بس جاپان کو کاپی کر لیں – جاوید چوہدری
میں نے جاپانی بابے کو کافی کی پیش کش کی‘ اس نے خوش دلی سے قبول کر لی‘ میں نے کافی شاپ سے دو کپ لیے‘ ایک اس کے ہاتھ میں دے دیا اور دوسرا خود لے لیا اور وہ لرزتی آواز میں سمورائی بادشاہوں کے قصے سنانے لگا‘ سمورائی کی پرورش اور ٹریننگ کیسے ہوتی تھی‘ وہ کھاتے کیا تھے اور وہ لڑتے بھڑتے کیسے تھے؟
وہ تفصیل سے بتاتا جا رہا تھا‘ نوے فیصد الفاظ میرے پلے نہیں پڑ رہے تھے‘ اس کی زبان اور الفاظ پر بڑھاپا غالب آ چکا تھامگر میں اس کے باوجود اطمینان سے سنتا رہا‘ لیکچر کے آخر میں اس نے مجھ سے سوال شروع کر دیے‘ اس کا پہلا سوال تھا ’’پاکستان کی آبادی کتنی ہے؟‘‘ میں نے جواب دیا ’’ہم 25 کروڑ ہیں‘‘ اس نے حیرت سے دوہرا دیا ’’250 ملین پیپل او مائی گاڈ‘‘ وہ دیر تک 250 ملین کا فگر دوہراتا رہا اور پھر رک کر پوچھا ’’اور ان میں جوان کتنے ہیں؟‘‘
میں نے جواب دیا ’’65 فیصد‘‘ اس کی حیرت میں اضافہ ہو گیا اور وہ پھٹی پھٹی نظروں سے میری طرف دیکھتا چلا گیاجب کہ میں کھڑا مسکراتا رہا‘ وہ سکتے سے باہر آیا اور اس نے وہ آخری سوال پوچھ لیا جس نے میرے چھکے چھڑا دیے‘ اس نے پوچھا ’’ تم لوگ اس کے باوجود غریب کیوں ہو؟‘‘میں شرمندہ ہو گیا‘ دنیا میں ہیومین ریسورس بہت اہم ہوتا ہے اور ہم ہیومین ریسورس کے لحاظ سے ترقی یافتہ دنیا سے بہت آگے ہیں‘ آبادی 25 کروڑ ہے اور اس میں سے 65 فیصد لوگ جوان ہیں اور ہم اس کے باوجود غریب ہیں‘ کیا یہ واقعی حیران کن بات نہیں‘ کیا ہمیں اس پر ماتم نہیں کرنا چاہیے؟ آخر جاپان اور ہم میں کیا فرق ہے؟
کیا قدرت نے انھیں خصوصی زمین اور موسم دیے ہیں یا انھیں بڑا دماغ اور بڑا جسم دے کر دنیا میں بھجوایا ہے اور ہم قد‘ وزن اور دماغ میں ان سے چھوٹے ہیں اور ہماری مٹی مٹی‘ سورج سورج اور موسم موسم نہیں ہیں اور ہمارا پانی کم گیلا اور دھوپ کم دھوپ ہے‘ ہم اگر دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیں تو منہ سے نکلے گا ہرگز نہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے قدرت نے ہمیں موسم‘ زمین‘ رقبے اور افرادی قوت کے لحاظ سے جاپان سے زیادہ نواز رکھا ہے تو یہ غلط نہیں ہو گا‘ جاپان میں روزانہ زلزلے آتے ہیں‘ اس کے نیچے آتش فشاں بھی ہیں اور یہ آتش فشاں کسی بھی وقت پورے ملک کو اڑا دیں گے۔
دوسرا یہ دنیا کا واحد ملک ہے جس نے دو ایٹم بم سہے ہیں اوریہ 78 برسوں میں اپنی فوج بنا سکا‘ ائیرفورس اور نہ ہی نیوی اور یہ آج بھی امریکا کو ہر سال اپنی حفاظت کا کرایہ ادا کرتا ہے لیکن یہ اس کے باوجود دنیا کی چوتھی اقتصادی طاقت ہے‘ اس کے مالیاتی ذخائر1117بلین ڈالر ہیں اور یہ ہر سال1500 بلین ڈالر کی تجارت کرتا ہے جب کہ ہم ایک ایک بلین ڈالر کے لیے زمین پر لیٹے ہوئے ہیں؟ کیوں؟ کیوں کہ جاپان اپنے پوٹینشل سے واقف ہے جب کہ ہم اپنی طاقت سے آگاہ نہیں ہیں‘ ہم نے 25 کروڑ لوگوں کو بھکاری بنا دیا ہے۔
میں ماشاء اللہ 113 ملک پھرچکا ہوں‘ میری زندگی کا بڑا حصہ سفر میں گزرا اور باقی بھی گزرے گا‘ میں اپنے مشاہدے کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں دنیا میں جاپان جیسا کوئی دوسرا ملک نہیں‘ ہم اگر اپنے ملک کو بدلنا چاہتے ہیں تو ہمیں کسی دوسرے ملک سے سیکھنے کی کوئی ضرورت نہیں‘ ہم بس جاپان جائیں اور جاپان کے ماڈل کو پاکستان میں نافذ کر دیں‘ ہم دس پندرہ برسوں میں ترقی کی اس سڑک پر ہوں گے جس کے آخر میں جاپان بیٹھا ہے۔
جاپانی 1945کے بعد کسی ملک سے نہیں لڑے‘ چین اور کوریا کے ساتھ ان کے نظریاتی اور سرحدی تنازعے ہیں لیکن انھوں نے آج تک ان کے ساتھ بھی تجارتی اور سفارتی تعلقات نہیں ٹوٹنے دیے‘ ان کی سرحدیں ان کے ساتھ بھی کھلی ہیں جب کہ ہم 1947سے باہر اور اندر دونوں جگہوں پر لڑ رہے ہیں‘ ہم ہمسایوں سے بھی خوش نہیں ہیں اور اپنے آپ سے بھی اور اس لڑائی کا کیا نتیجہ نکلنا تھا؟
اور آج وہ نتیجہ نکل رہا ہے اور جاپان کا پہلا سبق ہے آپ نے جتنا لڑنا ہے ایک ہی بار لڑ لیں‘ ایٹم بم چلا اور کھا کر دیکھنا چاہتے ہیں تو یہ بھی کر لیں لیکن آخر میں آپ کو امن پر ہی اکتفا کرنا پڑے گا لہٰذا یہ کام اگر آپ آج کر لیں تو زیادہ بہتر ہوگا‘ ہمسایوں کے ساتھ تعلقات ٹھیک کریں اور لڑنا مکمل طور پر بند کر دیں اور اس کے بعد قوم سازی اور معاشی ترقی پر توجہ دیں‘ ملک بدل جائے گا۔
جاپانی قوم کے اخلاقی معیار کمال ہیں‘ یہ لوگ پوری زندگی ایک ہی ادارے میں خرچ کر دیتے ہیں‘ یہ جب بھی جاب کریں گے موت تک کریں گے‘ ادارہ اور کمپنی نہیں چھوڑیں گے‘ ریٹائرمنٹ کے بعد اس ادارے میں آدھی تنخواہ پر دوبارہ کام شروع کر دیں گے‘ ادارہ بھی ملازمین کی وفاداری کا ناجائزہ فائدہ نہیں اٹھاتا‘ یہ موت تک ان کا خیال رکھتا ہے‘ جاپان میں تنخواہوں کا تعین ملازمین کی ذمے داریوں کے مطابق کیا جاتا ہے‘ ملازم کنوارہ ہے تو تنخواہ کم ہو گی‘ یہ شادی شدہ ہو گیا اور اس کے بچے ہو گئے تو ادارہ خودبخود اس کی تنخواہ بڑھا دے گا۔
یہ لوگ سکلڈ بھی ہوتے ہیں‘ اسکول اور کالج انھیں ہنر مند بنا کر بھجواتے ہیں اور ادارے ان کی مہارت میں مسلسل اضافہ کرتے رہتے ہیں‘ پورا ملک ٹائم کا پابند ہے‘ ٹرین یا بس لیٹ ہو جائے یہ ممکن ہی نہیں‘ لوگ بھی وقت پر دفتر یا اسکول نہ آئیں اس کا امکان بھی صفر ہے‘ پورا ملک عاجزی اور انکساری کا شاہکار ہے‘ آپ جس شخص کو مخاطب کریں گے وہ آپ کے سامنے جھک جائے گا اور ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو جائے گا‘ آپ کو پورے ملک میں کوئی تنی ہوئی گردن یا اکھڑا ہوا لہجہ نہیں ملے گا‘ لوگ چھوٹے گھروں میں رہتے ہیں۔
ہونڈا کمپنی کے مالک کا گھر صرف 16 مرلے کا ہے اور یہ بھی اپنے گھر کی صفائی خود کرتا ہے‘ ٹویوٹا کے نام پر پورا شہر آباد ہے‘ یہ دنیا کی سب سے بڑی کار ساز کمپنی ہے‘ ایک منٹ میں ایک گاڑی مکمل کرتی ہے لیکن اس کا مالک بھی چھوٹے سے گھر میں رہتا ہے اور آپ کو جھک کر ملے گا۔
پورے ملک میں ہارن کی آواز نہیں آتی‘ آپ کسی طرف نکل جائیں آپ کو ٹریفک کا شور سنائی نہیں دے گا یوں محسوس ہوتا ہے جیسے جاپان کے انجن آواز ہی نہیں دیتے اور گاڑیوں میں ہارن نہیں لگائے جاتے‘ تعمیر کے دوران بھی آوازیں نہیں آتی‘ آپ کو پتا ہی نہیں چلتا اور آپ کے ہمسائے میں بیس منزلہ عمارت کھڑی ہو جاتی ہے‘ ڈرائیونگ لائسنس بہت مشکل اور مہنگا ہے‘ فیس تقریباً لاکھ ین ہے اور یہ بھی معمولی سی خلاف ورزی پر چھن جاتا ہے اور اسے وزیراعظم بھی بحال نہیں کر سکتا۔
یہ لوگ اپنے گھروں اور گاڑیوں کی صفائی خود کرتے ہیں‘ دفتروں میں بھی ہاتھ سے صفائی کریں گے‘ میں نے ائیرپورٹ پر ’’بیگ ریپ‘‘ کرنا تھا‘ مشین کے سامنے 7 بجے کا ٹائم لکھا تھا‘ میں قطار میں کھڑا ہو گیا‘ ساڑھے چھ بجے ایک خاتون آئی‘ اس نے مشین کے اوپر سے کور اتارا‘ باقی تمام لوازمات پورے کیے اور سات بجنے سے تین منٹ پہلے مشین مین پہنچ گیا اور اس نے ٹھیک سات بجے کام شروع کر دیا اور یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے۔
آپ جاپان میں کسی جگہ چلے جائیں جس دفتر کے سامنے جو ٹائم لکھا ملے گا وہ عین اس وقت کھلے گا اور عین وقت پر بند ہو گا‘ ان کی خوراک بھی انتہائی سادہ اور تھوڑی ہوتی ہے‘ جاپانی چاول کھاتے ہیں‘ ان کے چاولوں اور ہمارے چاولوں میں یہ فرق ہوتا ہے ہمارے چاول کری کے بغیر نہیں کھائے جا سکتے جب کہ جاپانی چاول لیس دار ہوتے ہیں اور یہ سادے بھی کھائے جا سکتے ہیں۔
جاپان میں آج بھی کیبل نہیں ہے‘ چھتوں پر انٹینے لگے ہیں‘ صرف 9 ٹی وی چینلز ہیں اور یہ بھی سیاسی کم اور سماجی خبریں زیادہ نشر کرتے ہیں‘جاپانی ٹی وی اور سوشل میڈیا کے بجائے پڑھنا زیادہ پسند کرتے ہیں‘ آج بھی ڈیلی یمیوری دنیا میں سب سے زیادہ شایع ہوتا ہے اور ہر شخص اسے خریدتا اور پڑھتا ہے۔
اوساکا اور ٹوکیو میں کتابوں کے باقاعدہ پلازے ہیں اور ان میں دنیا جہاں کی کتابیں ہیں‘یہ بچوں کا بہت خیال رکھتے ہیں‘ انھیں دیکھ کر ٹریفک رک جاتی ہے‘ بچوں کے لیے لازم ہے یہ جب سڑک کراس کریں تو اپنا ایک ہاتھ فضا میں اٹھا لیں تاکہ ڈرائیورز کو بچہ نظر آ سکے‘ یہ لوگ نیوائیر پر کلب نہیں جاتے‘ ٹمپل جاتے ہیں اور دعائوں سے نئے سال کا آغاز کرتے ہیں‘ بخار میں آئس کریم کھاتے ہیں اور ٹھیک ہو جاتے ہیں۔
خواتین اپنے خاوندوں سے بہت وفادار ہوتی ہیں چناں چہ طلاقوں کی اوسط بہت کم ہے‘ جاپانی بزنس فرینڈلی بھی ہیں‘ کوئی کاروبار بند نہیں ہونے دیتے‘ اوساکا شہر میں حکومت نے سمندر کے کنارے 15 کلو میٹر کا علاقہ تین بڑے بزنس گروپوں کو الاٹ کر دیا تھا‘ ان تینوں نے مل کر وہاں نیا شہر آباد کر دیا‘ یہ علاقہ سانگیا (Sangehiya) کہلاتا ہے‘ اس کا مطلب تین ہوتا ہے۔
یہ غلطی اگر پاکستان میں ہو گئی ہوتی تو آج تینوں خاندان اجازت دینے والوں کے ساتھ جیلوں میں ہوتے اور پورا ملک انھیں گالیاں دے رہا ہوتا جب کہ جاپان میں ایسے لوگوں کو محسن سمجھا جاتا ہے اور انھیں ایوارڈز دیے جاتے ہیں لہٰذا میرا مشورہ ہے آپ صرف جاپان کو کاپی کر لیں‘ ہم بھی پار لگ جائیں گے ورنہ اسی طرح دائرے میں سفر کرتے کرتے ختم ہو جائیں گے۔
Source: Express News
Must Read Urdu column Bus Japan ko Copy ker lain By Javed Chaudhry