کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ باپ کے بعد بیٹے کی شہادت پر بھی کالم لکھوں گا۔ چند دن پہلے میں پشاور کی سڑکوں اور گلیوں میں صوبائی اسمبلی کے لئے امیدوار ہارون بلور کے پوسٹر اور بینر دیکھ کر اُن کے والد بشیر بلور کو یاد کر رہا تھا۔ بشیر بلور پانچ دفعہ صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور جس زمانے میں آئے روز بم دھماکے ہوتے تھے بشیر بلور اور میاں افتخار حسین بم دھماکے کرنے والوں کے خلاف مزاحمت کی علامت بن گئے۔ بشیر بلور پر تین دفعہ خودکش حملے ہوئے۔ چوتھے حملے میں شہید ہو گئے۔ میں ہارون بلور اور حاجی غلام احمد بلور کے پوسٹروں کو دیکھ کر بشیر بلور کے ساتھ پشاور کی سڑکوں پر کئے گئے اُس امن مارچ کو یاد کر رہا تھا جس میں بمشکل سو افراد بھی اکٹھے نہ ہوئے کیونکہ بم دھماکوں کے خوف نے پورے پشاور کو نہیں پورے خیبر پختونخوا کو جکڑ رکھا تھا۔ میں یاد کر رہا تھا کہ بم دھماکوں کا خوف ختم کرنے کے لئے میں نے پشاور میں امن مارچ کا فیصلہ کیا کیونکہ یہاں جلسے جلوسوں کا رواج ہی ختم ہو رہا تھا۔ میری اس تجویز پر سب سے پہلے بشیر بلور نے ہاں کہی۔ جس دن جلوس نکالنا تھا میں مقررہ وقت پر پشاور پریس کلب کے باہر پہنچ گیا اور سب سے پہلے بشیر بلور وہاں پہنچے۔ پھر میاں افتخار حسین، اقبال ظفر جھگڑا، مفتی کفایت اللہ اور بہت سے صحافی بھائیوں نے مل
کر امن مارچ شروع کیا۔ یہ مارچ ختم ہوا تو بشیر بلور زبردستی مجھے اپنے گھر لے گئے جہاں ہارون بلور نے ہمارے لئے پُرتکلف ظہرانے کا بندوبست کر رکھا تھا۔ یہ دونوں باپ بیٹا بڑی محبت اور شوق سے ہمیں کھانا کھلاتے رہے اور بشیر بلور بار بار قہقہہ لگا کر کہتے یہ دہشت گرد ہماری مسکراہٹیں چھیننا چاہتے ہیں ہم مسکرانا بند نہیں کریں گے اور ہارون بلور مسکراتے ہوئے میری پلیٹ میں مزید تکے ڈال کر کہتا لیجئے پشاور کے تکے کھائیے اور مسکرائیے۔ ہمارے اس امن مارچ کے کچھ عرصہ بعد بشیر بلور کو شہید کر دیا گیا۔ میں پشاور کی سڑکوں پر گھومتا ہوا حاجی غلام احمد بلور کو ملنے اُن کے گھر پہنچا تو وہ باہر برآمدے میں اے این پی کے کارکنوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے اور اُن کے سر پر بشیر بلور کی تصویر لٹکی ہوئی تھی۔ حاجی صاحب نے مجھے گلے لگانے کے بعد اپنے شہید بھائی کی تصویر کی طرف اشارہ کیا اور کہا ’’وہ تمہارا دوست‘‘۔
اپنے اس بہادر دوست کی تصویر دیکھ کر مجھے بشیر بلور پر لکھا گیا اپنا کالم یاد آ گیا جس کا آغاز میں نے ان الفاظ سے کیا تھا کہ موت سب کو مارتی ہے لیکن شہید موت کو مار دیتا ہے کیونکہ وہ ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔ میں بشیر بلور کو یاد کرتے کرتے ہارون بلور اور حاجی غلام احمد بلور کی سلامتی کے لئے دعائیں کر رہا تھا لیکن حاجی صاحب نے مجھے کہا کہ 2013ءکی نسبت 2018ءکے انتخابات میں اے این پی کو زیادہ خطرات کا سامنا نہیں۔ میں خاموش رہا۔ مجھے ایک انجانا خطرہ محسوس ہو رہا تھا کیونکہ شہر کے گلیوں بازاروں میں عام لوگوں سے گفتگو میں مجھے محسوس ہوا کہ لوگ اے این پی اور پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت کو یاد کر رہے ہیں۔ اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان کی حمایت بھی نظر آ رہی تھی لیکن پرویز خٹک کے طرز حکومت سے پشاور کے لوگ مطمئن نظر نہیں آ رہے تھے اور جو لوگ حیدر ہوتی سے مایوس ہو کر تحریک انصاف کی طرف آئے تھے وہ اے این پی کی طرف واپس جا رہے تھے۔ بہت سے لوگوں کی زبان سے میں نے یہ سنا کہ وہ اے این پی کو ووٹ دیں گے تو مجھے خطرہ محسوس ہوا کہ اے این پی کو روکنے کے لئے وہی ہتھکنڈے استعمال کئے جا سکتے ہیں جو 2013ء میں استعمال کئے گئے۔ منگل کو افواج پاکستان کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے یہ اعلان کیا کہ 25جولائی کو الیکشن کے دن ساڑھے تین لاکھ فوجی جوان امن و امان کی صورتحال کو قابو میں رکھنے کے لئے فرائض سرانجام دیں گے تو کچھ خدشات کم ہو گئے لیکن اسی شام پیپلز پارٹی کے رہنمائوں نے لاہور میں ایک پریس کانفرنس کی اور کچھ خفیہ اداروں کے افسران پر وہی الزامات لگائے جو مسلم لیگ (ن) لگاتی آرہی ہے۔ ان الزامات کو سُن کر بہت مایوسی ہوئی اور پھر ہارون بلور کی شہادت کی خبر آ گئی۔ میں کافی دیر تک گم سم رہا۔ ہارون تو حکومت میں نہیں رہا۔ اُسے کس جُرم میں بم دھماکے کا نشانہ بنایا گیا؟ میری آنکھوں کے سامنے ایک دفعہ پھر ہارون کے والد بشیر بلور کا مسکراتا ہوا چہرہ جگمگانے لگا۔ میرے کانوں میں بشیر بلور کے یہ الفاظ گونجنے لگے کہ دہشت گرد ہم سے ہماری مسکراہٹیں چھیننا چاہتے ہیں لیکن ہم مسکرانا بند نہیں کریں گے۔ میں سوچ رہا تھا کہ الیکشن کے دنوں میں نجانے کون کون پاکستان سے دہشت گردی کے خاتمے کا کریڈٹ لے رہا ہے لیکن اے این پی نے کبھی یہ کریڈٹ لینے کی کوشش نہیں کی کہ دہشت گردوں کے سامنے سر نہ جھکانے کے جُرم میں سب سے زیادہ حملے اُس کے کارکنوں پر ہوئے۔ جب خیبر پختونخوا پر اے این پی کی حکومت تھی تو ایک دن ملا فضل اللہ نے اسفند یار ولی سے رابطہ کیا اور کہا کہ ہماری تم سے کوئی لڑائی نہیں ہماری لڑائی پنجاب سے ہے تم ہمیں پنجاب والوں پر حملوں کے لئے راستہ دیدو۔ اسفند یار ولی نے انکار کر دیا اور یہیں سے اے این پی اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان میں وہ دشمنی شروع ہوئی جس کے نتیجے میں میاں افتخار حسین کے بیٹے کو شہید کر دیا گیا اور اب بشیر بلور کے بیٹے کو بھی شہید کر دیا گیا۔
بشیر بلور کی شہادت کے کچھ عرصہ بعد 30اپریل 2013ء کو جی ایچ کیو راولپنڈی میں یوم شہداء کی ایک تقریب منعقد ہوئی تھی۔ اس تقریب میں بشیر بلور کا نام ایک قومی ہیرو کے طور پر لیا گیا۔ ایک بڑی سکرین پر بشیر بلور کی بہادری کی کچھ جھلکیاں پیش کی گئیں اور پھر اُن کے صاحبزادے ہارون بلور کو اسٹیج پر بلایا گیا۔ ہارون بلور ڈائس پر آئے تو اُس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی سمیت افواج پاکستان کے تمام افسران نے تالیاں بجا کر اُن کا استقبال کیا۔ اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ہارون بلور نے کہا تھا کہ پاکستان کی سلامتی کے لئے اے این پی اور اُن کا خاندان کسی قربانی سے دریغ نہیں کرے گا۔ یہ سطور تحریر کرتے ہوئے میری آنکھوں میں آنسو امڈ رہے ہیں۔ اپنے عظیم باپ کی طرح ہارون بلور نے بھی پاکستان کی سلامتی کے لئے اپنی جان قربان کر دی۔ شہادت سے چند لمحے پہلے ہارون کو خطرہ محسوس ہو رہا تھا۔ اُنہوں نے اپنے بیٹے دانیال کو پیغام بھیجا کہ جس جلسے میں وہ جا رہے ہیں وہاں تم نہ آنا۔ موت کا خطرہ دیکھ کر بھی واپس نہ مڑنا اور موت کے سامنے کھڑے ہو جانا ایک بہادر انسان کی شان ہے۔ کیا ہارون کے لئے یہ مشکل تھا کہ وہ سب کچھ چھوڑ کر اپنے خاندان کو لے کر کسی یورپی ملک میں جا بستا؟ دبئی یا ملائشیا چلا جاتا؟ نہیں۔ اُس نے فرار کا راستہ اختیار نہیں کیا۔ اُس نے اپنے باپ کی طرح اپنے شہر میں اپنے لوگوں کے درمیان مرنے کا فیصلہ کیا۔ ہارون بلور کی شہادت سے اے این پی والوں کے حوصلے کم نہیں ہوں گے بلکہ مضبوط ہوں گے۔ یہ حملہ ایک پارٹی پر نہیں سب پارٹیوں پر ہے۔ یہ حملہ ایک پاکستانی پر نہیں سب پاکستانیوں پر ہے۔ اس حملے کا جواب کیسے دیا جائے؟ میرے پاکستانی بھائیو اور بہنو! ہارون بلور اور اس کے ساتھیوں کی شہادت کا بدلہ لینے کے لئے 25جولائی کو اپنے گھروں سے نکلو۔ ووٹ کو اپنا ہتھیار بنائو۔ آپ جتنے زیادہ ووٹ ڈالیں گے دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کو اتنی بڑی شکست ہو گی۔ دہشت گردوں کو شکست دینے کے لئے ووٹ ضرور ڈالیں، دہشت گرد اور اُن کے سرپرست ہماری مسکراہٹیں نہیں چھین سکتے۔
Source: Jung News
Read Urdu column Aao haroon blor ka badlah len By Hamid Mir