کم از کم یہ فیصلہ کر لیں – جاوید چوہدری
عمران خان کی پیر 8 جنوری کو جیل میں توشہ خانہ ریفرنس کی سماعت تھی‘ بشریٰ بی بی اور خان صاحب پر فرد جرم عائد ہونی تھی‘ جج محمد بشیر عدالت میں پہنچے اور کارروائی شروع ہوگئی‘ جج نے تھوڑی دیر بعد محسوس کیا عمران خان کو ابھی تک عدالت میں نہیں لایا گیا‘ بشریٰ بی بی بھی نہیں آئی تھیں‘ لطیف کھوسہ بشریٰ بی بی کے وکیل تھے۔ وہ اڈیالہ جیل آئے لیکن یہ کہہ کر عدالت کا بائیکاٹ کر دیا ’’میرے ساتھیوں کے ساتھ گیٹ پر زیادتی ہو رہی ہے جب تک انھیں انٹری نہیں ملے گی میں عدالت نہیں آؤں گا‘‘ تاہم وہ جاتے جاتے شعیب شاہین کو بشریٰ بی بی کی غیرحاضری کی درخواست پکڑا گئے۔
بی بی پیر کے بجائے منگل کے دن عدالت میں پیش ہونا چاہتی تھی‘ جج صاحب نے یہ درخواست منظور کر لی اور اس کے بعد جیل سپرنٹنڈنٹ سے کہا ’’خان صاحب کہاں ہیں۔ یہ ابھی تک کیوں نہیں آئے؟‘‘ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ نے بتایا ’’یہ پانچ منٹ میں آ رہے ہیں‘‘ بہرحال دس منٹ بعد عمران خان عدالت میں داخل ہوئے اور آتے ہی جج صاحب کے سامنے احتجاج شروع کر دیا‘ ان کا کہنا تھا ’’میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ کیا یہ انصاف ہے؟‘‘ جج صاحب نے پوچھا ’’کیا ہوا؟‘‘ ان کا کہنا تھا ’’میری بیٹوں سے بات نہیں کرائی جا رہی‘ آپ نے آرڈر بھی کیا لیکن جیل اسٹاف کہتا ہے ہمیں جب تک تحریری حکم نہیں ملے گا ہم اس وقت تک ویڈیو کال نہیں کرا سکتے‘ کیا یہ انسانیت ہے۔ مجھے میرے انسانی حقوق بھی نہیں دیے جا رہے‘‘ جج صاحب نے جیل کے عملے سے پوچھا ’’خان صاحب کی بات کیوں نہیں کرائی جا رہی؟‘‘ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کا کہنا تھا ’’سر ہمیں تحریری حکم نہیں ملا‘‘ جج نے اپنے اسٹاف کو تحریری حکم کی ہدایت کر دی‘ خان صاحب اس کے بعد فیملی کے سیکشن میں چلے گئے وہاں ان کی دو بہنیں علیمہ خان اور ڈاکٹر عظمیٰ بیٹھی تھیں‘ ڈاکٹر عظمیٰ برقع پہنتی ہیں۔
خان صاحب علیمہ خان کے گلے لگے جب کہ ڈاکٹر عظمیٰ کو انھوں نے تھپکی دی‘ ان کی تیسری بہن نورین خان دو ہفتوں سے ملاقات کے لیے نہیں آ رہی تھی‘ نورین خان حسان نیازی کی والدہ اور حفیظ اللہ نیازی کی سابق اہلیہ ہیں‘ یہ ان دنوں بے تحاشا مسائل کی شکار ہیں‘ ان کے بیٹے حسان نیازی لاہور میں قید ہیں جب کہ بھائی راولپنڈی میں ہیں‘ ان کی حسان نیازی سے جمعرات کے دن ملاقات ہوتی ہے چناںچہ یہ شدید دھند میں راولپنڈی آتی ہیں اور پھر اسی دن واپس لاہور جاتی ہیں‘ انھیں حفیظ اللہ نیازی کا ڈرائیور لاتا اور واپس لے جاتا ہے۔ یہ سفر‘ سردی اور اسموگ کی وجہ سے علیل ہوگئی تھیں لہٰذا یہ خان صاحب سے ملاقات کے لیے نہیں آ سکیں مگر وکلاء کا خیال تھا عمران خان نے دو ہفتے قبل جب نورین خان کی موجودگی میں اپنی ٹیم سے کہا ‘ آپ حفیظ اللہ کا منہ توڑ جواب دیا کریں تو شاید اس وجہ سے نورین خان ناراض ہوگئی ہیں اور انھوں نے بھائی سے ملاقاتیں بند کر دیں‘ یہ اندازہ غلط تھا‘ نورین خان علالت اور تھکاوٹ کی وجہ سے اڈیالہ جیل نہیں آ رہی تھیں۔
یہ منگل 9 جنوری کو توشہ خانہ ریفرنس میں فرد جرم کے وقت جیل کی کورٹ میں موجود تھیں جس سے ناراضگی کا تاثر ختم ہوگیا‘ میں آٹھ جنوری کی طرف واپس آتا ہوں‘ خان صاحب دونوں بہنوں کے ساتھ ملاقات کے بعد ان کے ساتھ بیٹھ گئے اور عدالتی کارروائی شروع ہوگئی‘ جج صاحب کو تھوڑی دیر بعد محسوس ہوا عمران خان کی بہنیں انھیں تسلی دے رہی ہیں اور وہ سسکیاں لے رہے ہیں‘ کپتان کی آنکھوں سے آنسو ٹپک رہے تھے۔ جج صاحب نے جیل کے عملے کو اشارہ کیا اور ایک اہلکار ٹشو پیپر کا ڈبہ لے کر عمران خان کے پاس پہنچ گیا‘ خان صاحب نے ٹشو کھینچ کر آنکھوں پر رکھ لیے جس کے بعد عدالت کا ماحول سوگوار ہوگیا۔
خان صاحب کے تینوں وکلاء ان کے قریب کھڑے ہوگئے‘ نیب کے پراسیکیوٹر امجد پرویز بھی خان صاحب کے قریب ہوگئے اور ان سے کہا‘ خان صاحب آپ فیملی کے ساتھ گفتگو کریں‘ ہم تھوڑی دیر کے لیے باہر جا رہے ہیں‘ امجد پرویز واپس آئے اور اس کے بعد عدالت نے وقفہ کر دیا‘ جج‘ ان کا عملہ‘ نیب کے اہلکار اور رپورٹرز باہر چلے گئے اور عدالت میں صرف خان صاحب‘ ان کی بہنیں اور وکلاء رہ گئے۔
پاکستان تحریک انصاف مجھے اپنا مخالف سمجھتی ہے‘ یہ تاثر 100 فیصد غلط ہے‘ کیوں؟ کیوں کہ میڈیا اور صحافی صرف حقائق پر بات کرتے ہیں‘ ہم لوگ مخالفت برائے مخالفت کے ساتھ سروائیو ہی نہیں کر سکتے اور حقائق کی سب سے بڑی خامی یہ ہوتی ہے یہ بہت ظالم ہوتے ہیں اور ان کے ظلم کا پہلا شکار خود صحافی بنتے ہیں اور اسٹیک ہولڈرز انھیں ’’مخالف گروپ‘‘ قرار دے کر راندہ درگاہ کر دیتے ہیں‘ پی ٹی آئی نے مجھے بھی ’’مخالف گروپ‘‘ میں ڈال رکھا ہے۔
ایک بار یہ شکوہ فواد چوہدری نے بھی کیا تھا‘ یہ اس وقت پارٹی کے مکمل ترجمان ہوتے تھے‘ میں نے ان سے کہا ’’آپ ایک بات بتائیں آپ نے مجھے بلایا ہو یا آپ نے اپنا ورژن دیا ہو اور میں نے انکار کیا ہو‘‘ فواد چوہدری ایک دیسی جہلمی انسان ہیں‘ یہ فوراً بولے ’’آپ کی یہ بات ٹھیک ہے‘ ہم نے آپ سے بلاوجہ فاصلہ رکھا ہوا ہے‘‘ بہرحال پی ٹی آئی کے اس تمام تر پرسیپشن کے باوجود میں سمجھتا ہوں عمران خان کو جیل میں ان کے حقوق نہ دینا زیادتی ہے‘ فیملی اور بیٹوں سے بات کرنا عمران خان کا حق ہے۔
یہ حق انھیں عدالت نے بھی دے رکھا ہے اور اگر اس کے باوجود بھی ان کی بیٹوں سے بات نہیں کرائی جا رہی تو یہ زیادتی ہے اور انسان اگر چنگیز خان بھی ہو جائے تو بھی یہ انسان رہتا ہے اور یہ کسی نہ کسی جذباتی موڑ پر ٹوٹ جاتا ہے اور عمران خان اب اس عمل سے گزر رہے ہیں‘ یہ مسلسل دو سال سے عدالتی‘ قانونی اور ریاستی جبر سہہ رہے ہیں اور یہ حقیقت ہے ہمارے سسٹم کے جبڑے میں جو بھی آ جائے وہ بالآخر چیخنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
وہ خواہ جنرل مشرف‘ افتخار محمد چوہدری اور عمران خان ہی کیوں نہ ہو مگر سوال یہ ہے یہ سلسلہ آخر کب تک چلتا رہے گا‘ اس ملک میں وزرائے اعظم آخر کب تک وزیراعظم ہاؤس سے نکل کر اڈیالہ جیل جاتے رہیں گے‘ اگر کسی نے جرم کیا ہے تو اسے لازمی سزا ملنی چاہیے لیکن تذلیل بہرحال دشمن کی بھی نہیں ہونی چاہیے اور ہمارے ملک میں مخالفین کی تذلیل کی جاتی ہے اور اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے یہ لوگ واپس آتے ہیں اوراپنی ساری توانائیاں مخالفوں کو رگڑا لگانے میں صرف کر دیتے ہیں۔ عمران خان بھی اب یہی کریں گے‘ یہ سال دو سال میں اسی سمجھوتے کے ذریعے واپس آئیں گے جس کے تحت میاں نواز شریف اقتدار میں آ رہے ہیں اور یہ اس کے بعد شریف اور زرداری فیملی کے ساتھ وہی کریں گے جو آج ان کے ساتھ ہو رہا ہے اور اس کھیل میں ملک کا مزید بیڑہ غرق ہو جائے گا۔
میرا مشورہ ہے عمران خان کو اب صورت حال کا اندازہ کر کے مستقبل کا لائحہ عمل تیار کرنا چاہیے‘ انھیں چاہیے یہ کم از کم سیاسی انتقام کی گیم سے باہر آ جائیں‘ یہ سیاسی لاٹ کے ساتھ یہ معاہدہ ضرور کر لیں ہم کسی سیاست دان کو سیاسی انتقام کا نشانہ نہیں بنائیں گے اگر کوئی مجرم ہے تو اس کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک ہوگا لیکن کسی کو بیٹوں کے ساتھ فون پر بات کرنے سے نہیں روکا جائے گا‘ کسی کی بیٹی کو بھی سیاسی انتقام کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔
میں یہاں عمران خان کو میاں نواز شریف کی زندگی کے دو واقعات بھی سنانا چاہتا ہوں‘ 12اکتوبر 1999 کے بعد جنرل مشرف کے حکم پر پورا شریف خاندان غائب کر دیا گیا تھا‘ یہ لوگ شدید سردی میں مری میں ہیٹر کے بغیر پتلے کمبلوں میں رکھے گئے تھے اور انھیں ایک دوسرے کے زندہ ہونے کی اطلاع تک نہیں تھی‘ اس فضا میں ایک دن نواز شریف نے حسین نواز کی تلاوت کی آواز سنی‘ یہ آواز سن کر نواز شریف کی کیا کیفیت تھی اس کا اندازہ آج عمران خان اڈیالہ جیل میں بیٹھ کر بخوبی کر سکتے ہیں۔
یہ آج سوچ سکتے ہیں اس لمحے یہ جان کر کہ ’’میرا بیٹا زندہ ہے‘‘ نواز شریف کی کیا حالت ہوئی ہوگی؟ دوسرا 11 ستمبر 2018 کو کلثوم نواز اسپتال میں آخری سانسیں لے رہی تھیں‘ میاں نواز شریف جیل میں تھے‘ یہ بے چینی محسوس کر رہے تھے اور انھوں نے اسی بے چینی میں سپرنٹنڈنٹ سے درخواست کی میری بیوی کی حالت خراب ہے میں ان کی خیریت معلوم کرنے کے لیے چند سیکنڈز کی کال کرنا چاہتا ہوں‘ سپرنٹنڈنٹ نے جواب دیا۔ آپ کا فون کا کوٹہ ختم ہو چکا ہے‘ میاں نواز شریف نے اس سے درخواست کی آپ اپنے فون سے میری بات کرا دیں مگر اس نے اس سے بھی معذرت کر لی‘ نواز شریف مایوس ہو کر اپنے سیل میں چلے گئے‘ تھوڑی دیر بعد وہی سپرنٹنڈنٹ کلثوم نواز صاحبہ کے انتقال کی خبر لے کر ان کے پاس آگیا‘ نواز شریف نے پوچھا ’’کیا آپ نے مریم کو اطلاع دے دی ہے؟‘‘ سپرنٹنڈنٹ نے انکار میں سر ہلا دیا‘ نواز شریف نے کہا ’’ آپ اگر اجازت دیں تو کیا میں انھیں خود اطلاع دے دوں؟‘‘ سپرنٹنڈنٹ نے ہاں میں سر ہلا دیا۔ میاں نواز شریف مریم نواز کے پاس گئے‘ انھیں سینے سے لگایا‘ والدہ کے انتقال کی خبر دی اور ساتھ ہی کہا ’’بیٹا کسی کو بددعا نہیں دینی‘ یہ تکلیف ہمارے نصیب میں تھی‘‘۔
عمران خان آج اس تکلیف کا بھی اندازہ کر سکتے ہیں چناں چہ میری ان سے درخواست ہے یہ ایک باپ‘ بھائی اور خاوند کی تکلیف کا اندازہ کریں اور پھر یہ فیصلہ کر لیں، اللہ نے اگر انھیں دوبارہ اقتدار دیا تو یہ کسی دوسرے کے ساتھ یہ ظلم نہیں ہونے دیں گے‘ یہ سیاسی انتقام میں اخلاقیات اور مروت کو قتل نہیں ہونے دیں گے اور وہ دوسرا خواہ… ہی کیوں نہ ہو۔
Source: Express News
Must Read Urdu column Kam iz Kam ye Faisla Ker lain By Javed Chaudhry