اچھے رفقائے کار کی اہمیت – ڈاکٹر عبد القدیر
جو ہدایات میں لکھ رہا ہوں یہ نظام الملک طوسی کی کتاب سیاست نامہ سے ہے جس کا ترجمہ جناب شاہ حسن عطا نے کیا ہے۔ حکمراں کے لئے بےحد ضروری ہے کہ اس کے پاس شائستہ اور مہذب قسم کے مشیر اور مصاحب ہوں۔ حکمراں ان مشیروں اور رفقائے مجلس سے کھل کر بات کر سکتا ہے اگر حکمراں، عمائدینِ سلطنت، امراء اور قائدین اور سردارانِ لشکر سے زیادہ ملاقات کرے گا تو اس کے وقار اور شان و شکوہ میں کمی واقع ہو جائے گی۔ اور یہ لوگ حکمراں سے بےتکلف اور گستاخ ہو جائیں گے۔ جس شخص کو بھی کوئی عہدہ سونپا جائے اسے مشیری یعنی حکمراں کی بےتکلف مجلس کی رُکنیت اور رفاقت نہیں حاصل ہونی چاہئے۔ اسی طرح حکمراں کے مشیر اور دوست کو کوئی عہدہ نہیں ملنا چاہئے ورنہ وہ حکمراں کے ساتھ اپنی بےتکلفی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دراز دستی شروع کردے گا اور لوگوں کو اذیت پہنچائے گا۔
حکومت کا ہر عامل اور کارکن ایسا ہونا چاہئے کہ وہ حکمراں کا رعب اور دبدبہ تسلیم کرے اور اس سے ڈرتا رہے البتہ مشیر بےتکلف ہو سکتا ہے۔ اس بےتکلفی اور گستاخی میں حکمراں کو لذت اور حلاوت ملتی ہے۔ اور اس کی طبع شاہانہ میں انبساط اور موزونیت پیدا ہوتی ہے۔ مشیروں کے لئے ایک خاص وقت مقرر ہوتا ہے۔ ان کا وقت وہ ہوتا ہے جب حکمراں بارِ عام دے چکا ہو اور عمائدینِ سلطنت سب ہی جا چکے ہوں۔ مشیر سے چند فائدے ہوتے ہیں ایک تو یہ کہ وہ حکمراں کا مونس اور غم گسار ہوتا ہے اور دوسرے یہ کہ چونکہ وہ شب و روز حکمراں کے ساتھ رہتا ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ حکمراں کے پاس ایک جاندار یعنی محافظ بھی رہتا ہے، (جان دار یعنی جان کو رکھنے والا، مراد محافظ۔ افسوس کہ یہ لفظ جو یہاں بےحد بجا اور مناسب ہے اس کا محل ایرانی محققوں کی سمجھ میں نہ آسکا۔ مترجم) پھر یہ کہ اگر خدانخواستہ کوئی خطرہ سامنے آجائے تو یہ مشیر اپنی جان نچھاور کر سکتا ہے اور حکمراں کی ذات پر حملے کو اپنی جان پر روک سکتا ہے۔ ایک بات اور ہے، حکمراں اپنے مشیروں سے ہر قسم کی باتیں کر سکتا ہے اور اپنے دل کی گرانی کم کر سکتا ہے۔ عمال اور حکام سے اس لئے بات نہیں کر سکتا کہ یہ بہرحال عامل اور کارکن ہوتے ہیں۔ یہ مشیر لوگ حکمراں کے سامنے دوسرے حکمرانوں کے تذکرے کر سکتے ہیں اور اچھی بھلی ہر قسم کی بات کرسکتے ہیں۔ اس میں بڑی بڑی مصلحتیں ہوتی ہیں۔ مشیر میں یہ صفتیں ہونی چاہئیں۔ وہ عالی نسب، پاک کردار، خوش طبع، صحیح العقیدہ، محرم راز اور خوش مسلک ہو، اسے بےشمار اقوال یاد ہونے چاہئیں۔
اکثر حکمران طبیبوں اور ماہرین علم نجوم کو اپنا مشیر بنا لیتے ہیں۔ اس کی پشت پر یہ خیال رہا ہے کہ ایسے مشیر ہر مشکل کا حل پیش کردیتے ہیں اور حکمراں کی طبیعت اور اس کے مزاج کا بھی لحاظ رکھتے ہیں۔ طبیب یہ بتا سکتا ہے کہ حکمراں کے مزاج کے لئے کون سی چیز سازگار ہوگی۔ اور منجم اور نجوم داں یہ بتا سکتا ہے کون سا وقت اور کون سی ساعت مبارک اور نامبارک ہے۔ منجم حکمراں کو اس منصوبے کے بارے میں مشورہ دے سکتا ہے اور نیک ساعت کا انتخاب کرسکتا ہے۔ بعض حکمراں ان دونوں باتوں سے انکار کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک مشیر کو نہ طبیب ہونا چاہئے نہ منجم۔ یہ حکمراں اس نظریہ کے ہوتے ہیں کہ اگر مشیر طبیب ہوتا ہے تو وہ اپنے طبی مشوروں سے ہمیشہ ہمیں عذاب میں رکھتا ہے۔ یہ مت کھائیے وہ مت کھائیے۔ غرض تمام لذیذ غذائوں سے ہم محروم رہ جاتے ہیں۔ ایک اور مصیبت ہوتی ہے طبیب قسم کا مشیر مبتلائے مرض ہوئے بغیر ہمیں دوائیں دیتا رہتا ہے یعنی خواہ ہم مرض میں مبتلا ہوں یا نہ ہوں اور ذرا ذرا سی بات میں فصد الگ کھولنے لگتا ہے دوسری طرف منجم ہر اس کام سے جو کرنے کا ہوتا ہے منع کرتا رہتا ہے اور اہم امور میں مزاحم ہوتا ہے۔ اور اس طرح زندگی ایک وبال جان بن جاتی ہے۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ طبیب یا منجم کی جس وقت ضرورت ہو اُنہیں طلب کیا جائے یہ نہیں کہ یہ ہروقت پیچھے لگے رہیں۔
ہر مشیر کا مرتبہ اور اس کی منزلت متعین ہونی چاہئے۔ بعض مشیروں کو دربار میں بیٹھنے کا اذن (حکم) ملتا ہے لیکن بعض کھڑے ہی رہتے ہیں۔ قدیم حکمرانوں کا یہی انداز رہا ہے، یہی ان کی رسم رہی ہے۔ خلفاء قدیم کے خاندانوں میں اب تک یہی روایت قائم ہے۔ خلیفہ کے مشیروں کی تعداد اس کے والد کے مشیروں کی تعداد کے برابر ہوتی ہے۔غزنین کے سلطان کے پاس ہمیشہ بیس مشیر ہوتے ہیں۔ دس اذن نشست (بیٹھنے کا حکم) پاتے تھے اور دس ایستادہ (کھڑے ہوئے) رہتے تھے۔ یہ رسم اور یہ روایت سامانیوں کے عہد سے قائم ہے۔ حکمراں کے مشیر کو مکمل احترام حاصل ہونا چاہئے۔ لیکن مشیروں کو بھی انتہائی مہذب اور خوددار ہونا چاہئے۔ ہمارے حکمرانوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ:
ہزاروں پھول سے چہرے جھلس کے خاک ہوئے
بھری بہار میں اس طرح اپنا باغ جلا!
ملی نہیں ہے ہمیں ارض پاک تحفے میں
جو لاکھوں دیپ بجھے ہیں تو یہ چراغ جلا!
محسن بھوپالی
Read Urdu column Achay Rufaqaye Kaar ki Ahmiat by Dr Abdul Qadeer khan