’’ اے پیارے عوام!اے پیاری اشرافیہ!– حسن نثار

hassan-nisar

یہ سوال مسلسل میرے اعصاب پر سوار ہے کہ اگر پاکستان اقتصادی سمیت ہر حوالہ سے بہت مضبوط ہوتا تو کیا کسی مودی کو ایسی پہل کاری کی جرأت ہوتی؟ اور اگر ایسا کچھ ہو بھی گیا ہوتا تو کیا دنیا کا ضمیر اسی طرح خراٹے یا جمائیاں لے رہا ہوتا؟دشمن تو دشمن ہوتا ہی ہے، گزشتہ 72اور بالخصوص گزشتہ 30، 35سال میں خود ہم نے کیا کیا؟ ہماری اجتماعی کارکردگی کیسی رہی اور اگر کوئی غیرجانبدار، دیانتدار ممتحن ہماری پرفارمنس کی مارکنگ کرے تو ہمیں کتنے مارکس دے گا؟ ہمیں اے گریڈ ملے گا بی یا سی؟ ہمیں فرسٹ ڈویژن ملے گی؟ سیکنڈیا تھرڈ ڈویژن؟ ہماری کمپارٹمنٹ آئے گی یا ہمیں فیل کر دے گا؟ بنگلہ دیش وغیرہ کو تو چھوڑیں کہ _____حادثہ تھا گزر گیا ہو گاکس کے جانے کی بات کرتے ہوچند سادہ بے ضرر سی باتوں پر غور کرتے ہیں ۔انگریز یقیناً غاصب اور ولن تھا لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ ولن ہمیں جاتے جاتے جیسی ریلوے دے گیا تھا، آج بھی ویسی ہی ہے کہ ہم نے ’’آزادی‘‘ سے اس کا بیڑہ غرق کر کے رکھ دیا۔ بہتری آئی یا بدترین بدتری؟اقتصادی حوالوں سے گورا ہم پر کتنا ’’قرضہ‘‘ چھوڑ گیا تھا؟ ہم نے کس کا کیا دینا تھا اور ہندوستان سے کیا لینا تھا؟انگریز نے جو بیورو کریسی چھوڑی وہ ہماری ’’ایجاد کردہ‘‘ موجودہ بیورو کریسی سے کم قابل، ذمہ دار، محنتی اور دیانت

دار تھی یا زیادہ؟ وہ ملک لوٹ کر مال باہر لے جاتے تھے کہ اِن لوگوں نے یہ کلچر متعارف اور مقبول کیا؟سیانوں سے سنا کہ ان کی گورننس میں کوئی درخت کی شاخ تک کاٹنے کی جرأت نہ کرتا لیکن کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم نے جنگل کے جنگل ہی بیچ کھائے ہوں۔نہری نظام تب کیسا تھا؟ اب کیسا ہے؟ اس میں پھیلائو آیا یا سکڑائو؟ خود مجھے یاد ہے بچپن میں نہروں کے کنارے دیکھنے سے تعلق رکھتے تھے اور آج؟کیا فرنگی کے زمانے میں بھی سرکاری ہسپتال سلاٹر ہائوسز کے کزن دکھائی دیتے اور سول سروس امتحانوں کے پرچے لیک ہوتے تھے اور تھانوں سے لے کر امتحانی مراکز تک کی نیلامی ہوتی تھی؟آج کے کراچی میں ڈوب مرنے کے لئے پانی کی فراوانی ہے لیکن دوسری طرف لوگ پینے کے پانی کو ترس رہے ہیں۔ کیا گورے کے زمانے میں وہاں بارشیں نہ ہوتی تھیں؟ چند ماہ پہلے ایک انگریزی ہفت روزہ میں قائد ملت لیاقت علی خان کے کسی بھانجے یا بھتیجے جاوید علی خان کا مضمون قسطوں میں شائع ہوا۔ مصنف نے یہ مضمون اپنے بچپن کے دوست اداکار وحید مراد مرحوم کے حوالے سے لکھا جو بہت دلچسپ تھا۔ اس خوب صورت مضمون کی ایک اضافی خوبی یہ تھی کہ اس میں ان وقتوں کا کراچی بھی دیکھا جا سکتا جو بہت بھلا تھا۔ پھر اس کی سڑکوں کے نام ہی نہیں شہر کا چارم چرا کر اسے چراگاہ اور چائنا کٹنگ کا شہکار بنا دیا گیا۔ آج یہ ایک بہت بڑا ڈسٹ بن ہے۔ خود میں بھی تھوڑا تھوڑا عینی شاہد ہوں، 1975-76میں وفاقی حکومت مجھے گریڈ 18میں باندھ کر اسلام آباد لے گئی۔ تھا میں ڈائریکٹر پراونشل کوآرڈی نیشن لیکن عملاً پبلی کیشنز کا سربراہ اور ماہنامہ ’’السیف‘‘ کا ایڈیٹر۔ ہر ماہ کراچی جانا تقریباً لازمی تھا۔ اولڈ کمشنرز ہائوس میں ہی دفتر اور رہائش۔ شام کو کام سے فارغ ہو کر میں جمیل الدین عالی صاحب مرحوم کے داماد (تب ابھی شادی نہیں ہوئی تھی) جانی اور تاجی مرحوم کے ساتھ آوارگی کیلئے نکلتا تو کراچی طلسماتی سا لگتا، ایک عجیب سا بھیگا بھیگا رومانس اس کی فضائوں میں تھا، پھر انہی فضائوں میں دہشت اور خون کی بُورچتی چلی گئی اور آج کا کراچی جس کی وجوہاتِ شہرت میں شاپروں سے لے کر ریلوے ٹریک پر تعمیرات تک بہت کچھ شامل ہے۔ میں تو دو ڈھائی سال میں یہ سرکاری ملازمت چھوڑ کر واپس لاہور آ گیا جس کے بعد کراچی جانا نہ جانے کے برابر تھا کہ بیرون ملک جاتے کراچی رکتا تاکہ اداکار سلیم ناصر مرحوم اور نثار قادری سے مل سکوں جو قریبی دوست تھے۔ ان دنوں سلیم ناصر ایک میگزین نکالا کرتا سو شکر ہے میں نے اجڑا کراچی دیکھا نہیں صرف سنا ہے۔مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ آزادی اور مادر پدر آزادی میں کیا فرق ہوتا ہے لیکن اس فرق کو سمجھنے کے لئے آج اور آج سے 40، 50سال پہلے کے پاکستان میں فرق سمجھنا ضروری ہو گا۔یہ تو آزادی کے بعد والی دیگ کے چند معمولی سے دانے تھے، اس سے کچھ پیچھے جائیں تو نقشہ ہی کچھ اور ہے جس کی صرف چند جھلکیوں پر اکتفا کرتے ہیں۔برصغیر میں گورا کبھی ایک لاکھ سے زیادہ نہیں رہا۔1850ء میں انگلینڈ کی آبادی صرف 1کروڑ 66لاکھ تھی جبکہ چشم بددور 1850ء میں ہی انڈیا کی آبادی 20کروڑ سے زیادہ تھی۔انگلینڈ کا اپنا ذاتی سائز صرف 50ہزار 385 مربع میل تھا جبکہ یہاں وہ 9لاکھ 74ہزار مربع میل پر قابض رہا، خطہ کو بہت کچھ دیا اور بہت عمدگی سے چلایا بھی۔آخر پر مقبوضہ 9لاکھ 74ہزار مربع میل کی ادھوری سی تفصیل۔ یہ رہے برٹش انڈیا کے زیر نگیں علاقے….برما (میانمار) جہاں آخری مغل بادشاہ کا مزار ہے1:لاکھ 70ہزار مربع میل بنگال1:لاکھ 51ہزار مربع میل مدراس (چنائے)1:لاکھ 42ہزارممبئی1:لاکھ 23ہزاریوپی1:لاکھ 7ہزار پنجاب97: ہزار آسام49: ہزار بلوچستان46: ہزارجرائز انڈیمن30:ہزاراجمیر (شریف)27: ہزار16:NWFPہزارکورج 16:ہزار ٹوٹل9: لاکھ 74ہزار مربع میل جبکہ 565پرنسلی اسٹیٹس اس کے علاوہ اور دنیا میں دیگر برٹش کالونیز علیحدہ۔اے عوام اور اشرافیہ!عرض کرنے کا مطلب یہ کہ اگر ہم نے حق آزادی ادا کرتے ہوئے اعلیٰ طریقہ سے پرفارم کیا ہوتا، ملکی وسائل پر ہاتھ صاف نہ کئے ہوتے تو آج ہندوستان کا سائز، اس کی آبادی، اس کے وسائل کی حیثیت ثانوی بھی نہ ہوتی کہ اگر 50ہزار 385مربع میل کا انگلینڈ 9لاکھ 74ہزار مربع میل پر صرف 1لاکھ گورے کے ساتھ قابض ہو سکتا ہے (باقی دنیا علیحد) تو بھارت کی کیا مجال تھی جو اس طرح بی ہیو کرتا۔گزشتہ پہ غور آئندہ کیلئے ضروری ہوتا ہے لیکن شاید یہ سب ’’دیہہ جماعتاں پاس ڈائریکٹ سیاستدانوں‘‘ کے بس کی بات ہی نہیں جو لوٹ مار سے متعلق ہر سوال کے جواب میں کہتے ہیں۔’’پتہ نہیں‘‘۔ یہی لچھن رہے تو لگ پتا جائے گا۔

Source: Jung News

Read Urdu column Ae pyaray awam ae pyari ashrafiah By Hassan nisar

Leave A Reply

Your email address will not be published.