چراغ حسن حسرت بہت بگڑے ہوئے تھے لیکن میرے کہنے پر مان گئے کہ ’’اگر تاثیر باز آ جائیں تو امروز میں کچھ نہ لکھا جائے گا‘‘۔ پھر میں نے تاثیر صاحب سے کہا کہ ’’آپ اتنے عالم و فاضل آدمی، کالج کے پرنسپل، اخبار نویس تو اپنی پگڑی رکھتے…
عبد المجید سالک لکھتے ہیں:
1927ءکا ذکرہے ایک دن ایک بالابلند، گندمی رنگ، کالی اور گھنی مونچھوں والا، آدمی سوٹ پہنے ہوئے دفتر ’’انقلاب‘‘ میں مجھ سے ملنے آیا اور کہنے لگا میں چراغ حسن حسرت ہوں۔میں اچھل کر یوں بغل گیر ہوا گویا ہم بچپن…
کبھی کبھی یہ خیال اداس کر دیتا ہے کہ آبادی تو بڑھتی جا رہی ہے لیکن شہر بےرونق اور خالی خالی سا لگتا ہے۔ اب یہاں نہ منیر نیازی ہے، نہ بابا ظہیر کاشمیری، نہ کبھی احمد ندیم قاسمی دکھائی دیتے ہیں، نہ احمد راہی نظر آتے ہیں۔ نہ کوئی قتیل…
خوش بختی کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ بہت سے بھلے لوگ آپ کو کتابوں جیسے تحفے کے قابل سمجھتے ہیں۔ اچھے خاصے سائز کی لائبریری چھوٹی پڑنے لگی ہے۔ جس کے نتیجہ میں بہت سی کتابیں ’’بیلی پور‘‘ والے گھر کی سٹڈی میں شفٹ کرنا پڑیں۔ ہفتہ کے روز…
سادگی اور معصومیت کی انتہا ہے کہ ہم نے نواز شریف کے ایک بےضرر سے سفر کو بھی نہ صرف خبر بنا دیا بلکہ اس میں سنسنی بھی بھر دی۔ نواز شریف نے اگر بیٹوں کے ساتھ ’’بیماری‘‘ کی حالت میں لندن سے 425کلو میٹر دور نیلسن کے علاقہ میں کسی فیکٹری کا…
سیاسی بابوں، انتظامی بابوئوں، روحانی عاملوں، قلم بدست مفکرین سبھی بہت کچھ سوچتے، سمجھتے ہیں۔ سکینڈے نیوین ماڈل سے لے کر چائنا ماڈل تک، مہاتیر کے دیس سے لے کر سوئٹزر لینڈ ماڈل تک، سب ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔ ریاست مدینہ کی بات میں نے اس…
کیسی دلچسپ پہیلی ہے کہ ہوتا ہواتا کچھ بھی نہیں حالانکہ ہمارے وطن میں لاتعداد ارسطو، افلاطون، جان لاک، روسو، ایڈمنڈبرک، ہیگل، سٹوارٹ مل اور ہیرلڈ لاسکی نہ صرف پاکستان کے تمام تر ’’مسائل‘‘ سے بخوبی واقف ہیں بلکہ ان کے پاس ہر مسئلہ کا…