آپ کے سوالات اور ہمارے جوابات – سہیل وڑائچ
سوال۔ کیا پکڑ دھکڑ اور گرفتاریوں کا دور ختم ہو گیا اور اب مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوگا؟
جواب۔ حکومت اپنے تیسرے اور چوتھے سال میں قانون سازی اور اصلاحات کی طرف جانا چاہتی ہے، اُسے احساس ہے کہ معیشت اور گورنینس میں وہ کامیابیوں کے جھنڈے نہیں گاڑ سکی، اس لئے وہ مذاکرات کرکے کچھ نہ کچھ اصلاحات کرنا چاہتی ہے۔
س۔ کیا حکومت کو اپوزیشن سے کوئی فوری خطرہ ہے؟
ج۔ اپوزیشن سے کوئی فوری خطرہ نہیں فی الحال تو پیپلز پارٹی اور پی ڈی ایم کے درمیان صلح ہوتی بھی نظر نہیں آتی، صلح ہو بھی گئی تو اپوزیشن کو موثر حکمت عملی تشکیل دینے میں وقت لگے گا۔
س۔ کیا اسٹیبلشمنٹ اور حکومت ابھی تک ایک صفحے پر ہیں؟
ج۔ اسٹیبلشمنٹ اور حکومت ایک صفحے پر نہیں، حکومت سے اسٹیبلشمنٹ کو کارکردگی اور فیصلوں کے حوالے سے تحفظات ہیں۔
س۔ تو کیا اسٹیبلشمنٹ حکومت کو فارغ کرنا چاہتی ہے۔
ج۔ ایسا کوئی امکان نظر نہیں آ رہا، مقتدرہ اور حکومت کے درمیان اختلافات موجود ہیں مگر ایسا کوئی اختلاف نظر نہیں آ رہا جس کی وجہ سے مقتدرہ حکومت کو نکالنے کی منصوبہ بندی کرے۔
س۔ سعودی حکومت سے کیا معاملات بہتر ہو جائینگے؟
ج۔ پاکستان کی سول اور ملٹری قیادت کی خواہش ہے کہ سعودی عرب سے ہمارے تعلقات بہت بہتر ہو جائیں، بھارت سے مذاکرات کے حوالے سے بھی سعودی عرب کا کردار ہے اور افغانستان کے معاملے میں پاکستان کے کردار کے حوالے سے سعودی عرب کی مکمل حمایت ضروری ہے۔ امید یہی کرنی چاہئے کہ وزیراعظم عمران خان کے دورۂ سعودی عرب کے بعد تعلقات بہتری کی جانب گامزن ہوں گے۔ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل باجوہ کی سعودی عرب موجودگی اور میٹنگوں میں شرکت سے بھی یہی اشارہ ملتا ہے کہ حکومت اور فوج سعودی عرب سے تعلقات کی بہتری کے حوالے سے مکمل طور پر ایک صفحے پر ہیں۔
س۔ افغانستان کے مسئلے پر امریکہ ہم سے کیا چاہتا ہے؟
ج۔ ماضی میں ہم افغانستان میں امریکی کردار کے حوالے سے متذبذب تھے، ہم چاہتے تھے کہ افغانستان میں امریکی کردار محدود ہو لیکن ہم یہ نہیں چاہتے تھے کہ امریکی افواج کا مکمل انخلا ہو جائے۔ اب ہم اس بات پر تیار ہیں کہ امریکی افواج کا انخلا ہو جائے البتہ طالبان کا مستقبل میں کیا کردار ہوگا، اس کے بارے میں امریکہ اور پاکستان میں مکمل ہم آہنگی ممکن نہیں۔ امریکہ پاکستان سے یہ چاہتا ہے کہ پاکستان امریکی افواج کی واپسی کے موقع پر امریکہ سے مکمل تعاون کرے اور ایسا کوئی اشارہ نہ دے، نہ کوئی ایسا اقدام کرے جس سے طالبان کو غیرمعمولی فائدہ ملتا ہو۔
س۔ ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کی مسلسل شکست کی وجہ کیا ہے؟
ج۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ پی ٹی آئی نے ان ضمنی انتخابات کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا اور نہ ہی اتنا زور لگایا ہے جتنا لگانا چاہئے تھا۔ دوسری بڑی وجہ مہنگائی اور بری گورنینس ہے جس کے اثرات اب حلقوں کی سطح پر بھی محسوس کئے جا رہے ہیں۔ مہنگائی اور بیروزگاری نے بالخصوص عوام کو پریشان کر رکھا ہے۔
س۔ پی ٹی آئی کے ہر جگہ ماسوائے کراچی، ووٹ بڑھے ہیں، اس کی کیا وجہ ہے؟
ج۔ پی ٹی آئی کے کراچی کے حلقہ 249کے سوا، ہر ضمنی انتخاب میں ووٹ بڑھے ہیں اور اسے 2018کے انتخاب سے زیادہ ووٹ ملے ہیں جس سے صاف واضح ہو رہا ہے کہ پنجاب میں آئندہ الیکشن ن لیگ اور پی ٹی آئی کے درمیان ہوگا۔ فی الحال پی ٹی آئی کے ووٹ ن سے کم ہیں لیکن الیکشن میں مقابلہ زوردار ہوگا۔ پی ٹی آئی تیزی سے صوبہ پنجاب کی دوسری بڑی پارٹی بن گئی ہے اور یہ بات آسانی سے کہی جا سکتی ہے کہ پی ٹی آئی 2018سے کہیں زیادہ ووٹ بینک کی حامل ہو گئی ہے۔
س۔ اپوزیشن کی سیاست کیا اسی طرح چلے گی یا اس میں جان بھی پڑ سکتی ہے؟
ج۔ پی ڈی ایم چاہتی ہے کہ پیپلز پارٹی اور اے این پی معذرت کریں، دوسری طرف پیپلز پارٹی چاہتی ہے کہ پی ڈی ایم معذرت کرے، یہ دراصل معذرت نہیں کسی ایک کی سیاسی پسپائی ہے، اس تعطل کو شہباز شریف حل کر سکتے ہیں، وگرنہ منقسم اپوزیشن کوئی تاثر پیدا نہیں کر سکے گی۔
س۔ کیا حکومت معاشی بحران سے نکلنے کی صلاحیت رکھتی ہے؟
ج۔ گو پی ٹی آئی نے شوکت ترین کو وزیر خزانہ بنا کر ایک اچھا فیصلہ کیا ہے لیکن آئی ایم ایف سے معاہدہ، بیرونی قرضوں کی واپسی اور معاشی شرح نمو میں بہتری نہ ہونا وہ اسباب ہیں جن کی وجہ سے پی ٹی آئی حکومت کا معاشی مستقبل روشن نظر نہیں آ رہا۔ اگلے الیکشن تک کم و بیش یہی معاشی صورتحال برقرار رہے گی۔ حکومت کوئی بڑے منصوبے یا پروجیکٹس بھی تعمیر نہیں کر رہی جن کی اگلے برسوں میں تکمیل پر تالیاں بجیں۔ موجودہ حکومت تقریباً اسی طرح کی کارکردگی کے ساتھ ہی چلتی رہے گی۔
س۔ کیا چودھری فواد حسین اور دوسرے وزراء کی طرف سے انتخابی اصلاحات کے ایجنڈے کی کامیابی کا امکان ہے؟
ج۔ انتخابی اصلاحات کی تجاویز اور اس کی ٹائمنگ بڑی دانشمندانہ ہے، ایک طرف پی ڈی ایم ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ آپس میں ایک دوسرے پر الزام لگا رہی ہیں، ایسے وقت میں افہام و تفہیم اور مذاکرات کی پیشکش ایک کارگر سیاسی حربہ ہوگا، اس سے سیاسی درجہ حرارت نیچے آئے گا اور پارلیمان کی ورکنگ شروع ہو جائے گی۔
س۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان فائر بندی ہو چکی، کیا معاملات تجارت کھلنے تک بھی جائینگے؟
ج۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات رولر کوسٹر کی طرح چلتے ہیں، کبھی تو ایسا وقت آتا ہے کہ سرحدیں کھل جاتی ہیں اور کبھی ایسا وقت آجاتا ہے کہ ٹرینیں بھی بند کر دی جاتی ہیں اور ایک دوسرے کے سفارتی عملے پر پابندیاں لگا دی جاتی ہیں۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان حالیہ بہتری میں امریکہ کی آشیر باد، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کی حمایت حاصل ہے۔ اندرون پاکستان بھارت کے ساتھ اور تجارتی تعلقات کی بحالی پر اتفاق نہیں، اس لئے فوری امکان نہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مستقبل قریب میں بہت بہتری آجائے۔
س۔ کیا حکومت اپنے پانچ سال پورے کریگی؟
ج۔ بظاہر حکومت کو 5سال پورے کرنے میں دشواری نہیں لیکن دیکھنا یہ ہوگا کہ کیا مقتدرہ کے ساتھ اس کی کشیدگی تو نہیں ہو جائے گی، اگر یہ محاذ گرم ہوا تو پھر حکومت کی رخصتی کا امکان ہے وگرنہ اپوزیشن میں تو جان نہیں ہے کہ وہ حکومت کو نکال سکے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)
Source: jang News
Must Read Urdu column Aap k Sawalat aur Hamare Jawab By Sohail Warraich