ابھی تو بہت کچھ باقی ہے – اوریا مقبول جان
جمہوریت کے پروانوں اور فرزانوںنے دنیا بھر کے سامنے مغربی، خصوصاً امریکی معاشرے کی ایک ایسی تصویر پیش کر رکھی تھی جس کی شناخت رواداری، مخالف کا احترام، قانون کی بالادستی اور اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ جیسے اصول ہیں۔ جبکہ مغربی اور امریکی معاشرے کے ناقد ہمیشہ سے یہ کہتے چلے آرہے ہیں کہ ان تمام معاشروں میں ایسا کچھ ایک ملمع ہے، جعل سازی اوربہروپ ہے۔ یہ تمام جمہوری معاشرے اندر سے انتہائی کھوکھلے ہیں۔ ان میں رنگ، نسل، زبان اور مذہب کا تعصب ناقابلِ برداشت حد تک رچا بسا ہوا ہے، جسے قانون کی سخت لاٹھی بھی نہیں دبا سکی۔ اخلاقی دیوالیہ پن اس سطح کا ہے کہ دنیا کا بڑے سے بڑا فراڈ، ڈرگ مافیا، خواتین کی سمگلنگ، سیریل قاتلین، غرض ہر جرم کا کمال اور انتہا آپ کوانہیں معاشروں میں نظرآئے گی اوران جرائم کے آغاز کا اعزاز تو ہے ہی ان کے پاس۔ ایسے میں 6جنوری 2021ء کو جب چند ہزار غنڈہ نما اور غنڈہ صفت ہجوم نے دنیا ئے جمہوریت کے ہیڈ کوارٹر ’’کیپیٹل ہل‘‘ پر قبضہ کیا تو نو منتخب امریکی صدر جوبائیڈن نے تقریر کرتے ہوئے کہا تھا "The scenes of chaos at the Capitol do not reflect a true America, do not represent who we are.” ’’کیپیٹل کی عمارت میں جو افراتفری اور ابتری نظر آئی تھی ،یہ اصل امریکہ کی تصویر نہیں ہے۔
یہ کسی طورپر ہماری نمائندگی نہیں کرتی جیسے ہم ہیں‘‘۔ جوبائیڈن کو شاید بالکل اندازہ نہیں ہے کہ وہ ایک عالمی سطح کا جھوٹ بول رہے ہیں۔کیا امریکی بالکل ایسے نہیں جیسے اس دن نظر آرہے تھے؟ حقیقت بات یہ ہے کہ امریکی دراصل ہیں ہی ایسے۔ کیپیٹل ہل کی عمارت کے ہال اور راہداریوں میں جہاں یہ بے ہنگم ہجوم جھنڈے لہراتا، نعرے لگاتا اور اسلحہ دکھاتا ہوا داخل ہوا تھا، اس کی دیواروں پر بالکل اسی ہجوم جیسی تصویریں بڑے بڑے میورل کی صورت آویزاں ہیں۔ یہ تصویریں ان لٹیروں، غاصبوں، بدمعاشوں اور جتھہ بند مسلح حملہ آورگوروں کی تصویریں ہیںجوصدیوں پہلے یورپ سے بھاگ کر اس نئی سرزمین ’’امریکہ‘‘ پر حملہ آوار ہوئے تھے۔ان تصویروں اور ٹرمپ کے سپورٹرز کا موازنہ کریں تو یوں لگتا ہے جیسے پانچ صدیاں پہلے کولمبس کے پیچھے پیچھے ریڈ انڈین کے پرامن دیس پر قبضہ کرنے والے کرنے والے بالکل ان جیسے ہی تھے۔ ہال میں لگی کئی سو سال پہلے کے حملہ آور گوروں کی تصویروں کی جگہ اگر موجودہ حملہ آوروں کی تصویریں لگا دی جائیں تو زیادہ فرق نہ پڑے۔ امریکی کبھی بھی ویسے نہیں تھے جیسا جوبائیڈن اور اس قبیل کے لوگ دنیا کو بتانے کی کوشش کرتے ہیں۔ امریکہ صرف ٹرمپ کا چہرہ ہے اور امریکہ کی اکثریت جیسا چہرہ ٹرمپ کا ہے۔ ایک سفید فام اکثریت جو یہ سمجھتی ہے کہ وہ 12فیصد سیاہ فام لوگوں اور 17فیصد لاطینی و ہسپانوی گھس بیٹھیوں کے ہاتھ، انسانی حقوق اور اقلیتوں کی برابری کے نعروں کی وجہ سے یرغمال ہے۔وہ یقین کی حد تک اس تعصب میں مبتلا ہیں کہ یہ ملک 73فیصد سفید فام امریکیوں کے آباو اجداد نے ریڈ انڈین لوگوں سے بزور قوت چھینا تھااوریہ صرف ان کا ملک ہے ۔ان کے بڑوں نے ریڈ انڈین کا نام و نشان تک مٹا دیا تھا اور آج وہ ایک فیصد سے بھی کم رہ چکے ہیں۔امریکہ کے سترفیصد عیسائی بھی یہ خیال کرتے ہیں کہ انہیں صرف ایک فیصد ’’مسلمانوں‘‘ سے خطرہ ہے۔ دنیا بھر کو تصور دیا گیا ہے کہ امریکہ میںہمیشہ پُرامن انتقالِ اقتدار ہوتا رہا ہے۔
ایسا نہیں ہے، 1834ء میں’’فلاڈیلفیا‘‘میں الیکشن کے نتائج کو نہ ماننے پر ایسے ہنگامے ہوئے تھے کہ ایک پورا علاقہ انسانوں سمیت زمین بوس کر دیا گیااور پھر یہ آگ رکی نہیں بلکہ 1842ء تک چلتی رہی اور ’’لمبارڈ سٹریٹ‘‘پر سیاہ فام لوگوں کا قتلِ عام اسکی بدترین مثال ہے۔ جب ابراہم لنکن 1861ء میں صدر منتخب ہوا تو آدھا امریکہ اس کے خلاف متحد ہوگیا تھا۔ وہ ریاستیں جو غلامی کی حق میں ابراہم لنکن کے ساتھ لڑی تھیں ان کا جھنڈا زنگاری (Rust) رنگ کا تھا جس پر نیلے رنگ کی ایک دوسرے کو کاٹتی ہوئی دو آرپار لکیریں تھیں جن میں ستارے تھے۔ ٹرمپ کے دیوانے وہی جھنڈا 6فروری 2021ء کو لے کر کیپیٹل کی عمارت میں داخل ہوئے تھے۔ یہ لوگ جواس دن کیپیٹل کی عمارت میں دندناتے ہوئے داخل ہوئے، یہی اصل امریکی ہیں، جن کا احترام پولیس پر بھی اس دن لازم تھا۔ یہ جس طرح ہر رکاوٹ عبور کرتے ہوئے اندر داخل ہوئے، کیا کوئی سیاہ فام امریکیوں کا ہجوم، مسلمان امریکیوں کا جلوس یا ہسپانوی امریکیوں کی ریلی ایسا کر سکتی تھی۔ اگران تینوں میں سے کوئی ایک بھی ایسا کرتا تو امریکی آئین ، جمہوریت اور طرزِ زندگی (Life Style)، سب کے لئے خطرہ قرار دے کرایسے گولیوں سے بھون دیا جاتا۔ لیکن ٹرمپ کے حواری توپولیس کے نزدیک امن پسندتھے جو وہاں سے نکالے جانے کے بعد ہوٹل کی لابیوں میں بیٹھے ’’انقلاب‘‘ کی ناکامی پر گفتگو کر رہے تھے۔ کیا امریکی معاشرے ، اداروں یا عوام کو علم نہیں تھا کہ ٹرمپ کیسا ہے اور وہ کیا کر سکتا ہے۔سب کواس بات کا علم تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی 1987ء میں ایک کتاب ’’The Art of the Deal‘‘ مارکیٹ میں آئی تھی ، جوکہ بیسٹ سیلر تھی۔اس کتاب کو جس نے ترتیب دیا، ’’ٹونی شوارٹز‘‘(Tony Schwartz)اس نے چار سال قبل آکسفورڈ یونیورسٹی میں سوال جواب کے سیشن میں کہا تھا ’’دیکھو ٹرمپ سے زیادہ ذہنی صحت مند صدارت کے امیدواربھی لمبے عرصے کے لئے ڈپریشن کا شکار ہوتے رہے ہیں ،جب انہیںکوئی بڑا ذاتی نقصان ہوتا ہے۔ ٹرمپ کے لئے تو الیکشن ہارنا ایک بڑی عوامی ذلت اور بہت بڑا ذاتی نقصان ہوگا۔ وہ یقیناً شدید غصے کے عالم آجائے گا اورپھر اپنا غصہ اپنے سپورٹرز میں منتقل کردے گا اور خود کو تسلی دینے کے لئے سارا الزام الیکشن کی دھاندلی پر لگائے گا۔ ٹرمپ کبھی نتائج تسلیم نہیں کرے گا اور یہ وقت امریکہ کا خطرناک ترین وقت ہوگا۔ میرے لئے وہ دن بہت خوفناک تھا جب میں نے سنا کہ امریکہ نے ایک ایسے شخص کو چنا ہے جس نے ’’آرٹ آف دی ڈیل‘‘ لکھوائی تھی۔ کیونکہ جب وہ کتاب میں ایسی باتوں کے بارے میں واضح جھوٹ بول سکتا ہے جوبظاہر جھوٹی نظر آتی ہیں توپھر وہ کسی بھی معاملے میں جھوٹ بول سکتا ہے۔ چھ جنوری 2021ء کا ہنگامہ گزر چکا۔ سفید فام ’’انقلابی‘‘ گھروں کو جاچکے،ٹرمپ کے خلاف مواخذے کا بل کانگریس میں پیش کیا جاچکا۔ مگریہ سب کچھ ٹرمپ کے غصے میںدن بدن میں اضافے اور اسکی عوامی ذلت و رسوائی کو کئی گنا بڑھا رہا ہے۔
اس سب کا فوری نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ٹرمپ نے اپنا غصہ اپنے سفید فام متعصب سپورٹرز میں منتقل کر دیا ہے۔ اس دفعہ یہ لوگ واشنگٹن نہیں آئیں گے بلکہ اپنے اپنے علاقوں میں ہی مسلح مظاہرے کریں گے۔ ایف بی آئی نے کہا ہے کہ جس دن جوبائیڈن حلف اٹھائے گا اس دن پچاس ریاستوں کے ہیڈ کوارٹروں میں مسلح ہنگاموں کا منصوبہ بن چکا ہے۔ایسے ایسے لوگ اسلحہ کی خرید رہے ہیںاور چلانے کی تربیت حاصل کر رہے ہیںجنہوں نے کبھی اسلحے کو ہاتھ بھی نہیں لگایا تھا۔ پندرہ ہزار مسلح دستوں کو واشنگٹن میں 16جنوری سے تعینات کیا جارہا ہے جو وہاں 21جنوری تک رہیں گے تاکہ انتقال اقتدار کی تقریب بحسن و خوبی گزر جائے۔جس وقت فوج او ر سکیورٹی دارے واشنگٹن کی حفاظت پر مامور ہوں گے ،اس لمحے امریکی ریاستوں کے پچاس دارالحکومت صرف عام پولیس کے رحم و کرم پر ہوں گے اور آسان نشانہ بن جائیں گے۔ ٹرمپ کے سپورٹرز ان دنوںایک نعرہ بلند کررہے ہیں ’’ ملین ملیشیا مارچ‘‘ یعنی ’’دس لاکھ لوگوں کا مسلح جلوس‘‘، جو بعد میں واشنگٹن کو گھیرے گا۔ جو کچھ واشنگٹن میں کیپیٹل کی عمارت میں ہوا اس نے پورے امریکہ میں لاکھوںگوروں کو پُرجوش بنا رکھا ہے۔ جنوری کی 17تاریخ سے ریاستوں کے دارالحکومتوں میں مسلح جلوس نکلنا شروع ہو جائیں گے۔ گیارہ جنوری کو وائس آف امریکہ کے سروے کے مطابق 76فیصد امریکیوں نے کہا تھاکہ ’’ہمیں لگتا ہے کہ امریکہ کا جمہوری نظام سخت خطرے میں ہے‘‘۔ امریکہ کا ہراخبار 16جنوری سے 21جنوری کے ایام کو خوفناک اور امریکی جمہوریت کے لیئے تباہ کن قرار دے رہا ہے۔ سفید فام بالادستی ’’White Man Supremacy‘‘کی تمام قوتیں ان دنوں میںاپنے فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوں گی ۔
Source: 92 news
Must Read Urdu column Abhe tu Bohat Kuch Baqi hai By Orya Maqbool jan