بکرا چور – حامد میر

hamid-mir

ایک زمانے میں ہمیں مرغی چوروں سے شدید نفرت تھی۔ ہماری امی نے گھر میں مرغیاں پال رکھی تھیں ان مرغیوں کو ذبح نہیں کیا جاتا تھا کیونکہ انہیں گھر کے ایک فرد کا مرتبہ حاصل تھا۔ ایک چھوٹا بھائی تو زیادہ وقت مرغیوں کے ساتھ ان کے ڈربے میں گزارتا تھا اسے ان مرغیوں کو سیر کرانے کا بہت شوق تھا۔ وہ جب بھی ان مرغیوں کو سیر کرانے گھر سے باہر لیکر جاتا تو کوئی نہ کوئی مرغی یا مرغا غائب ہو جاتا۔ چوری شدہ مرغی کی تلاش کے دوران جب اس کے بال و پر مل جاتے تو ہمیں پتہ چل جاتا کہ ہماری مرغی کو گھر کے آس پاس ہی ذبح کر دیا گیا ہے اور ہم مرغی چور کو کوس کر خاموش ہو جاتے۔ کئی سال کے بعد ہمارے والد مرحوم کے ایک شاگرد نے ہنستے مسکراتے ہوئے مجھے بتایا کہ وہ اکثر ہماری مرغیاں چوری کر لیتا تھا اور جب ہم اپنی مرغی کے تلاش کیلئے بھاگ دوڑ شروع کرتے تو وہ بھی ہمارے ساتھ مل کر مرغی تلاش کرتا اور مرغی چور کو خوب برا بھلا کہتا۔ یہ مرغی چور صاحب بعد میں بہت بڑے بیوروکریٹ بن گئے۔ ان صاحب نے 1993ء کے الیکشن میں بلوچستان کے ایک بڑے سیاست دان کو دھاندلی سے الیکشن جتوایا اور ریٹائرمنٹ کے بعد پورا قصہ مجھے سنایا کہ کس طرح تمام رات بیلٹ پیپرز پر ٹھپے لگا لگا کر ان کا سٹاف تھک گیا لیکن صبح ہونے سے پہلے پہلے وہ مینڈیٹ چوری کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ مرغی چوری سے مینڈیٹ کی چوری کا سفر مکمل کرنے کے بعد یہ صاحب آئین و قانون کی بالادستی کے بہت بڑے علمبردار بن چکے ہیں۔ میں اکثر ان صاحب کیلئے دعاگو رہتا ہوں کیونکہ آج کل وہ بڑی اچھی اچھی باتیں کرتے ہیں۔ میں جب بھی ان کی گفتگو میں قرآن و حدیث کے حوالے سنتا ہوں تو نجانے کیوں مجھے اپنی چوری شدہ مرغیاں یاد آ جاتی ہیں۔ میں یہ بھی سوچتا ہوں کہ پہلے تو صرف مساجد میں وعظ و نصیحت ہوتا تھا اب تو سوشل میڈیا کے ذریعے صبح و شام وعظ و نصیحت ہمارے تک پہنچتا ہے لیکن ہم دن بدن اخلاقی زوال کا کیوں شکار ہیں؟ مرغی چور بہت پیچھے رہ گئے اب تو ہم بکرے چوری کرنے والوں سے سخت پریشان ہیں بلکہ سخت خوفزدہ ہیں۔

عید قربان کے قریب آتے ہی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بکرا چوری کی وارداتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ ہم نے ایک مذہبی تہوار کو بھی لوٹ مار کا سنہری موقع بنا دیا ہے۔ پاکستان میں اسلام کا وہی حال کر دیا گیا ہے جو جمہوریت کا ہے۔ ہمارے بزرگوں نے ایک طویل سیاسی جدوجہد کے ذریعے یہ ملک اس لئے بنایا تھا کہ یہاں ہمیں آزادی ملے گی اور ہم اپنے اپنے عقیدے اور روایات پر آزادانہ عمل کریں گے۔ افسوس کہ ہم نے اس ملک میں پہلے تو سیاست کو ایک گالی بنایا اور پھر عقیدے کو نفرتیں پھیلانے کے کاروبار میں تبدیل کر دیا۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ جب پاکستان قائم ہوا تو رمضان المبارک کا مقدس مہینہ تھا۔ اب جب بھی رمضان آتا ہے تو پاکستان کے مسلمان مہنگائی کی مصیبت میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ عیدالفطر کے قریب ڈکیتیاں بڑھ جاتی ہیں اور عید قربان کے قریب بکرا چوری کی وارداتیں بڑھ جاتی ہیں۔ گن پوائنٹ پر بکرا چھیننا تو بڑی عام سی بات ہے اب تو بکروں سے بھرے ہوئے ٹرک بھی چھین لئے جاتے ہیں۔ لاہور میں پولیس نے بکرا چوروں کے ایک گینگ کو گرفتار کر کے بہت سے چوری شدہ بکرے برآمد کر لئے۔ بکرا چوروں نے بتایا کہ وہ ایک شہر سے بکرے چوری کر کے دوسرے شہر میں فروخت کر دیتے تھے۔ قربانی کے جانوروں کی خرید وفروخت میں قانون اور ضابطے کابہت کم خیال رکھا جاتا ہے۔ قربانی کی کھال کی رسید مل جاتی ہے لیکن قربانی کے جانور کی خرید و فروخت میں رسید نہیں ہوتی اور جہاں رسید نہیں ہوتی وہاں ٹیکس کی وصولی بھی نہیں ہوتی۔ قربانی کے جانوروں کی خرید وفروخت کو کسی قانون کے تابع بنا بھی دیا جائے تو بکرا چوری تھوڑی کم ہو جائے گی لیکن لوٹ مار کم نہیں ہو گی۔ قانون کا احترام تو دور کی بات ہمارے دلوں سے خوف خدا ختم ہوتا جا رہا ہے۔ آپ سوچیں کہ اگر آپ مسلمان ہیں تو کیا آپ گن پوائنٹ پر کسی دوسرے مسلمان سے قربانی کا جانور چھینیں گے؟ کیا اس واردات کے بعد آپ عید قربان کی صبح اپنے اللہ کے سامنے سجدہ کرنے کی ہمت کر سکیں گے؟ شائد آپ یہ سب نہیں کر سکتے لیکن آپ کو تسلیم کرنا ہو گا کہ آپ کے آس پاس ایسے مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد موجود ہے جو صرف بکرا چوری میں نہیں بلکہ ہر طرح کی لوٹ مار میں ملوث ہے اور انہیں اپنے اعمال پر کوئی ندامت نہیں۔ سیاست، جمہوریت، صحافت، عدالت، تجارت اور سرکاری دفاتر سے لیکر کھیل کے میدانوں تک زوال ہی زوال نظر آ رہا ہے۔ ہم مہنگے مہنگے جانور خرید کر انکی قربانی تو کر دیتے ہیں لیکن ایک بہت سستی سی قربانی نہیں کرتے۔ یہ سستی سی قربانی ہمیں ایک مہنگی قربانی سے زیادہ مشکل نظر آتی ہے۔ اس سستی قربانی کا نام ہے انا کی قربانی۔ انا پرستوں کے اس معاشرے میں اسلام اور جمہوریت دونوں خطرے میں ہیں چور اور چوکیدار کے گٹھ جوڑ نے قانون کو ایک مذاق بنا دیا ہے۔ یہاں آئین شکنی کو حب الوطنی کا نام دیکر عدالتوں کے احکامات کو بوٹ کی نوک پر لکھ دیا جاتا ہے۔ جہاں عدالت کےساتھ عداوت کو قومی سلامتی کا تقاضا قرار دیکر ججوں کے بیڈ رومز میں خفیہ کیمرے نصب کر دیئے جائیں وہاں مایوسیوں کا راج قائم ہو جاتا ہے۔ آج کل کہا جا رہا ہے کہ سیاسی استحکام کے بغیر معاشی استحکام نہیں آئے گا اس لئے سیاسی استحکام کیلئے سیاست دان آپس میں مذاکرات کریں ۔سب جانتے ہیں کہ جن کے پاس طاقت ہے وہ مذاکرات کو ’’مذاق رات‘‘ میں تبدیل کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ انا پرست سیاست دان مذاکرات کے نام پر ایک دوسرے سے دھوکہ کریں گے۔ تمام مسائل کا ایک ہی حل ہے اور وہ یہ کہ پاکستان میں آئین و قانون کی بالا دستی قائم کی جائے۔ آئین و قانون کے ساتھ آج کل وہی ہو رہا ہے جو قربانی کے جانوروں کے ساتھ ہو رہا ہے۔ ہماری عدالتیں آئین و قانون کے مطابق ایک فیصلہ دیتی ہیں اور عدالت کے باہر آئین و قانون کو گن پوائنٹ پر اغوا کر لیا جاتا ہے۔ آئین و قانون نافذ کرنے والوں اور بکرا چوروں کے کردار میں فرق ختم ہو رہا ہے ان بکرا چوروں سے نجات کیلئے قوم کو متحد ہونا ہو گا اور انہیں انصاف کے کٹہرے میں لانا ہو گا۔ مذاکرات صرف اورصرف بکرا چوروں کے احتساب کیلئے کئے جائیں تو کامیاب ہو سکتے ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

Source: Jung

Must Read Urdu Column Bakra Chor by Hamid Mir

Leave A Reply

Your email address will not be published.