رائے – جاوید چوہدری

Javed Chaudhry

مجھے بے وقوفی کا پہلا احساس 1990ء میں ہوا‘ 1993ء میں یہ احساس شدت اختیار کر گیا مگر دوسرے احساس کی نوعیت پہلے سے یکسر مختلف تھی‘ میں 1990ء میں بہاولپور میں پڑھتا تھا‘ میرا ایک دوست راولپنڈی میں رہتا تھا‘ یہ دوست مجھ سے عمر میں سینئر بھی تھا‘ شادی شدہ بھی اور بال بچوں والا بھی‘ میں سردیوں کے دنوں میں اس سے ملاقات کے لیے راولپنڈی آ گیا‘ ہمارا پروگرام تھا ہم دونوں چند دن راولپنڈی رہیں گے‘ اس کے بعد برف باری دیکھنے کے لیے مری چلے جائیں گے اور میں ایک ہفتہ گزار کر واپس بہاولپور آ جائوں گا‘ میں دس گھنٹے کے طویل سفر کے بعد شام کے وقت راولپنڈی پہنچا‘ شہر شدید سردی کی لپیٹ میں تھا‘ میں رکشہ لے کر دوست کے گھر پہنچ گیا‘ اس نے دروازے پر میرا استقبال کیا‘ میں گرم جوشی سے اس سے لپٹ گیا‘ وہ بھی مجھے گلے ملا لیکن میں نے محسوس کیا اس کے معانقے میں گرم جوشی نہیں‘ وہ مجھے اپنی بیٹھک میں لے گیا‘ اس نے چائے کا بندوبست کیا اور میرے سامنے بیٹھ گیا‘ میں اس سے بلا تکان گفتگو کرتا رہا مگر وہ گفتگو میں میرا ساتھ نہیں دے رہا تھا‘ وہ بات چیت کے دوران کھو جاتا تھا‘ میں اس کی غیر حاضر دماغی پر خاموش ہو جاتا تو اسے بڑی دیر تک میری چاپ کا اندازہ نہیں ہوتا تھا‘ اس نے میرے سفر کے بارے میں بھی نہیں پوچھا‘ میرے لیے اس کا یہ ٹھنڈا رویہ پریشان کن تھا‘

میری پریشانی اس وقت مزید بڑھ گئی جب اس نے مجھ سے پوچھا ’’ آپ خیریت سے راولپنڈی آئے ہیں‘‘ میرے لیے اس کا سوال بم ثابت ہوا کیونکہ میں اس کی دعوت پر راولپنڈی آیا تھا‘ میں نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا‘ اس نے دوسرا سوال پوچھا ’’ آپ کتنے دن راولپنڈی میں ہیں اور کہاں رہیں گے‘‘ میری پریشانی انتہا کو چھونے لگی کیونکہ میں اس کے گھر ٹھہرنے کے لیے آیا تھا‘ میرا سامان تک اس کے ڈرائنگ روم میں پڑا تھا‘ میں پریشانی کے عالم میں اسے دیکھتا رہا اور وہ کھوئے ہوئے انداز میں مجھے گھورتا رہا‘ مجھ سے کوئی بات نہ بن پائی تو میں نے جواب دیا ’’ میں ویسے ہی ایک دن کے لیے راولپنڈی آیا ہوں‘ کل واپس چلا جائوں گا اور ہوٹل میں رہوں گا‘‘ اس نے اثبات میں سر ہلایا اور نہایت روکھے انداز میں کہا ’’ آپ اگر مزید ایک دن رک جائیں تو ہم کھانا اکٹھا کھائیں گے‘‘ میں نے غصے سے اس کی طرف دیکھا‘ چائے کا کپ میز پر رکھا‘ اپنا بیگ اٹھایا اور بیٹھک سے باہر نکل گیا‘ وہ اپنی کرسی پر بیٹھ کر مجھے جاتے ہوئے دیکھتا رہا‘ اس نے مجھے خدا حافظ تک کہنا مناسب نہ سمجھا‘ میں شدید غصے میں تھا‘ میں وہاں سے مری روڈ پر آیا‘ وہاں سستاسا ہوٹل لیا‘ نیند کی گولی کھائی اور گہری نیند سو گیا۔

میں اگلے دن بہاولپور واپس آ گیا مگر مجھے دوست کے رویے نے اندر سے بری طرح توڑ دیا‘ میں اس شخص کو دنیا کا بدتمیز ترین‘ غیر مہذب ترین اور مطلبی سمجھنے لگا‘ میں اپنے آپ کو بے وقوف بھی سمجھتا تھا اور اس بے وقوفی پر اپنے اوپر لعن طعن بھی کرتا تھا‘ میں دو ڈھائی سال تک اپنے ملنے والوں کو یہ واقعہ سناتا رہا اور لوگ مجھ سے ہمدردی اور اس شخص سے نفرت کرتے رہے‘ آپ بھی اگر اس صورتحال کا تجزیہ کریں تو آپ کو بھی مجھ سے ہمدردی اور اس شخص سے نفرت ہو جائے گی۔ میں نے اس واقعے کے بعد فیصلہ کیا میں کسی دوست‘ عزیز رشتے دار اور جاننے والے کے ساتھ سیر تفریح کا کوئی پروگرام نہیں بنائوں گا‘ میں اپنے پروگرام کا اکیلا ممبر ہوں گا اور اسے اکیلا ہی انجوائے کروں گا‘ دوسرا میں کبھی کسی رشتے دار یا دوست کے گھر نہیں رہوں گا‘ میں ہوٹل میں کمرہ لوں گا اور اس کے بعد ملاقات کے لیے دوست یا رشتے دار کے گھر جائوں گا‘ میں اپنا یہ معمول 23 سال سے نبھا رہا ہوں اور زندگی خوشی اور مسرت سے گزار رہا ہوں لیکن یہ خوشی اور مسرت اس کالم کا موضوع نہیں‘ اس کالم کا موضوع میرا وہ دوست ہے جس نے مجھے راولپنڈی بلا کر شدید سردی میں بے یارومدد گار چھوڑ دیا تھا‘ میں طویل عرصے تک اپنے دل میں اس دوست کے خلاف نفرت پال کر پھرتا رہا لیکن پھر اس نفرت کا عجیب ڈراپ سین ہوا‘ میں یونیورسٹی سے فارغ ہو کر صحافت میں آگیا اور ایک دن وہ دوست ہمارے ایک مشترکہ دوست کے ساتھ میرے دفتر آ گیا‘ میں اسے دیکھتے ہی غصے سے ابل پڑا مگر وہ میرے گلے لگا اور نرم آواز میں بولا ’’آپ اپنے غصے کو چند منٹ کے لیے سائیڈ پر رکھ دو اور میری بات سن لو‘ اگر تم اس کے باوجود مجھے غلط سمجھو تو پھر تم اپنی نفرت کا سلسلہ جاری رکھ لینا‘ میں نے غصے سے اس کی طرف دیکھا‘ وہ بولا ’’ میں اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا ہوں‘ میری چھ بہنیں تھیں‘ والدین نے میری شادی 20 سال کی عمر میں کر دی‘

میرے والدین پوتا چاہتے تھے لیکن شاید اللہ کو منظور نہیں تھا‘ میرے ہاں اوپر تلے تین بیٹیاں پیدا ہو گئیں مگر میں مایوس نہ ہوا‘ میں اپنے والدین کی خواہش پوری کرنا چاہتا تھا‘ میں 25 سال کی عمر میں چوتھی بار باپ بن گیا ‘ اللہ تعالیٰ نے مجھے اولاد نرینہ سے نوازا‘ میرا پورا خاندان خوش ہو گیا‘ میرا بیٹا خاندان بھر کی گود میں پل کر دو سال کا ہوا لیکن پھر اسے تیز بخار ہوا اور وہ میری گود میں بیٹھا بیٹھا فوت ہو گیا‘ میرے پورے خاندان کی جان نکل گئی‘‘ وہ خاموش ہوا اور میری طرف دیکھنے لگا‘ میرا غصہ ہمدردی میں بدلنے لگا‘ اس نے پوچھا ’’ جاوید صاحب آپ جانتے ہیں وہ بچہ کس دن فوت ہوا تھا‘‘ میں خاموشی سے اس کی طرف دیکھتا رہا ۔ وہ بولا’’ وہ بچہ عین اس وقت فوت ہوا جب آپ رکشے سے اپنا سامان اتاررہے تھے‘‘ میری کنپٹی میں آگ لگ گئی‘ اس نے گفتگو کا سلسلہ جاری رکھا ’’ میرے پاس اس وقت دو آپشن تھے‘ میں آپ کو اپنے دکھ میں شریک کرلیتا‘ آپ بھی ہمارے ساتھ سوگوار ہوجاتے اور آپ کی چھٹیاں خراب ہوجاتیں‘ دوسرا‘ میں آپ سے یہ خبر چھپا لیتا‘ آپ کو ہوٹل جانے پر مجبور کردیتا‘ آپ مجھ سے وقتی طور پر ناراض ہو جاتے لیکن آپ کی چھٹیاں اور وقت برباد نہ ہوتا‘ میں دوسرے آپشن پر چلا گیا‘ میں نے اپنے خاندان سے کہا میرا مہمان آیا ہے آپ کے رونے کی آواز بیٹھک تک نہیں جانی چاہیے‘ میں اسے واپس بھجواتا ہوں اور ہم اس کے بعد اپنے عزیزوں اور رشتے داروں کو اطلاع دیں گے‘‘وہ رکا‘ اس نے لمبی سانس لی اور بولا’’ میں نے آپ کے لیے ان حالات میں چائے کیسے تیارکروائی آپ اندازہ نہیں کرسکتے‘ میری بیوی‘ میری ماں اور میری بہنیں اندر منہ پر سرہانے رکھ کر رورہی تھیں اور میں آپ کے پاس بیٹھا تھا‘ میں بار بار اندر جاکر انھیں چپ کرانے کی کوشش بھی کررہا تھا‘ میں اس وقت گہرے صدمے میں تھا چنانچہ مجھے آپ کی باتیں سمجھ نہیں آرہی تھیں‘ آپ جب ناراض ہوئے اور آپ نے اپنا سامان اٹھایا تو میری ٹانگیں بے جان ہو گئیں‘ میںآپ کے ساتھ اُٹھ کرباہر تک نہ جاسکا‘ میں کرسی پر بیٹھا رہا‘ آپ جوں ہی گلی سے باہر نکلے‘ میرے اندر سے چیخ نکلی اور اس کے بعد میرے پورے خاندان نے ماتم شروع کردیا‘ یہ گہرا صدمہ تھا‘ اس صدمے نے پہلے میری ماں کی جان لی اور اس کے چند ماہ بعد میرے والد بھی فوت ہوگئے‘ پھر میری بیوی بیمار ہوگئی اور میں پے درپے صدموں کا شکار ہوتا چلا گیا‘ میں اب ذرا سا سنبھلا ہوں تو میں اپنی پوزیشن کلیئر کرنے کے لیے آپ کے پاس آگیا‘‘۔ وہ خاموش ہوا تو میری آنکھیں برسنے لگیں‘ میں اس کے صبر‘ اس کی ہمت پر حیران تھا‘ وہ اپنے اکلوتے بیٹے کی نعش اندر چھوڑ کرمیری خدمت کرتا رہا اور میں ڈھائی سال تک اسے مطلبی‘ جاہل‘ ظالم اور بدتمیز سمجھتا رہا‘ میں اس سے نفرت کرتا رہا اور مجھے اس وقت دوسری بار اپنے بے وقوف ہونے کا احساس ہوا۔

ہم دوسروں کے بارے میں اتنی دیر میں رائے قائم کرلیتے ہیں جتنی دیر میں مرغی کا انڈا بوائل نہیں ہوتا‘ دنیا کے ہر انسان کے چوبیس پہلو ہوتے ہیں اور یہ پہلو ہر دس پندرہ بیس منٹ بعد تبدیل ہوجاتے ہیں مگر ہم جس پہلو کو دیکھتے ہیں ہم اسے حتمی سمجھ کر رائے قائم کرلیتے ہیں اور اس عارضی رائے کی بنیاد پر اس پوری شخصیت کو رد کردیتے ہیں یا پھر اسے اپنا محبوب بنالیتے ہیں‘ ہم کسی شخص کو کسی کمزور لمحے میں کسی سے لڑتے ہوئے دیکھتے ہیں تو ہم اسے لڑاکا یا جھگڑالو سمجھ لیتے ہیں‘ کسی کو بھاؤ تائو کرتے دیکھتے ہیں تو اسے کنجوس، بخیل یا جھوٹا سمجھ لیتے ہیں ‘ کسی کو کسی خاتون کی تعریف کرتے دیکھتے ہیں تو اسے ٹھرکی سمجھ لیتے ہیں اور اگر کوئی اہم شخص کسی وقت ہمارے سلام کا جواب نہ دے یا پھر ہم سے جھک کر نہ ملے یا پھر ہمارا فون بند کردے تو ہم اسے منافق کا ٹائٹل دے دیتے ہیں‘ہم اسے مغرور یا انا پرست سمجھ لیتے ہیں یا ہم کسی کو کسی حادثے کے وقت فرار ہوتے دیکھ لیں تو ہم اسے بزدل یا کمزور لوگوں کی فہرست میں ڈال دیتے ہیں اوریہ بھول جاتے ہیں فقط یہ ایک لمحہ ہے ‘ یہ پوری شخصیت یا پوری زندگی نہیں‘ اللہ تعالیٰ انسان کوموت کے دھانے تک توبہ کرنے‘ خود کو ٹھیک کرنے اور اپنی غلطیوں کی اصلاح کا موقع دیتا ہے لیکن ہم دوسروں کی زندگی کا ایک لمحہ، ایک پہلو دیکھ کر نہ صرف رائے قائم کر لیتے ہیں بلکہ اس رائے کو حتمی بھی سمجھ بیٹھتے ہیں اور یہ فراموش کر بیٹھتے ہیں اس ایک لمحے کے پیچھے خداجانے کتنی خوفناک کہانیاں چھپی ہوں‘ یہ شخص ہو سکتا ہے ابھی اپنے کسی چاہنے والے کو دفنا کر آیا ہو اور اپنے حواس میں نہ ہو‘ میں آج بھی جب کسی کے بارے میں رائے قائم کرنے لگتا ہوں تومجھے میرا وہ دوست یاد آجاتا ہے اور میں اپنی رائے کی چاردیواری کھلی چھوڑ دیتا ہوں‘ میں اس پر دروازہ اور تالہ نہیں لگاتا کیونکہ ہو سکتا ہے میری رائے کی دیوار کے پیچھے کوئی اور کہانی چھپی ہو اور یہ کہانی مجھے مزید بے وقوف ثابت کر دے۔

Source: Express News

Must Read Urdu column RAi By Javed Chaudhry

Leave A Reply

Your email address will not be published.