لاء آف اٹریکشن – جاوید چوہدری
وہ گاڑی کے دائیں بائیں گھوما‘ ہنسا اور پھر چمکتی ہوئی آنکھوں سے میری طرف دیکھنے لگا‘ میں نے پوچھا ’’کیا تم یہ گاڑی چلا لو گے؟‘‘ اس نے نہایت پیار سے گاڑی پر ہاتھ پھیرا اور بولا ’’سریہ میری رانی ہے‘ میں غلام کی طرح اس کا خیال رکھوں گا‘‘ میں نے دوبارہ پوچھا ’’کیا تم اسے چلا لو گے؟‘‘ اس نے ہنس کر جواب دیا ’’سر آپ بالکل فکر نہ کریں ٹو او ڈی میری زندگی کا سب سے بڑا خواب ہے۔
میں اسے اس طرح چلاؤں گا کہ کسی نے اسے آج تک نہیں چلایا ہو گا‘‘ میں نے اسے مشکوک نظروں سے دیکھا لیکن وہ جس محبت اور عقیدت سے گاڑی کو دیکھ رہا تھا مجھے وہ اچھی لگی اور میں نے اسے گاڑی کی چابی پکڑا دی‘ وہ خوشی سے نہال ہو گیا۔
یہ 2000 کی بات تھی‘ اس وقت گاڑیاں بہت کم ہوتی تھیں‘ کوئی شخص نئی گاڑی خریدتا تھا تو یہ پورے شہر کے لیے بریکنگ نیوز ہوتی تھی‘ اس زمانے میں کرولا کی ڈیزل گاڑی ٹو او ڈی آتی تھی‘ دس لاکھ روپے اس کی قیمت ہوتی تھی‘ میں نے بڑی مشکل سے گاڑی خریدی‘ وہ نئی تھی لہٰذا مجھے چلاتے ہوئے ڈر لگتاتھا‘ میرے ایک دوست نے مجھے ڈرائیور رکھنے کا مشورہ دیا۔
میں نے مختلف ڈرائیورز کے انٹرویوز کیے مگر کوئی پسند نہ آیا‘ آخر میں وہ میرے پاس آ گیا اور میں نے اسے رکھ لیا‘ میں نے چند دن بعد اس سے پوچھا تم گاڑی کو اتنی عقیدت اور محبت سے کیوں دیکھتے ہو؟ اس نے پوچھا ’’کیا آپ نے بھی یہ نوٹ کر لیا؟‘‘ میں نے ہنس کر جواب دیا‘ ہاں میں کھڑکی سے دیکھتا رہتا ہوں‘ تم بڑی محبت سے گاڑی صاف کرتے ہو اور پھر سائیڈ پر بیٹھ کر اسے دیکھتے رہتے ہو‘ وہ ہنس کر بولا‘ سر آپ کی بات درست ہے۔
مجھے یہ گاڑی بہت اچھی لگتی ہے‘ میں مٹھائی کی ایک دکان پر کام کرتا تھا‘ میں نے بازار میں ایک دن نئی ٹو او ڈی دیکھی تو میں اس پر عاشق ہو گیا اور میں نے اس دن اﷲ تعالیٰ سے دعا کی یا باری تعالیٰ تو مجھے یہ گاڑی دے دے‘ میں یہ دعا روز کرتا تھا ‘ میرے ساتھی اس پر میرا مذاق اڑاتے تھے‘ میں اس وقت تین سو روپے کا دیہاڑی دار تھا‘ آپ بھی اگر میری اوقات اور میری دعا دیکھتے تو آپ بھی ہنس پڑتے مگر میں اس کے باوجود روز یہ دعا کرتا تھا۔
ایک دن میں لڈو بنا رہا تھا تو میرے ایک ساتھی نے پوچھا ‘یار بھولے ‘یہ بتاؤ اگر تمہیں ٹو او ڈی مل گئی تو تم اسے چلاؤ گے کیسے؟اس کا سوال ٹھیک تھا‘ میں نے یہ تو سوچا ہی نہیں تھا‘ گاڑی چلانے کے لیے ڈرائیونگ آنی چاہیے جب کہ میں نے گاڑی تو دور کبھی سائیکل بھی نہیں چلائی تھی‘ اس کی بات میرے دل پر لگی‘ میں نے نوکری چھوڑی اور ڈرائیونگ سیکھنی شروع کر دی‘ میں سب سے پہلے بس کا ہیلپر بنا‘ سال چھ مہینے کی مشقت کے بعد استاد نے مجھے ڈرائیونگ سیٹ پر بٹھا دیا اور میں بس کو اڈے کے اندر اور باہر لگانے لگا‘ استاد نے مجھے اس کے بعد بس چلانے کی اجازت دے دی۔
میں گجرات سے سرگودھا کے روٹ پر بس چلاتا تھا مگر آپ یقین کریں میں راستے میں جب بھی ٹو او ڈی دیکھتا تھاتو میرے انگ انگ میں بجلی دوڑ جاتی تھی اور میں اللہ تعالیٰ سے پوچھتا تھا یا باری تعالیٰ تم کب مجھے ٹو او ڈی دو گے؟ میں بس کے بعد ٹرک چلانے لگا اور اس کے بعد میں ذاتی ڈرائیور بن گیا۔
میں نے تین گھروں میں کام کیا مگر کسی کے پاس بھی ٹو او ڈی نہیں تھی‘ میں آخر میں آپ کے پاس آیا اور میں نے آپ کے گیراج میں یہ گاڑی دیکھی تو مجھے محسوس ہوا میری دعا قبول ہو گئی ہے‘ میں اﷲ سے یہی گاڑی مانگا کرتا تھا چناں چہ میں روز اسے صاف کرتا ہوں اور پھر سائیڈ پر بیٹھ کر اسے دیکھتا ہوں اور اﷲ تعالیٰ کا شکرادا کرتا ہوں اس نے مجھے نئی نکور گاڑی عنایت کی۔
مجھے اس کی کہانی زیب داستان محسوس ہوئی‘ آپ بھی اگر میرے زاویے سے یہ کہانی پڑھیں تو آپ کو بھی یہ فضول اور جذباتی لگے گی‘ ہم جیسے لوگ یہ سوچ بھی نہیں سکتے کوئی شخص کسی گاڑی کے عشق میں مبتلا ہوگا اور وہ اس عشق میں جنون تک چلا جائے گا اور دوسرا مجھے یہ سن کر بڑا غصہ آیا وہ میری گاڑی کو اپنی گاڑی کہہ رہا تھا‘ میں نے ہنس کر اس سے اس کا اظہار بھی کیا‘ میں نے اسے کہا ’’بھولے‘ مجھے تمہاری کہانی ٹھیک ٹھاک واہیات محسوس ہو رہی ہے۔
دوسرا مجھے یہ گاڑی خریدنے کے لیے دوسری نوکری کرنا پڑی‘ میں نے پیٹ کاٹ کر پیسے جمع کیے اور پھر بڑی مشکل سے گاڑی خریدنے کے قابل ہوا جب کہ تم دس ہزار روپے کا نوکر ہوتے ہوئے گاڑی کی ملکیت کا دعویٰ کر رہے ہو کیا تمہیں یہ شرم نہیں آتی؟‘‘ اس نے قہقہہ لگایا اور بولا ’’چوہدری صاحب گاڑی اس کی ہوتی ہے جو ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھتا ہے اور میں گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھتا ہوں‘ اﷲ تعالیٰ نے آپ کی نہیں میری دعا قبول کی ہے‘ آپ کے لیے یہ صرف ایک گاڑی ہے جب کہ میرے لیے یہ اﷲ تعالیٰ کا انعام ہے۔
یہ اس کی رحمت ہے‘ اس نے میری دعا سن کر مجھے یہ عنایت بھی کی اور ساتھ ہی یہ مجھے تنخواہ بھی دے رہا ہے اور آپکے پلے سے کھانا‘ کپڑے اور رہائش بھی چنانچہ میرے رب کا مجھ پر کتنا کرم ہے۔
میں صدقے جاؤں اپنے خدا کے‘‘ میں نے یہ سن کر قہقہہ لگایا اور کام میں لگ گیا لیکن سچی بات ہے میں جب بھی گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھتا تھا اور میں بھولے کو ڈرائیونگ سیٹ پر دیکھتا تھا تو میرے ذہن میں یہ سوال ضرور آتا تھا یہ گاڑی میری ہے یا بھولے کی اور اس کے بعد میں بھولے سے جیلس ہو جاتا تھا اور مجھے اس جیلسی سے نکلنے کے لیے بہت زور لگانا پڑتا تھا بہرحال قصہ مختصر بھولا سال بھر میرے ساتھ کام کرتا رہا‘ وہ غالباً 2001کے آخر میں چھٹی گیا‘ گاؤں میں اس کا ایکسیڈنٹ ہوا اور اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔
میں نے اس کا علاج کرایا لیکن وہ ڈرائیونگ کے لیے فٹ نہ ہو سکا اور اس نے مجبوری میں دوبارہ مٹھائی بنانا شروع کر دی تاہم وہ دو چار دن بعد پی سی او سے مجھے فون کرتا تھا اور ’’اپنی‘‘ گاڑی کو یاد کرتا تھا اور میں ہنس پڑتا تھا تاہم میں نے نوٹ کیا‘ بھولے کے جانے کے بعد گاڑی کے ایکسیڈنٹس ہونے لگے ہیں۔
پہلے اس کا ٹائر گٹر کے ڈھکن کے ساتھ ٹکرا کر پھٹ گیا‘ پھر ایک ٹیکسی نے اسے پیچھے سے ٹھوک دیا اور آخر میں یہ کھڑے ٹرک کے ساتھ جا ٹکرائی اور اس کے انجن اور گیئر باکس میں بھی مسائل آنے لگے یہاں تک کہ میں نے گاڑی بیچنے کا فیصلہ کر لیا‘ مجھے اچھا گاہک ملا‘ میں نے گاڑی بیچی اور نئی خرید لی اور یہ سارا عمل بھولے کے جانے کے چھ ماہ میں مکمل ہو گیا۔
گاڑی بکنے کے چند دن بعد بھولے کا فون آیا اور میں نے جب اسے گاڑی کے بکنے کی اطلاع دی تو خلاف توقع اس نے قہقہہ لگا دیا‘ میرا خیال تھا بھولا اس خبر پر افسردہ ہو گا‘ سچی بات ہے میں نے اسے یہ خبر دی ہی اس نیت سے تھی‘ میرا خیال تھا وہ افسردہ ہو جائے گا اور مجھے اس سے نفسیاتی لذت ملے گی اور میں اسے یہ ثابت کر سکوں گا یہ گاڑی میری تھی اور میں نے ہی اس کا فیصلہ کیا لیکن میری توقع کے خلاف بھولے نے قہقہہ لگایا اور کہا‘ سر میں آپ کو بتاتا رہتا تھا یہ گاڑی میری ہے۔
آپ دیکھ لیں گاڑی کا مالک گیا اور چند ماہ میں گاڑی بھی چلی گئی‘ مجھے دھچکا لگا اور مجھے پہلی مرتبہ اس کی بات میں وزن محسوس ہوا اور میرے ذہن میں فلیش بیک ہونے لگے‘ مجھے یاد آیا میں ہونڈا سوک خریدنے گیا تھا لیکن ان دنوں وہ گاڑی دستیاب نہیں تھی جس کے بعد میرا ایک دوست مجھے کرولا کے شو روم میں لے گیا ‘ میں نے وہاں ٹو او ڈی دیکھی‘ ٹیسٹ ڈرائیو لی اور پھر یہ خرید لی اور چند دن بعد بھولا آ گیا۔
وہ جب تک گاڑی ڈرائیو کرتا رہا اس میں کسی قسم کی خرابی نہیں آئی مگر جب وہ گیا تو پھر وہ گاڑی بھی چلی گئی لہٰذا اس کا سوال جینوئن تھا‘ وہ گاڑی میری تھی یا بھولے کی؟ اور وہ واقعی بھولے کی تھی‘ میں صرف اس کا کیئر ٹیکر تھا‘ قدرت نے بھولے کی سہولت کے لیے مجھے بطور ایجنٹ استعمال کیا تھا‘ جب بھولا نکل گیا تو گاڑی اور ایجنٹ دونوں کا کردار ختم ہو گیا‘ میں اس سے پہلے کئی بار لاء آف اٹریکشن پڑھ چکا تھا۔
میں لوگوں کو اس پر لیکچر بھی دیتا تھا مگر سچی بات ہے مجھے یہ قانون سمجھ اس دن آیا ‘ مجھے اس دن یہ راز بھی سمجھ آ گیاامیر لوگ بڑے بڑے کچن کیوں بناتے ہیں اور ان کچنز میں ہر روز دس دس‘ بیس بیس کھانے کیوں پکتے ہیں جب کہ قدرت امیر لوگوں کو ان کھانوں کو چکھنے سے بھی محروم کر چکی ہوتی ہے۔
یہ لوگ آدھا سلائس اور آدھا کپ چائے لیتے ہیں اور بس‘ کیوں؟ کیوں کہ یہ کچن اور ان کچنز میں پکنے والے کھانے بھولے جیسے لوگوں کا مقدر ہوتے ہیں‘ یہ ان کی دعاؤں کی قبولیت ہوتے ہیں‘ اللہ تعالیٰ انھیں اچھی گاڑیوں‘ اچھے مکانوں اور اچھے دسترخوانوں پر بٹھانے کے لیے امیر لوگوں کو دولت دیتا ہے اور پھر انھیں بھولے جیسے لوگوں کے لیے بطور ایجنٹ استعمال کرتا ہے جب کہ ہم لوگ پوری زندگی یہ میری ہے اور وہ میری ہے جیسی غلط فہمی میں گزار دیتے ہیں۔
Source: Express News
Must Read Urdu column Law of Attraction By Javed Chaudhry