آج کے بعد – جاوید چوہدری
یہ کہانی 5 دسمبر 2019 کو شروع ہوئی‘ پاکستان مسلم لیگ ن کی قیادت نے آٹھ سینئر لیڈروں کو لندن طلب کر لیا‘ یہ لیڈر خواجہ محمد آصف‘ احسن اقبال‘ پرویز رشید‘ امیر مقام‘ رانا تنویر‘ مریم اورنگزیب‘ خرم دستگیر اور سردار ایاز صادق تھے‘ یہ لوگ 6 دسمبر کی شام برطانیہ پہنچ گئے‘ میاں شہباز شریف نے سات دسمبر کو ان لوگوں کوماروش گارڈن میں لنچ دیا‘لنچ کے بعد ایون فیلڈ میں ان کی میاں نواز شریف سے ملاقات ہونی تھی۔
آرمی ایکٹ میں ترمیم کے لیے سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ ابھی نہیں آیا تھا تاہم حکومت نے اپوزیشن سے رابطے شروع کر دیے تھے‘ یہ لوگ قیادت سے آئندہ کا لائحہ عمل پوچھنا چاہتے تھے‘ قیادت بھی انھیں اپنے فیصلے سے مطلع کرنا چاہتی تھی‘ شاہد خاقان عباسی نے جیل سے میاں نواز شریف کے لیے خط تحریر کیا تھا اور اس خط میں اپنی رائے دی تھی‘ ان کا خیال تھا ہمیں اس ترمیم کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔
یہ ہماری بہت بڑی تاریخی غلطی ہو گی‘ حکومت کو یہ کام خود کرنے دیں‘ شاہد خاقان عباسی نے خط میں اپنے دور حکومت کے چند واقعات اور چند ڈویلپ منٹس کا ذکر بھی کیا تھا‘ میاں شہباز شریف نے لنچ کے دوران تمام لوگوں کی رائے لی‘ ارکان کا خیال تھا ہمیں صاف انکار کر دینا چاہیے‘ میاں شہباز شریف متفق نہیں تھے‘ ان کا خیال تھا صاف جواب نہیں دینا چاہیے‘ ہمیں درمیان کا کوئی راستہ نکالنا چاہیے‘ خرم دستگیر نے مشورہ دیا ’’ہم ایکسٹینشن دے کر الیکشن لے سکتے ہیں‘‘ ہم حکومت کو آفر کر دیں ہم قانون سازی میں آپ کی مدد کرتے ہیں لیکن آپ پہلے مڈٹرم الیکشن کا اعلان کر دیں‘ میاں شہباز شریف نے یہ تجویز بھی لکھ لی‘ یہ تمام لوگ اس کے بعد میاں نواز شریف کے پاس چلے گئے‘اسحاق ڈار بھی ان میں شامل تھے‘ شہباز شریف نے بڑے بھائی کو تمام ارکان کی رائے سے مطلع کیا اور پھر فیصلہ ان پر چھوڑ دیا‘ میاں نواز شریف نے اشارہ کیا اور حسین نواز قرآن مجید لے کر آ گئے۔
میاں نواز شریف نے سب سے کہا‘ آپ قرآن مجید پر ہاتھ رکھ کر وعدہ کریں اس کمرے کی گفتگو باہر نہیں جائے گی‘ اسحاق ڈار اور میاں شہباز شریف سمیت تمام نے قرآن مجید پر ہاتھ رکھ دیا‘ میاں نواز شریف نے اس کے بعد ترمیم کی غیرمشروط حمایت کا حکم دے دیا‘ صرف خرم دستگیر واحد شخص تھا جس نے اس فیصلے پر اعتراض کیا‘ اس کا کہنا تھا ہم غلطی کر رہے ہیں‘ ہمیں اپنی ترامیم بھی ایوان میں پیش کرنی چاہییں‘ میاں نواز شریف نے انھیں ترامیم کا ڈرافٹ تیار کرنے کا حکم دے دیا‘ خواجہ آصف کو پاکستان مسلم لیگ ن کے ارکان کو قیادت کے فیصلے سے مطلع کرنے کی ذمے داری سونپ دی گئی‘ خرم دستگیر نے اگلے دن چار ترامیم نواز شریف کو بھجوا دیں‘ میاں صاحب نے ان ترامیم کی وجوہات معلوم کیں‘ خرم دستگیر نے وجوہات کا پیپر بھی لکھ کر بھجوا دیا لیکن میاں نواز شریف کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا‘ یہ آٹھوں سینئر ارکان چند دن بعد پاکستان واپس آ گئے۔
میاں نواز شریف کا فیصلہ پاکستان پیپلز پارٹی‘ جے یو آئی( ایف) اور حاصل بزنجو کی پارٹی تک پہنچا تو تینوں نے اسے اپوزیشن اتحاد توڑنے کی سازش قرار دے دیا‘ ان کا کہنا تھا یہ فیصلہ متحدہ اپوزیشن نے کرنا تھا‘ میاں نواز شریف اکیلے فیصلہ کرنے والے کون ہوتے ہیں لیکن ن لیگ نے اس اعتراض کا کوئی جواب نہیں دیا‘ 16دسمبر2019کو سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ آ گیا‘ حکومت نے سات جنوری کو ترمیم کا فیصلہ کر لیا‘ پرویز خٹک نے اپوزیشن سے رابطہ کیا‘ میاں برادران نے پارٹی کو غیر مشروط حمایت کا حکم دے دیا‘ پاکستان پیپلز پارٹی نے ترمیم سے ایک دن قبل ترامیم کی تیاری شروع کر دی لیکن 7 جنوری کو ترمیم کے دن صبح آصف علی زرداری کی طرف سے پیغام آ گیا اور نوید قمر نے ترامیم کا فیصلہ واپس لے لیا‘ 7 جنوری کو قومی اسمبلی نے آرمی ایکٹ میں ترمیم کی منظوری دے دی اور 8 جنوری کو سینیٹ سے بھی ترمیم کی منظوری آگئی یوں یہ باب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا۔
میں بات آگے بڑھانے سے پہلے آرمی ایکٹ میں ترمیم پر اپنی رائے دیتا چلوں‘ آئین میں سقم اورگرے ایریا تھا‘ سپریم کورٹ نے اس کی نشان دہی کی‘ پارلیمنٹ نے اپنا اختیار استعمال کیا اور یہ ترمیم ہو گئی جس سے کم از کم آئینی کنفیوژن ختم ہو گیا‘ وزیراعظم اور صدر کے اختیارات بھی کلیئر ہو گئے اور سروسز چیفس کی سروسز کا ابہام بھی دور ہو گیا چناں چہ یہ مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نبٹ گیا‘ یہ اچھا ہوا لیکن اس کے باوجود پاکستان مسلم لیگ ن کے رویے نے پورے ملک کو حیران کر دیا‘ پارٹی کے اپنے وفادار ارکان اور کارکن تک حیرت سے دائیں بائیں دیکھنے لگے‘ یہ سات دن گزرنے کے باوجود شرمندہ شرمندہ پھر رہے ہیں۔
مجھے خود میاں نواز شریف کے فیصلے نے حیران بھی کر دیا اور شرمندہ بھی‘ پارٹی اس سے قبل ہمیشہ اس قسم کے کمپرومائز کو میاں شہباز شریف کے کھاتے میں ڈال دیتی تھی لیکن اس بار یہ فیصلہ میاں نواز شریف نے خود کیا اور دس سینئر لوگوں کی موجودگی میں کیا‘ خواجہ آصف کوپارٹی کے ایم این ایز تک پیغام کی ذمے داری بھی میاں نواز شریف نے خود سونپی تھی چناں چہ اس بار سمجھوتے میں کوئی ابہام‘ کوئی غلط فہمی نہیںتھی لہٰذا ملک کا ہر شخص یہ پوچھنے میں حق بجانب ہے‘ یہ کیا ہے اور یہ کیوں ہے؟
لوگ نواز شریف سے یہ بھی پوچھ رہے ہیں کیا آپ چار سال تک ’’سول سپرمیسی‘ ووٹ کو عزت دو‘ خلائی مخلوق‘ محکمہ زراعت اور اداروں کو اپنی حدود میں رہنا ہو گا‘‘ کا راگ الاپ کر قوم کو بے وقوف بناتے رہے اور آپ نے اس عمل کے دوران اپنے وفادار ترین ساتھیوں کی صحت‘ کاروبار اور آزادی تک قربان کر دی‘آپ نے ان کے جذبات تک کا احساس نہیں کیا‘ آج شاہد خاقان عباسی‘ احسن اقبال اور خواجہ سعد رفیق کس جرم کی سزا بھگت رہے ہیں‘ حنیف عباسی‘ رانا ثناء اللہ‘ مفتاح اسماعیل‘ مریم نواز اور حمزہ شہباز نے کس جرم کی سزا پائی اور آپ کے اڑھائی سو ایم این اے‘ ایم پی ایز اور سینیٹر کس گناہ کی سزا بھگت رہے ہیں؟ کیا ان کی یہ سزا ہے کہ یہ آپ پر ٹرسٹ کرتے رہے‘ یہ تیسری مرتبہ بھی آپ کے وعدوں پر یقین کر بیٹھے اور یہ سمجھتے رہے آپ بدل چکے ہیں۔
آپ اپنا سب کچھ قربان کر دیں گے لیکن اپنے اصولی موقف سے پیچھے نہیں ہٹیں گے لیکن آپ 2000کی طرح اس بار پھر اپنے ساتھیوں کو جیلوں اور عدالتوں کے رحم وکرم پر چھوڑ کر لندن جا بیٹھے اور آپ نے چند ماہ کے آرام کے لیے حکومت کے سامنے اپنے سارے گھٹنے ٹیک دیے‘دوسرا میاں نواز شریف کی طرف سے حلف لینا بھی انتہائی افسوس ناک تھا‘ قائد کے سامنے پارٹی کی سینئر ترین قیادت بیٹھی تھی‘ یہ صرف دس لوگ تھے‘ ان دس لوگوں سے حلف لینے کا مطلب تھا میاں نواز شریف کو اپنی سینئر ترین قیادت پر بھی یقین نہیں‘ یہ اپنے بھائی میاں شہباز شریف اور سمدھی اسحاق ڈار پر بھی یقین کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں چناں چہ پھر آپ کو کس پراعتماد ہے؟ مجھے حلف لینے والوں پر افسوس نہیں ہوا‘ حلف دینے والوں پر ہوا‘ ان میں سے کسی ایک شخص کو بھی انکار کی جرات نہیں ہوئی‘ کوئی ایک تو ہوتا جو میاں نواز شریف کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتا‘ جناب ہم تیس تیس سال سے آپ کے ساتھ ہیں‘ ہمارے دن ہوں یا رات آپ کی آنکھ سے اوجھل نہیں ہیں۔
ہم نے 1993 ‘ 1999 اور 2018میں بھی آپ کا ساتھ نہیں چھوڑا لیکن ان تمام تر وفاداریوں‘ جیلوں‘ مقدموں اور سڑکوں پر پھینٹے کے باوجود آپ کو ہم پر اعتماد‘ ہم پر یقین نہیں‘ کوئی ایک تو بولتا مگر افسوس سب نے اپنا دایاں ہاتھ اٹھایا اور قرآن مجید پر رکھ دیا‘ مجھے میاں نواز شریف کی مفاد پرستانہ سیاست اور ان نو لوگوں کی غلامی پر گھن آ رہی ہے‘ یہ کیا لوگ ہیں اور یہ کیا کر رہے ہیں؟ چوہدری برادران میاں نواز شریف کے ساتھی تھے‘ انھوں نے 2002 میں ق لیگ بنائی اور اعلان کیا ’’میاں برادران قابل اعتبار نہیں ہیں‘‘ لوگ آج تک انھیں کنگز پارٹی اور مفاد پرست ٹولہ کہتے آ رہے ہیں لیکن کیا آج ان کا موقف درست ثابت نہیں ہو گیا اور انھوں نے 17 سال پہلے میاں نواز شریف سے کنارہ کشی کر کے عقل مندی نہیں کی تھی؟ شیخ رشید اور مشاہد حسین سید بھی یہ کہتے تھے اور غوث علی شاہ بھی اسی رویے کو پیٹتے پیٹتے پارٹی سے الگ ہو گئے اور چوہدری نثار بھی 35 سال کی وفاداری کے بعد اپنا قبلہ بدلنے پر مجبور ہو گئے تھے۔
یہ اس قدر دکھی تھے کہ یہ بیگم کلثوم نواز کے انتقال پر بھی رائے ونڈ نہیں گئے اور جاوید ہاشمی بھی آج تک اپنے زخم کریدتے اور اپنی چوٹیں گنتے چلے جا رہے ہیں‘کیا آج یہ تمام لوگ سچے ثابت نہیں ہوگئے؟ آپ یقین کریں مجھے ماضی میں ان لوگوں کی رائے اور رویوں پر شک تھا لیکن 7 جنوری کے بعد یہ لوگ مجھے سچے دکھائی دے رہے ہیں‘ میں یہ بھی مان گیا ہوں میاں نواز شریف اپنے سگے بھائی میاں شہباز شریف کا سیاسی کیریئر تک نگل گئے ہیں‘ پارٹی کا کل اثاثہ میاں شہباز شریف کی کارکردگی اور پرفارمنس ہے لیکن یہ اس پرفارمنس کے باوجود آج لندن میں بیٹھے ہیں اور ان کا بیٹا حمزہ شہباز جیل میں جب کہ میاں نواز شریف کے دونوں صاحبزادے لندن میں پھر رہے ہیں‘ صاحبزادی بھی عنقریب لندن پہنچ جائے گی‘ کیا یہ وہ اصول تھے‘ کیا یہ وہ اصولی موقف تھا آپ جس کا ڈھنڈورا پیٹتے رہے‘ کیا یہ وہ ووٹ تھا آپ جس کی عزت کا پرچم لہراتے رہے اور کیا یہ وہ سویلین سپرمیسی تھی جس کا لولی پاپ آپ پوری قوم کو دیتے رہے؟
میں دل سے سمجھتا ہوں میاں نواز شریف نے اس فیصلے سے اپنی سیاست کا آخری باب بھی بند کر دیا اور ان لاکھوں کروڑوں لوگوں کا دل بھی توڑ دیا جو انھیں حقیقتاً اپنے دلوں کا قائد سمجھتے تھے‘ انھوں نے حاصل بزنجو جیسے وفادار دوست بھی کھو دیے اور مولانا فضل الرحمن کا سیاسی کیریئر بھی تباہ کر دیا‘ میاں نواز شریف کو ان کی جلاوطنیاں‘ مقدمے اور جیلیں ختم نہیں کر سکیں لیکن ایک غیرمشروط حمایت نے انھیں تاریخ کے قبرستان میں دفن کر دیا اور آج کے بعد ان پر صرف اور صرف بے وقوف لوگ ہی اعتبار کریں گے‘ لوگ ان کے حلف پر بھی یقین نہیں کریں گے۔
Must Read urdu column Aaj k baad By Javed Chaudhry