ہم بھی- جاوید چوہدری
پہلے دن بجلی بند ہو گئی‘ نیشنل گرڈ ٹرپ کر گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے آدھا ملک اندھیرے میں ڈوب گیا‘ لوگ ذاتی جنریٹر چلانے پر مجبور ہو گئے‘ دوسرے دن صورت حال مزید گھمبیر ہو گئی‘ ملک بھر میں موبائل فون سروسز بند ہونے لگیں‘ ٹیلی ویژن‘ ریڈیو اور انٹرنیٹ بھی جواب دے گیا اور اخبارات کی اشاعت بھی رک گئی‘ بجلی نہ ہونے کی وجہ سے شہر میں واٹر اور سیوریج کا سسٹم بھی بیٹھ گیا‘ گھروں میں پانی ختم ہو گیا اور لوگ بالٹیاں لے کر گلی گلی پھرنے لگے‘ سیوریج سسٹم چوک ہونے کی وجہ سے کموڈز بھر گئے اور فضلہ کمروں میں بہنے لگا‘ تیسرے دن پٹرول پمپس بھی بند ہو گئے۔
پٹرول کی سپلائی منقطع ہو گئی تھی‘ اسی دن پولیس‘ رینجرز اور خفیہ اداروں کے اہلکار بھی ڈیوٹی چھوڑ کر اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے‘وہ جاتے جاتے اسلحہ بھی ساتھ لے گئے تھے‘لوگوں نے پولیس کو غائب ہوتے دیکھا تو انھوں نے تھانوں پر حملہ کر کے باقی اسلحے پر قبضہ کر لیا تھا‘ چوتھے دن بن غازی کے نزدیک کنٹونمنٹ پر بھی قبضہ ہو گیا‘ ہجوم چھاؤنی تک پہنچا‘ فوج نے شروع میں لوگوں کو روکنے کی کوشش کی لیکن ہجوم زیادہ تھا اور نفری کم‘ دوسرا فوج نے اپنے لوگوں پر گولی چلانے سے انکار کر دیا چناں چہ آدھ گھنٹے کی مزاحمت کے بعد جوانوں نے مزاحمت چھوڑ دی اور یوں ہجوم چھاؤنی میں داخل ہو گیا۔
فوج کی گاڑیوں‘ توپوں اور ٹینکوں پر قبضہ ہو گیا‘ بارود خانے کے دروازے توڑ کر رائفلوں‘ مارٹر گولوں اور دستی بموں پر بھی قبضہ کر لیا گیا اور اس کے بعد اصل خانہ جنگی شروع ہو گئی‘ لوگ فوجی جیپوں پر نکلتے تھے اور مشین گنوں سے فائرنگ کرتے ہوئے شہروں میں داخل ہوجاتے تھے اور مخالفین کو سرعام گولی مار دیتے تھے‘ مخالفوں کو محسوس ہوا ہم نے اگر ان کا مقابلہ کرنا ہے تو پھر ہمارے پاس بھی اسلحہ ہونا چاہیے لہٰذا یہ بھی نکلے اور قریبی چھاؤنیوں پر دھاوا بول دیا جس کے بعد ان کے پاس بھی اسلحہ آ گیا‘ حکومت نے نئے دستے اور فوجی بن غازی بھجوا دیے‘ فوج نے ہجوم پر فائر کھول دیا‘ سڑکوں اور گلیوں میں لاشیں بچھ گئیں‘ عوام کے پاس بھی اسلحہ موجود تھا‘ یہ بھی باہر نکلے اور فوج پر حملہ کر دیا اور یوں ایک ہفتے میں پورے ملک میں خانہ جنگی شروع ہو گئی۔
کرنل قذافی اس وقت طرابلس میں تھا‘ اس نے اپنے آپ کو بچانے کی آخری کوشش کی لیکن اختیار اور اقتدار دونوں اس کے ہاتھ سے نکل چکے تھے‘ فوج‘ پولیس اور صدر کے ذاتی گارڈز تینوں تتر بتر ہو چکے تھے‘ قذافی کو محسوس ہوا میں بری طرح پھنس چکا ہوں‘ اس نے درمیان کا راستہ نکالنے کی کوشش کی اور نیشنل ٹرانزیشنل کونسل (این ٹی سی) کے نام سے انٹیرم گورنمنٹ بنادی لیکن اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی‘ عوام نے یہ فارمولہ ماننے سے انکار کر دیا‘عالمی طاقتیں تیار بیٹھی تھیں چناں چہ صرف 11 دن بعد اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل نے کرنل قذافی‘ اس کے خاندان‘ دوستوں‘ کابینہ اور ملک کے تمام اثاثے منجمد کر دیے‘ لیبیا کی فضائی حدود بھی بند کر دی گئیں اور کیس انٹرنیشنل کریمنل کورٹ بھجوا دیا گیا۔
اس کے ساتھ ہی ملک مکمل طور پر جام ہو گیا‘ یہ صورت حال ہفتہ بھر جاری رہی‘اس کے بعد کرنل قذافی کے لوگوں کو ہوش آیا‘ یہ بھی جمع ہوئے‘ انھوں نے بھی ہتھیار اٹھائے اور باغیوں کے ساتھ لڑنا شروع کر دیا‘کرنل قذافی کی فورسز کا پلڑا بھاری ہو گیا اور انھوں نے سمندری شہروں کا قبضہ واپس لے لیا‘ عالمی برادری لیبیا پر نظریں جما کر بیٹھی تھی‘یہ کسی قیمت پر لیبیا میں امن نہیں چاہتی تھی‘ لیبیا کو یہاں تک پہنچانے کے لیے بہت سرمایہ کاری ہوئی تھی لہٰذا جوں ہی لیبیا میں گورنمنٹ کی رٹ واپس آنے لگی اقوام متحدہ نے لیبیا پر بمباری کا حکم جاری کر دیا‘ نیٹو فورس آگے بڑھی اور لیبیا پر بمباری شروع ہو گئی‘ بمباری نے لیبیا کی تمام فوجی تنصیبات‘ چھاؤنیاں‘ اسلحہ خانہ‘ گاڑیاں‘ سڑکیں‘ پل‘ ریلوے لائینز‘ نیول بیسز اور ایئرپورٹس تباہ کر دیے۔
فوج اور کرنل قذافی بار بار سیز فائر کا اعلان کرتے رہے لیکن نیٹو فورسز نے بمباری جاری رکھی‘ کرنل قذافی نے باغیوں کو مذاکرات کی دعوت بھی دی لیکن باغیوں نے یہ پیش کش مسترد کر دی‘ یہ سلسلہ 15 فروری 2011 کو شروع ہوا تھا اور اگست کے وسط تک پورا لیبیا کھنڈر بن چکا تھا بس دارالحکومت طرابلس کا قبضہ باقی تھا‘ اگست کے آخر میں باغیوں اور نیٹو فورسز نے اکٹھا حملہ کیا اور طرابلس بھی فتح ہو گیا‘ باغی کام یاب ہو گئے لیکن ان سے پہلے نیٹو فورسز طرابلس پہنچیں اور کرنل قذافی کے محلات اور خزانے پر قبضہ کر لیا اور یوں دنیا کا امیر ترین عرب ملک نیٹو کے قبضے میں چلا گیا‘ کرنل قذافی طرابلس سے غائب ہو گیا۔
اقوام متحدہ نے 16 ستمبر 2011کو نیشنل ٹرانزیشنل کونسل کو تسلیم کر لیا اور اسے حکومت بنانے کی اجازت دے دی لیکن اس وقت تک لیبیا میں کچھ نہیں بچا تھا‘ فوج مکمل طور پر ختم ہو چکی تھی‘ پولیس اور سول انتظامیہ کا کوئی وجود نہیں تھا‘ سڑکیں‘ پل‘ ایئرپورٹس اور بندر گاہیں ختم ہو چکی تھیں‘ اسکول‘ کالج اور یونیورسٹیاں بند تھیں‘ فیکٹریاں‘ بازار اور منڈیاں ختم ہو چکی تھیں‘ اسٹورز اور گودام عوام لوٹ چکے تھے‘ مجرم جیلوں سے فرار ہو چکے تھے۔
بجلی‘ پانی‘ گیس اور پٹرول کا نظام فنا ہو چکا تھا‘ پبلک ٹرانسپورٹ کا وجود نہیں تھا‘ فلائٹس اور بحری جہازوں کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا‘ عدالتوں کا وجود بھی ناپید ہو چکا تھا‘ ملک چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم تھا اور ہر حصے پر کوئی نہ کوئی مسلح ملیشیا قابض تھا اور وہ کسی دوسرے کو اس حصے میں داخل نہیں ہونے دے رہا تھا‘ ہزاروں لڑکیاں ریپ ہو چکی تھیں‘ ہزاروں لوگ زخمی تھے اور ان کے لیے ڈاکٹرز تھے اور نہ ادویات‘ لاشیں گلیوں میں پڑی پڑی گل رہی تھیں‘ خوراک کا بحران سنگین ہو چکا تھا اور بچے ماؤں کے پیٹ میں مر رہے تھے اور اگر خانہ جنگی سے کچھ بچ گیا تھا تو وہ نیٹو لے گئی تھی چناں چہ لیبیا ایک چوسی ہوئی ہڈی بن کر رہ گیا تھا۔
قومی حکومت نے تین سال حالات کنٹرول کرنے کی کوشش کی‘ ملیشیا ختم کر کے ملک کو دوبارہ اکٹھا کرنے کی سعی ہوئی‘ الیکشن بھی ہوئے‘ پارلیمنٹ بھی بنی لیکن دونوں بڑی سیاسی جماعتیں (جی این سی اور جے سی پی) کسی سیاسی میثاق پر راضی نہ ہو سکیں جس کے نتیجے میں 16 مئی 2014کو لیبیا میں دوسری سول وار شروع ہوگئی‘ یہ جنگ ساڑھے چھ سال جاری رہی اور اس نے لیبیا کا مکمل کچومر نکال دیا‘ ہزاروں لوگ مر گئے‘ لاکھوں غیر ملکی ورکرز واپس چلے گئے‘ لیبیا میں صرف مصر کے 20 لاکھ ورکرز کام کرتے تھے‘ وہ بھی واپس لوٹ گئے‘ ملک کی ایک تہائی آبادی تیونس میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئی‘ یہ لوگ اب وہاں مزدوری کرتے ہیں یا بھیک مانگتے ہیں۔
لیبیا دنیا میں تیل بیچنے والے 20 بڑے ممالک میں شامل تھا‘ یہ روزانہ 16 لاکھ بیرل تیل پیدا کرتا تھا لیکن خانہ جنگی کی وجہ سے یہ پیداوار 90 فیصد کم ہو گئی‘ لیبیا کی انویسٹمنٹ اتھارٹی (ایل آئی اے) دنیا کی بڑی سرمایہ کار اتھارٹی تھی‘ اس کے اکاؤنٹ میں 56 بلین ڈالر اور 100 ٹن سونا تھا‘ یہ بھی سرمائے کے ساتھ ختم ہو گئی‘ خانہ جنگی نے بچوں کی پرورش پر خوف ناک اثرات چھوڑے‘ اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق لیبیا کے بچے خوراک کی شدید کمی کا شکار ہیں اور اگلی نسلیں دہائیوں تک لاغر اور بیمار ہوں گی‘ ملک میں ہزاروں کی تعداد میں پرائیویٹ جیلیں بن چکی ہیں اور ان میں لاکھوں لوگ قید ہیں‘ انھیں تاوان کے لیے پکڑ کر بند کر لیا جاتا ہے۔
بے شک کرنل قذافی ڈکٹیٹر تھا اور اس نے 42 سال کے اقتدار میں قوم کو شخصی آزادیوں سے محروم رکھا تھا لیکن اس کے باوجود اس کے دور میں امن‘ خوش حالی‘ لاء اینڈ آرڈر اور سسٹم تھا‘ شہریوں کو روزگار بھی مل رہا تھا اور خوراک‘ علاج اور تعلیم بھی‘ ملک میں ہر چیز کی فراوانی تھی لیکن قوم شخصی آزادیوں کی تلاش میں دنیا کی تمام نعمتوں سے محروم ہو گئی اور یہ سارا کھیل 13 جنوری 2011 کو بیدا (Bayda) شہرسے شروع ہوا تھا‘ اس دن ہجوم نے پولیس کی ایک کار کو آگ لگا دی اور اس کے بعد پھر پورے ملک میں آگ لگ گئی‘ عوام کے احتجاج کو بیدا شہر سے بن غازی اور پھر وہاں سے طرابلس پہنچتے دیر نہ لگی یہاں تک کہ عوام نے کرنل قذافی کو سیرت شہر میں مورچے سے نکال کر ذلیل کر کے قتل کر دیا‘ یہ جنگ اصولی طور پر کرنل قذافی کی موت کے بعد ختم ہو جانی چاہیے تھی لیکن سول وار کے بارے میں کہا جاتا ہے یہ تنور کی آگ ہوتی ہے۔
یہ اگر ایک بار تنور سے باہر آ جائے تو پھر یہ پورے جنگل‘ پورے گاؤں کو راکھ بنائے بغیر ختم نہیں ہوتی اور لیبیا میں بھی یہی ہوا‘ انقلابیوں نے وہاں ’’فرد واحد غدار‘‘ کا نعرہ لگایا اور اس کے بعد پورا ملک جل کر راکھ ہو گیا۔ آج لیبیا کے بارے میں کہا جاتا ہے اس ملک کو کرنل قذافی کے لیول تک واپس لانے کے لیے بھی 50 سال چاہییں چناں چہ انقلابیوں نے انقلاب لاتے لاتے پورے ملک کا جنازہ نکال دیا اور اس کھیل میں کرنل قذافی کے ساتھ ساتھ ملک میں آگ لگانے والوں کے ہاتھ بھی کچھ نہیں آیا‘ وہ بھی اندھی گولیوں کا نشانہ بن گئے۔
اس ملک کی بربادی سے صرف ان ملکوں نے فائدہ اٹھایا جنھیں لیبیا کے اسلحے‘ لیبیا کے پٹرول اور لیبیا کی دولت سے خطرہ تھا‘ وہ ملک یہ تینوں چیزیں لے گئے اور پیچھے قبریں‘ زخمی اور لاوارث لوگ رہ گئے اور یہ لوگ آج آسمان کی طرف جھولی اٹھا کر اللہ سے معافی مانگ رہے ہیں‘ اپنی حماقت پر آنسو بہا رہے ہیں لیکن وقت کا پہیہ بہت آگے جا چکا ہے۔
مجھے محسوس ہو رہا ہے ہم بھی تنور کی آگ کو تنور سے باہر لا رہے ہیں‘ ہم بھی یہ انجام کاشت کر رہے ہیں‘ ہم بھی لیبیا بننا چاہتے ہیں۔
Source: Express News
Must Read Urdu column Hum bhi By Javed Chaudhry