آخر نون لیگ چاہتی کیا ہے؟ – عاصمہ شیرازی
تحریک انصاف کے دو سالوں کی کارکردگی مایوس کن ہو سکتی ہے لیکن حزب اختلاف کی کارکردگی بھی کسی طور مبارکباد کی مستحق نہیں۔ گزشتہ دو برسوں میں تحریک انصاف نے معاشی، سیاسی، خارجہ پالیسی محاذ پر خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کرنے کے باوجود جس مہارت کے ساتھ حزب اختلاف کو دیوار کے ساتھ لگا کے اور دفاعی پوزیشن میں رکھا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔
یہ شاید پہلی بار ہے کہ پیپلز پارٹی کے پانچ برسوں میں ہر چھ ماہ بعد کارکردگی پر وائٹ اور بلیک پیپر جاری کرنے والی نون لیگ نے کوئی خالی صفحہ بھی جاری نہیں کیا۔
اپوزیشن اور پنجاب کی سب سے بڑی جماعت نون لیگ اپنی عددی طاقت تو برقرار رکھے ہوئے ہے تاہم ہر گزرتے دن کے ساتھ بظاہر غیر مقبول ہوتی حکومت کے خلاف پنجاب خاص طور پر وسطی پنجاب میں اپنا عوامی اثر و رسوخ استعمال نہیں کر پا رہی۔
اس کی وجہ کورونا کے حالات ہیں؟ صحیح ٹائنمگ کا انتظار؟ یا قیادت کی جانب سے واضح لائن آف ایکشن کا فقدان؟ وجہ کچھ بھی ہو مگر نون لیگ اندرونی اختلافات کا شکار ضرور ہے جس کا نقصان جماعت سے زیادہ قومی سیاست کو پہنچ رہا ہے۔
شہباز شریف ایک عرصے سے منظر عام پر نہیں تھے مگر آخر کار مولانا صدر مسلم لیگ نون کو منظر عام پر لانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ گزشتہ ہفتے بلاول بھٹو خواہش اور لاہور میں موجودگی کے باوجود نہ تو شہباز شریف سے مل سکے اور نہ ہی مریم بی بی بلاول کو چائے پر بُلا سکیں۔
نون لیگ کا اپوزیشن کے ساتھ واضح ایجنڈے پر آنا ہی سیاسی اور عوامی سطح پر کمزور حکومت کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے ورنہ تحریک انصاف کی حکومت کو کہیں سے کوئی خطرہ نہیں
ایک اہم جماعت کے چیئرمین کی جانب سے بارہا کل جماعتی کانفرنس اور متفقہ ایجنڈے کی تشکیل کے حوالے سے پنجاب کی سب سے بڑی جماعت سے رابطے میں ناکامی پیپلز پارٹی کے لیے مایوس کُن ہے تاہم اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ نون لیگ کا انتظار کیا جائے۔
یہی عالم حال ہی میں حکومت سے الگ ہونے والی جماعت بی این پی مینگل کا ہے جس کی کوشش رہی کہ شہباز شریف سے ملاقات ہو تاہم اُنھیں بھی یہ کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ نون لیگ کی جانب سے اس احتراز کی وجہ حالات کا تقاضا ہے یا اپنی شرائط پر وقت کا تعین۔۔۔ بہر حال کنفیوژن برقرار ہے۔
مریم نواز کی خاموشی قابل توجہ تھی تو اب شہباز شریف کی خاموشی بھی نون لیگ کے حلقوں میں زیر بحث رہتی ہے۔ بظاہر میاں نواز شریف لندن میں بیٹھ کر جماعت کی رہنمائی کر رہے ہیں تاہم مقامی حلقہ شہباز شریف کے پاس ہے اور دیگر سیاسی جماعتیں اپنے فیصلوں میں شہباز شریف کی عدم شمولیت یا عدم دلچسپی پر جُز بُز بھی ہیں اور پریشان بھی۔
ایسا کیوں ہے؟ قصور شہباز شریف کا بھی نہیں۔ ایک طرف اُن کی صحت کے معاملات اور دوسری طرف قیادت کی کنفیوژن۔۔۔ صورتحال جو بھی ہو اس وقت جماعت کے اندر واضح قیادت کا فقدان فیصلہ سازی کو نقصان پہنچا رہا ہے۔
نیب قوانین میں تبدیلی کے معاملے پر نون لیگ کے اندرونی اختلافات نہ صرف منظر عام پر آرہے ہیں بلکہ حکومتی اور پیپلز پارٹی ارکان بھی اس پر حیران دکھائی دے رہے ہیں۔
نون لیگ کے اندر مختلف آوازیں آہستہ آہستہ پارلیمان میں گونجنے لگی ہیں جس کا بظاہر نقصان جماعت کو تو نہیں تاہم جماعتی ڈسپلن پر حرف ضرور آ رہا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ نیب اور ایف اے ٹی ایف معاملات پر مذاکرات کی رہنمائی بھی کہیں اور سے ہے جس پر نہ تو حکومت مکمل طور پر آگاہ ہے اور نہ ہی اپوزیشن۔
کیا اپوزیشن ایک متفقہ ایجنڈے پر اکٹھی ہو سکتی ہے؟ کیا حزب اختلاف کی تمام قیادت ایک جگہ بیٹھنے میں کامیاب ہو سکتی ہے؟ یہ ملین ڈالر سوال ہے اور جواب شاید اس میں چھپا ہے کہ اگر سب ابھی بھی طاقت ور حلقوں کی خوشنودی کے حصول سے نکل کر عوام کی نبض پر ہاتھ رکھ لیں تو ایسا ممکن ہے۔
بلاول بھٹو نے اس ضمن میں مخلصانہ کوششیں کی ہیں، مولانا فضل الرحمن بھی اپنے تئیں کوششوں میں مگن ہیں لیکن نون لیگ میں فیصلہ سازی کے کئی مراکز کا بن جانا ایک اپوزیشن کے ایک ایجنڈے کی راہ میں تاحال بڑی رکاوٹ ہے۔
حزب اختلاف کے پلڑے میں نون لیگ کا وزن حکومت پر دباؤ بڑھا سکتا ہے۔ مڈ ٹرم انتخابات اور اس سے قبل انتخابی اصلاحات کے لیے جز وقتی تبدیلی کے فارمولے کی راہ میں رکاوٹ خود نون لیگ کا ایک صفحے پر نہ ہونا ہے۔
اپوزیشن کا ایک صفحہ گیم پلٹ سکتا ہے کیونکہ بلوچستان میں مولانا فضل الرحمن، بی این پی مینگل اور پیپلز پارٹی اے این پی کو ہمنوا بنا کر سیاسی معجزہ دکھانے کی پوزیشن میں ہیں۔
نون لیگ کا اپوزیشن کے ساتھ واضح ایجنڈے پر آنا ہی سیاسی اور عوامی سطح پر کمزور حکومت کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے ورنہ تحریک انصاف کی حکومت کو کہیں سے کوئی خطرہ نہیں۔
Must Read Urdu column Aakhir non League Chahti Kia hai By Asma Shirazi
Source: BBC URDU