میں انھیں ہر بار بتاتا ہوں میں بچہ نہیں ہوں‘ میں بچوں والا ہوں لیکن یہ اس کے باوجود مجھے آج بھی بڑا‘ جوان یا میچور ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں‘ ماں اور بیٹے کے اس رشتے کی نفسیات کے دو پہلو ہیں‘ میری والدہ مجھے میچور ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں‘ دوسرا انھیں مجھ سے زیادہ سے زیادہ وقت چاہیے۔
ان کی خواہش ہے میں اپنا زیادہ سے زیادہ وقت ان کے ساتھ گزاروں‘ ان کی باتیں سنوں اور اپنے سارے دکھ صرف اور صرف انھیں سنائوں جب کہ مجھے ان کی داستانوں میں زیادہ انٹرسٹ نہیں ہوتا‘ شاید اس کی وجہ ’’ریپی ٹیشن‘‘ ہے‘ میں یہ کہانیاں‘ یہ داستانیں بچپن سے سن رہا ہوں اور یہ مجھے اب ازبر ہو چکی ہیں چناں چہ میں درمیان میں انٹرسٹ لوز کر بیٹھتا ہوں اور صرف ان کا دل رکھنے کے لیے ہاں جی امی جی کہتا رہتا ہوں اور اس دوران میرا سارا دھیان اپنے بچوں کی طرف رہتا ہے‘ میں ان کے بارے میں سوچتا رہتاہوں۔
میرا بچوں بالخصوص بیٹوں کے بارے میں رویہ مختلف تھا‘ میں نے انھیں 13 سال کی عمر میں کام پر لگا دیا تھا‘ یہ تعلیم کے ساتھ ساتھ کام کرتے رہے‘ اس ماڈل کے چند فائدے بھی ہوئے اور چند نقصان بھی‘ نقصان یہ ہوا یہ اپنے بچپن کو انجوائے نہیں کر سکے‘ یہ بہت جلد میچور ہو گئے تھے چناں چہ آج ان کے دوست نہ ہونے کے برابر ہیں‘ یہ وقت سے پہلے سیریس بھی ہو گئے ہیں‘ فائدے یہ ہوئے یہ بہت جلد انڈی پینڈنٹ ہو گئے اور خوش حال اور ماشاء اللہ تجربہ کار بھی‘ انھیں کاروبار کرنے‘ کمپنیاں بنانے‘ ٹیکس سسٹم اور مارکیٹ کا علم بھی ہو گیا۔
آج صورت حال یہ ہے ان کے کلاس فیلوز اور ٹیچرز ان کے ساتھ کام کرتے ہیں مگر اس کے باوجود میں انھیں انڈی پینڈنٹ اور میچور ماننے کے لیے تیار نہیں ہوں‘ میں آج بھی انھیں چار پانچ سال کا بچہ سمجھتا ہوں اور سڑک کے کنارے پہنچ کر بے اختیار ان کا ہاتھ پکڑ لیتا ہوں‘ یہ جب بھی گھر سے نکلنے لگتے ہیں تو میں انھیں گرمیوں میں سر پر ٹوپی رکھنے اور سردیوں میں جیکٹ پہننے کا مشورہ دیتا ہوں اور یہ اگر میری بات نہ مانیں تو میں ان سے ناراض ہو جاتا ہوں۔
میں موقع تخلیق کر کے ان سے ملتا بھی رہتا ہوں‘ بہانے بہانے سے ان کے پاس جاتا ہوں‘ انھیں بلاتا رہتا ہوں اور بالکل اپنی والدہ کی طرح میری کوشش ہوتی ہے یہ زیادہ سے زیادہ وقت میرے پاس رہیں اور یہ میری فضول باتیں اور لایعنی کہانیاں سنتے رہیں‘یہ میرے ہر پرانے لیکچر پر سر ہلائیں اور اسے پلے بھی باندھ لیں مگر یہ دائیں بائیں سے نکل بھاگنا چاہتے ہیں۔
ان کے دفتر میں لوگ بیٹھے ہوتے ہیں‘ ان کی میٹنگز ہوتی ہیں‘ انھوں نے دوسرے دفتروں اور بینکوں میں خوار ہونا ہوتا ہے اور ان کے کلائنٹس ان کا آن لائین انتظار کر رہے ہوتے ہیں جب کہ میں خود اس سسٹم کا حصہ ہوتے ہوئے اسے ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتا‘ میرے اندر پروان چڑھتا ہوا باپ کا جذبہ ان تلخ حقیقتوں کو ماننے سے انکاری ہو جاتا ہے‘ یہ انھیں میچور بھی نہیں مانتا اور یہ ان کے ساتھ زیاہ سے زیادہ وقت بھی گزارنا چاہتا ہے‘ یہاں بھی میں دو نفسیاتی عارضوں کا شکار ہوں۔
میں اپنے بچوں کے معاملے میں والدہ کی طرح ’’بی ہیو‘‘ کرتا ہوں اور دو‘ میں جانتے بوجھتے ہوئے بھی اپنے بچوں کو ان کی وہ سپیس نہیں دیتا جس کے یہ حق دار ہیں‘ میرا دماغ اس حقیقت کو سمجھتا ہے لیکن میرا دل ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتا اور یہ کیفیت وقت کے ساتھ ساتھ کم ہونے کے بجائے بڑھتی چلی جا رہی ہے۔
یہ دوسرا سیناریو ہے اور اس سیناریو میں چند ہفتے قبل ایک اور تبدیلی آ گئی‘ میرے بیٹے کو اللہ تعالیٰ نے بیٹی کی نعمت سے نواز دیا اور یہ ایک ہی رات میں میرے اور میری والدہ جیسا ہو گیا‘ یہ اب ہمیں چکر دے کر زیادہ سے زیادہ وقت اپنی بیٹی کے ساتھ گزارتا ہے‘ اسے اس کی سردی اور گرمی کا احساس تڑپاتا رہتا ہے‘ یہ گرمی کے موسم میں اس کے لیے سردیوں کے کپڑے خرید رہا ہے‘ بچی ابھی پرام سے باہر نہیں آئی‘ یہ اٹھ نہیں سکتی‘ کروٹ بھی نہیں لے سکتی لیکن یہ اس کے لیے دوڑنے‘ بھاگنے اور کھیلنے کودنے کی اشیاء تلاش کر رہا ہے اور میں اور میری والدہ دونوں اس کی ان بچگانہ حرکتوں پر ہنستے رہتے ہیں۔
میں جب بھی یہ سوچتا ہوں یہ بچی جب بڑی ہو گی‘ یہ اپنی مصروفیات میں الجھ جائے گی اور اس کے پاس اپنے والدین کے لیے وقت نہیں ہو گا تو اس وقت میرے بیٹے اور بہو کی کیا جذباتی کیفیت ہو گی؟ یہ کیا محسوس کریں گے‘ یقینا یہ بھی میری اور میری والدہ کی طرح محسوس کریں گے‘ یہ بھی اپنی داستانوں اور کہانیوں کی پوٹلیاں اٹھا اٹھا کر اس کے پیچھے بھاگتے رہیں گے اور بچی انھیں اگنور کر کے اپنی اسائن منٹس‘ اپنے موبائل فون کا سیاپا کرتی رہے گی۔
مجھے یہ بھی محسوس ہورہا ہے انسان کی وقت کے ساتھ ساتھ اپنے والدین سے زیادہ اپنے بچوں میں دل چسپی بڑھ جاتی ہے اور بچے بعدازاں والدین کے ساتھ وہی سلوک کرتے ہیں جو ہم اب اپنے والدین کے ساتھ کر رہے ہیں‘ وقت نے والدین کو بھی نہیں بدلا اور یہ بچوں کو بھی نہیں بدل رہا‘ مجھے مدت پہلے ہمارے بزرگ دوست پروفیسر غنی جاوید نے کہا تھا‘وقت دریا ہے‘ یہ ہمیشہ آگے کی طرف بہتا ہے‘ ماں اور باپ کی محبت بھی دریا ہوتی ہے‘ یہ بھی اگلی نسلوں کی طرف دوڑتی ہے۔
پروفیسر غنی جاوید آسٹرالوجسٹ ہیں اور مجھے 1993-94 میں ان کے ساتھ کام کرنے کی سعادت نصیب ہوئی تھی‘ یہ شان دار انسان اور انتہائی تجربہ کار بزرگ تھے‘ میری مدت سے ان کے ساتھ ملاقات نہیں ہوئی مگر میں اب انھیں تلاش کروں گا اور انھیں یہ بتائوں گا مجھے آپ کی بات تیس سال بعد سمجھ آئی۔
میرے ایک دوست نے چند دن قبل مجھے اپنا واقعہ سنایا‘ اس کا کہنا تھا میں اپنے بیٹے کو اپنی جدوجہد کی کہانی سنا رہا تھا‘ میں نے کس طرح تعلیم حاصل کی‘ ہم کس طرح پانچ کلومیٹر پیدل چل کر اسکول جاتے تھے‘ استادوں کی مار کس طرح کھاتے تھے اور پھر میں نے کس طرح چار ہزار روپے سے بزنس اسٹارٹ کیا‘ لوگوں نے کس طرح مجھے دھوکا دیا اور میں کس طرح کام یاب ہوا‘ میں نے گفتگو کے دوران محسوس کیا میرا بیٹا صرف سر ہلا رہا ہے اور ہاں جی‘ ہاں جی کر رہا ہے لیکن اس کا دماغ کسی دوسری چیز میں الجھا ہوا ہے۔
میں نے غصے سے چلا کر کہا ’’تم میری بات غور سے کیوں نہیں سن رہے؟‘‘ اس نے سر اٹھایا اور ہنس کر بولا ’’ابا میں یہ داستان بیسیوں مرتبہ سن چکا ہوں‘ آپ کی کہانیاں ختم نہیں ہو رہیں جب کہ میں اس بات پر پریشان ہوں آئی فون اب فون کے ساتھ چارجر کیوں نہیں دیتا؟ آپ خود فیصلہ کریں آپ کی پریشانی بڑی ہے یا میری؟‘‘ میں نے قہقہہ لگا کر پوچھا ’’اور پھر تم نے یہ سن کر کیا کیا؟‘‘ اس نے ہنس کر جواب دیا ’’میں نے جوتا اتار لیا اور میرا بیٹا ہنس کر دوڑ گیا‘‘۔
میں نے دوسری مرتبہ قہقہہ لگایا اور اپنے دوست سے کہا ’’تم فکر نہ کرو جس دن یہ باپ بنے گا اس دن اس میں اور تم میں کوئی فرق نہیں رہے گا‘ اس کے بچے بھی اس کو نہیں سنیںگے‘‘ میرے والد کہا کرتے تھے مجھ میں اور تم میں صرف ایک بچے کا فرق ہے‘ تم جس دن باپ بنو گے میں تمہیں اس دن سمجھ آئوں گا اور میں پچھلے تیس برسوں سے اپنے والد کو سمجھ رہا ہوں اور اب میرے بیٹے کو ’’میں سمجھ آ رہا ہوں‘‘۔ہمارے والدین کی سوچ کیا تھی‘ ان کے ایشوز کیا ہیں؟یہ فلسفہ ہمیں صرف اس وقت سمجھ آتا ہے جب ہم خود باپ یا ماں بنتے ہیں۔
Source: Express News
Must Read Urdu column Generation GAP By Javed Chaudhry