ابھی احتیاط! – ارشاد بھٹی
میں نے کہا، ڈاکٹر صاحب آپ اتنے پریشان کیوں ہورہے ہیں، اب تو کورونا آخری دموں پر، ڈاکٹر صاحب نے حیرانی سے مجھے دیکھا، لمحہ بھر کیلئے سوچا، پھر بولے، کیا مطلب ہے تمہارا، مجھے پریشان نہیں ہونا چاہئے، کیا مجھے خوش ہونا چاہئے، میں نے کہا، میں یہ نہیں کہہ رہا کہ آپ خوش ہوں مگر مجھے یوں لگ رہا جیسے آپ کچھ زیادہ ہی پریشان۔ ۔۔ڈاکٹر صاحب نے میری بات کاٹ کر کہا،میں اس لئے پریشان ہوں کہ کورونا کی دوسری لہر پہلی لہر سے زیادہ خطرنا ک ہے، میں اس لئے پریشان ہوں کہ اس بار وائرس یورپین ہے، پہلی لہر والا وائرس چائنا کا تھا، اس بار وائرس زیادہ طاقتور ہے، میں اس لئے پریشان ہوں کہ اوپر سے موسم ایسا ہے کہ بندہ اچانک گرم سرد ہوجا تا ہے، میں اس لئے پریشان ہوں کہ کورونا ختم ہوگیا یا اب کورونا میں وہ پہلے والا دم خم نہیں رہا یا جیسے تم نے کہا کورونا آخری دموں پر ہے یہ سب تھیوریوں والے لوگ احتیاط نہیں کر رہے، اوپر سے کورونا ویکسین کی مسلسل خبریں سن سن کر لوگ اور بے احتیاطے ہوگئے ہیں، حالانکہ ویکسین کے افیکٹس یا سائیڈ افیکٹس ایک طرف رکھیں، 22کروڑ کےملک میں ڈیڑھ کروڑ مانگے تانگے کی ویکسین آبھی گئی توایک انار سو بیمار والی صورتحال ہوگی، لہٰذا جو موسم کا حال، جتنا وائرس خطرناک، جتنی بے احتیاطی ہورہی، لوگ مررہے ہیں، میں اس لئے پریشان ہوں، بلاشبہ زندگی، موت اللہ کے ہاتھ میں مگر تھوڑی سی کوشش سے بہت ساری جانیں بچائی جا سکتی تھیں، بچائی جا سکتی ہیں۔
قارئین کرام، بات آگے بڑھانے سے پہلے میں ڈاکٹر صاحب کا تعارف کروادوں، کورونا کی موجودہ صورتحال پر پریشان ہونے والے ہمارے ڈاکٹر غلام صابر ہیں، جو Alternative Medicine کے ڈاکٹر، جن کا اسلا م آباد میں نیچرل میڈیکل اینڈ ریسرچ سنٹر، جن کے اٹلی، لندن میں کلینکس، جن کی یورپ میں 400دوائیاں اپنے نام سے، جن کے یورپ، برطانیہ میں ہزاروں مریض، جن کے صرف اٹلی میں 20ہزار کے قریب مریض اور جس نے ڈاکٹر غلام صابر کے امیون سسٹم /قوت مدافعت کو مضبوط کرنے کا کورس کیا، اسے کورونا نہ ہوا، باقی چھوڑیں، میر ی سن لیں، میرے پورے خاندان کو کورونا ہوامگر مجھے نہیں ہوا، میں نے تین بار کورونا ٹیسٹ کروایا، تینوں بار نگیٹو آیا، کورونا نہ ہونے کی وجہ ﷲ کے فضل وکرم کے بعد ڈاکٹر غلام صابر کا امیون سسٹم مضبوط کرنے والا دوائیوں کا کورس کرناتھا، مجھے پتا کئی سیاستدان، صحافی اور بیوروکریٹس اس کورونا سے بچے تو اللہ کے فضل وکرم کے بعد ڈاکٹر صاحب کی دوائیوں کی وجہ سے، مجھے وہ وکیل ذہن میں آتاہے، پہلا منظر یہ تھا، صوفے پر لیٹا ہوا، سانسیں اکھڑ رہیں، چہر ہ نیلا ہورہا، چند دن بعد دوسرا منظر، خود چل پھر رہا تھا،خوش باش، بات بات پر ﷲ کا شکر ادا کرتا ہوا، ڈاکٹر صاحب کو دعائیں دیتا ہوا، پھر وہ نامور صحافی جس کا چوتھے پانچویں دن کورونا نگیٹو ہوگیا اور اسے یقین ہی نہیں آرہا تھا، وہ سیاستدان جس کا کورونا مرض اور دل کی بیماری دونوں بیک وقت کنٹرول میں آگئے، یہ تو دوچار مثالیں ایسی سینکڑوں مثالیں اور، ہمارے ہاں تو جس کی لاٹھی اس کی بھینس، یورپ میں تو باقاعدہ قانون اور قانون پر عمل بھی ہو، یورپ میں اگر ڈاکٹر صاحب کے نام سے 4سو دوائیاں بیچی، خریدی جارہیں اور کورونا معاملے پر اگر اٹلی حکومت ہر چوتھے دن ڈاکٹر غلام صابر سے مشورے لے رہی تو اس کا مطلب ان پر ﷲ کا خصوصی کرم۔
بات لمبی ہوگئی، بات وہیں سے شروع کرتے ہیں، جہاں ختم کی تھی، میں نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا، ڈاکٹر صاحب، اب کیا کرنا چاہئے، بولے، ابھی کورونا کو ایزی نہ لیں، اپنا امیون سسٹم مطلب اپنی قوت مدافعت بہتر بنائیں، احتیاط کریں، ہاتھ ملانے، گلے ملنے سے پرہیز، فاصلہ، ماسک، دستانے، گلوز سب کچھ جاری رکھیں، میں نے کہا ڈاکٹر صاحب بند ہ اپنا قوت مدافعت نظام کیسے مضبوط بنائے، بولے یہ خوراک، دوائیوں سے ہوسکتا ہے، کہنے لگے، یورپ میں اب Alternative Medicineکی قدر کا احساس ہوا ہے، اب اس طرف خصوصی توجہ دی جارہی ہے، اب سب کو معلوم پڑ رہا ہے کہ یہ جڑی بوٹیوں، پتوں، پودوں، پھولوں سے بنی دوائیاں بھی کتنی قیمتی ہیں، اس طریقہ علاج کے کوئی سائیڈ افیکٹس بھی نہیں ہیں،ڈاکٹرصاحب Alternative Medicineکا بتا رہے تھے جبکہ مجھے اپنے ملک کے وہ بڑے سیاستدان یا دآرہے تھے جو 6مہینے میں ایلوپیتھی دوائیاں چھوڑ کر ڈاکٹر صاحب کی دوائیوں پر لگ چکے اور وہ اعلیٰ سرکاری افسر جن کا اب کہنا ہے کہ جوں جوں میڈیکل سائنس آگے جاتی جارہی ہے توں توں انسان غیر محسوس طریقے سے جڑی بوٹیوں کے قدرتی علاج کی طر ف لوٹ رہا ہے۔
میں نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا، کورونا کے مکمل خاتمے کا کب تک چانس، بولے، بلاشبہ کورونا خاتمے کی طرف بڑھ رہامگر ابھی بے احتیاطی نہیں، ابھی یہ وقت بہت احتیاط سے گزارنا ہے، خود کو سردی نہیں لگنے دینی، آج کل اچانک سردی لگ جاتی ہے، یا بندہ بیمار پڑتا ہے، قوتِ مدافعت کمزور پڑتی ہے، کورونا حملہ آور ہوتا ہے اور حملہ کرتا ہے پھیپھڑ وں پر، سانس کے نظام پر، آکسیجن لیو ل کم ہوجاتا ہے، سانس لینا مشکل ہوجاتا ہے اور جان جانے کا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے، کچھ وٹامنز ہیں، کچھ فروٹ ہیں، کچھ قہوے ہیں اور کچھ دوائیاں ہیں، بندہ کورونا سے بچا رہتا ہے، یورپین وائرس خطرناک ہی اس لئے زیادہ تصور کیا جارہاہے کہ یہ پھیپھڑ وں پر حملہ آور ہوتا ہے، سانس کے نظام پر اٹیک کرتا ہے، جس سے سانس لینا مشکل ہوجاتا ہے، ڈاکٹر صابر نے بتا یا کہ یورپ،امریکہ، برطانیہ میں کورونا کی دوسری لہر کا وائرس ابھی تک سمجھ میں نہیں آیا، خاص طورپر برطانیہ اور اٹلی سمیت یورپ کے چند ممالک میں دوسری لہر کا وائرس جس جس کو بھی لگا،ان میں سے بہت کم بچے، خاص طور پر وہ لوگ جنہیں کسی قسم کی الرجی تھی، انہیں تو کورونا ویکسین بھی نہیں لگانی چاہئے، پہلے الرجی کا کچھ کیا جائے پھر ویکسین لگانی چاہئے، یہ سب کہہ کر ڈاکٹر غلام صابر صاحب مریض چیک کرنے لگ گئے، وہ ہنس ہنس کر مریض چیک کر رہے تھے، دوائیاں دے رہے تھے، انہیں حوصلہ دے رہے تھے جبکہ اب میں پریشان بیٹھا تھا، بالکل ویسا ہی جیسے گھنٹہ بھر پہلے ڈاکٹر غلام صابر پریشان تھے۔
Source: Jung News
Read Urdu column Abhe Ahtiat By Irshad Bhatti