اِبن بطوطہ اور شیخ مرُشدی – ڈاکٹر عبد القدیر
پُرانے زمانے سے سیاحوں نے ہمیشہ اپنے تجربوں کو سفرناموں کی شکل میں آئندہ نسلوں کے لئے لکھ دیا تھا۔ تاریخ ایسے سفرناموں، واقعات اور تاریخی حقائق سے بھری پڑی ہے۔ وسط اُنیسوی صدی میں ایک جرمن پادری ڈاکٹر وولف (Wolff) نے (جو انگلستان میں قیام پذیر ہوگیا تھا) بخارا کا سفر رائل جاگرافیکل سوسائٹی کی امداد سے کیا تھا اور بعد میں سفر نامہ بخارا (Mission to Bokhara) لکھا جو بہت سی معلومات پر مبنی ہے۔ اس وقت مسلمانوں کی بدکرداری اور عیاشی عروج پر تھی اور چند ہی سال بعد روس نے اس تمام علاقے پر قبضہ کرلیا تھا۔ امیر بخارا نے جب سنا کہ روسی فوجیں آرہی ہیں تو حکم دیا کہ مساجد میں آیت کریمہ کا وظیفہ پڑھ کر روسیوں کو بَددُعا دی جائے، نتیجہ وہی نکلا جو نکلنا تھا روسیوں نے چند دنوں میں خیوا، بخارا، سمرقند، تاشقند وغیرہ پر قبضہ کرلیا۔ یہ کتاب قابل مطالعہ ہے۔میں دراصل ہمارے اپنے عربی سیاح ابن بطوطہ کے سفر نامہ کے بارے میں ایک واقعہ، ایک معجزہ جو حقیقت پر مبنی ہے آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں۔ پرانے زمانے میں ہر مسلمان ملک و علاقہ میں اللہ ربّ العزت نیک بندوں کو روحانیت عطا کردیتا تھا۔ ہمارے بھوپال میں، میرے ہوش میں، جیّد ولی اللہ تھے اور میرا ذاتی تجربہ ہے یہ کبھی علیحدہ آپ کی خدمت میں پیش کروں گا۔ عیسائیوں کی جانب سے ابن
بطوطہ سے پہلے مارکو پولو نامی اٹلی کے باشندےنے ایک سفرنامہ لکھا تھا یہ وینس میں 1254 میں پیدا ہوا تھا اور 1324 میں وینس (Venice) میں ہی انتقال ہو ا تھا۔ ابن بطوطہ مراکو کا باشندہ تھا وہاں 24 فروری 1304 میں بمقام تنجیر(Tangier) پیدا ہوا تھا اور 1377 میں مراکش نامی شہر میں وفات پائی تھی۔ ابن بطوطہ نے تقریباً 7500 میل کا سفر کیا اور افریقہ، ایشیا (انڈونیشیا تک) چین تک سفر کیا۔ افریقہ کے بھی کئی ممالک کی سیرکی اور ان دوروں کی تفصیل اپنے سفرنامہ میں موجود ہے۔
اب آپ کی خدمت میں ابن بطوطہ اور شیخ مُرشدی (ولی اللہ) کا واقعہ بیان کرتا ہوں۔ قاہرہ کے مفتی اعظم اِبن مرزوق (وفات 1379 ) نے ابن بطوطہ کے بارے میں کہا تھا کہ ’’میں کسی ایسے شخص کو نہیں جانتا جو اتنے زیادہ ممالک میں گھوما پھرا ہو جتنا کہ ابن بطوطہ اور وہ فراخدل اور خوش اخلاق شخص تھا۔‘‘
جیسا کہ پہلے لکھ چکا ہوں ابن بطوطہ مراکش میں پیدا ہوئے تھے اور عرب النسل تھے (شمالی افریقی باشندے تھے مگر حقیقتاً بالکل عربوں کی طرح تھے) ۔ ان کا پورا نام شمس الدین ابو عبداللہ محمد ابن عبداللہ تھا اور تعلق بطوطہ قبیلہ سے تھا۔ آپ کو شمس الدین آپ کی تعلیمی قابلیت کی وجہ سے کہا جاتا تھا۔ ان کے سفر افریقہ سے ایشیا، روس ، چین تک پھیلے ہوئے تھے۔ معجزہ کا واقعہ یہ ہے۔ ایک دن، موسم بہار میں 1350 میں غرناطہ کے ایک باغ میں معززین کی ایک محفل سجی۔ باغ کا مالک ایک اسلامی اسکالر تھا۔ ابن بطوطہ کے علاوہ ایک اور عیسائی تھا جو عربی میں ماہر تھا اور اعلیٰ عربی کلام لکھتا تھا۔ ابن بطوطہ اپنے سفر سے ابھی ابھی واپس آئے تھے۔ ایک نوجوان نے جو اس محفل میں موجود تھا یہ واقعہ بیان کیا ہے۔ اس نے بتلایا کہ شیخ ابن بطوطہ نے اپنے سفر کے نہایت دلچسپ واقعات سنائے، لوگوں کے اور مقامات کے نام و واقعات سُنائے۔ اس وقت غرناطہ مسلمانوں کی آخری سلطنت تھی باقی تمام علاقہ پر عیسائیوں نے آہستہ آہستہ قبضہ کرلیا تھا (یہ مسلمانوں کے نفاق اور آپس کی لڑائیوں کا نتیجہ تھا)۔ ابن بطوطہ نے بتلایا کہ چین کے دور دراز علاقہ میں انھیں ایک چینی نے شیخ سعدیؒ کا کلام سنا کر حیرت میں ڈالدیایہ ہانگ چو (کینٹن) میں ہوا تھا۔ وہاں غرناطہ میں ابن بطوطہ کو کئی غیر ملکی دور دراز ملکوں کے باشندے ملے۔ یہاں تک کہ وہاں ہندوستان کے لوگ بھی موجود تھے۔ جب ابن بطوطہ اپنے سفر کے واقعات بیان کرتے تھے تو بادشاہ وقت کے حکم سے ان کو لکھ لیا جاتا تھا اور یہ تمام واقعات حقائق اور سچائی پر مبنی ہیں۔
’’ابن بطوطہ نے 1324 کو اپنے سفر کا آغاز کیا۔ 5 اپریل 1326 کو وہ مصر کے شہر اسکندریہ پہنچ گئے۔ وہاں انھوں نے لوگوں سے ایک ولی اللہ کی کہانیاں اور معجزات کے بارے میں سُنا۔ ان کا نام تھا شیخ ابو عبداللہ المرشدی جو دوردراز دیہات منیاط بنی مُرشدی میں رہتے تھے۔ اُمرأ، رئوساء، وزرأ اور بادشاہ وغیرہ روز ان کی خدمت میں حاضر ہوتے اور دُعا کی درخواست کرتے۔ ابن بطوطہ اسکندریہ سے روانہ ہوئے تاکہ ان ولی اللہ سے ملاقات کریں۔ انھیں بتایا گیا تھا کہ یہ ولی اللہ تمام مہمانوں کو تازہ اعلیٰ کھانا اور پھل (وہ پھل جو موسمی بھی نہ تھے) پیش کرتے تھے۔یہ وہاں پہلے فوّا نامی شہر پہنچے جہاں سرسبز باغات اور اعلیٰ پھل و سبزیاں بکثرت پیدا ہوتی تھیں وہاں پر ایک مشہور ولی اللہ شیخ ابولنجاح ؒ کی قبر تھی جو کہ ملک کے مشہور ترین ماہر علم الغیب مانے جاتے تھے۔ شیخ ابو عبداللہ المشہدی کی رہائش گاہ اس شہر کے قریب تھی لیکن ان کے درمیان ایک نہر یا دریا تھا۔ ابن بطوطہ یہاں نماز ظہر سے تھوڑی دیر پہلے پہنچے۔ جب وہ شیخ کے حجرے میں داخل ہوئے تو وہ اُٹھ کھڑے ہوئے، آگے بڑھ کر گلے لگایا اور کھانے کی دعوت دی، وہ ایک کالا جبّہ یا عمامہ پہنے ہوئے تھے۔ جب نماز کا وقت ہوا تو شیخ مرشدیؒ نے ابن بطوطہ کو امامت کی ذمّہ داری سونپی اور جب تک ابن بطوطہؒ وہاں ٹھہرے اُن ہی سے امامت کرائی۔ جب سونے کا وقت ہوا تو شیخ نے کہا جائو اوپر چھت پر سو جائو وہاں ہوا آتی ہے نیچے گرمی ہے۔ چھت پر ایک چٹائی بچھی ہوئی تھی اور ایک چمڑے کی دری بھی تھی، پانی، وضو کا بندوبست، گلاس (پیالہ) وغیرہ موجود تھے۔
رات کو سوتے میں ابن بطوطہؒ نے خواب دیکھا کہ وہ ایک بہت بڑے پرندے کے پر (بازو) پر بیٹھے ہیں اور وہ پرندہ ان کو خانہ کعبہ کی جانب لے جارہا ہے اور پھر اس نے رخ بدلا اور یمن کا رخ کرلیا، پھر مشرق کا رُخ کیا پھر جنوب کا رخ کیا اور آخر میں مشرق کی جانب طویل فاصلہ طے کیا پھر وہاں ایک اندھیرے اور سرسبز جگہ اُن کو اُتار دیا۔ ان کی آنکھ کھلی تو وہ خاصے پریشان ہوئے۔ پھر سوچا کہ اگر شیخ کو ان کے خواب کا علم ہوتا ہے تو پھر یقینا ًوہ ولی اللہ ہی ہیں جو لوگ ان کے بارے میں کہتے ہیں۔ ظہر کی نماز کے بعد شیخ مرشدیؒ نے ان کو بتلایا کہ وہ ان کے خواب سے واقف ہیں اور کہا، تم پہلے خانہ کعبہ جائو گے اور عمرہ (حج؟) کرو گے اور پھر وہاں سے مدینہ منورّہ جاکر روزہ مُبارک کی زیارت کروگے اور رسول اللہ ﷺکو سلام پیش کرو گے پھر تم یمن اور عراق (ترکوں کے ممالک) سے ہوتے ہوئے ہندوستان جائو گے۔ وہاں تم طویل مدّت تک رہو گے اور وہاں تم میرے بھائی دلشاد سے ملاقات کرو گے اور وہ تم کو ایک بڑے خطرے سے نجات دلائے گا جس میں تم پھنس جائو گے۔ پھر شیخ مرشدیؒ نے ابن بطوطہ کو سفر کے لئے کھانے پینے کی اور دوسری ضروریات کا سامان دیا۔ کچھ چھوٹے کیک، چند چاندی کے سکّے دیئے اور گلے لگا کر خدا حافظ کہا اور رخصت کردیا۔
اس کالم کے دوسرے حصّہ میں آپ کی خدمت میں وہ واقعات بیان کرونگا جن کی پیش گوئی شیخ مرشدیؒ نے کی تھی اور جو حرف بحرف صحیح ثابت ہوئے تھے۔ ابن بطوطہ ایک نہایت خطرناک اور مہلک مصیبت میں پھنس گئے اور قریب المرگ تھے کہ اچانک ایک شخص (سیاہ فام) نے آکر ان کی مدد کی اور موت سے بچا لیا۔ ابن بطوطہ کے دریافت کرنے پر انھوں نے کہا کہ ان کا نام دِلشاد ہے۔ ابن بطوطہ نے ان کو شیخ مرشدیؒ کا سلام پہنچایا، اُنھوں نے وعلیکم السلام کہا، مسکرائے اور تیز تیز چل کر فوراً نگاہوں سے غائب ہوگئے۔ (جاری ہے)
(نوٹ) آج کل ووٹ کوعزّت دو کے نعرے لگائے جارہے ہیں اور نعرے لگانے والوں نے اس ووٹ کی عزّت نہیں کی جو ان کو امانتاً دیئے گئے تھے بلکہ غرور، تکبّر سے اس کا غلط استعمال کیا اور عوام کے اعتماد کو پیروں تلے روند دیا۔جنوبی کوریا اور برازیل کے صدور براہ راست کروڑوں ووٹوں کی مدد سے صدر بنے تھے انھوں نے عوام اور ووٹ کے تقدس کو پامال کیا اور آج 24 برس اور 12 برس کی جیل کاٹ رہے ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)
Read Urdu column Abn e Batota aur Sheikh Murshadi By Dr Abdul Qadeer Khan
source