اگر آسمان والا – جاوید چوہدری
میجرجنرل کرسٹوفر ڈونا ہو نیویارک سے تعلق رکھتے ہیں‘ 1992میں فوج میں کمیشن لیا‘ جنوبی کوریا سے ملٹری کیریئر شروع کیا اور پھر پیچھے مڑ کر نہ دیکھا‘ یہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے اسپیشل اسسٹنٹ بھی رہے اور سپورٹ آپریشنز میں 17 مرتبہ افغانستان‘ عراق‘ شام‘ شمالی افریقہ اور مشرقی یورپ بھی گئے۔
ان کی تازہ ترین پوسٹنگ افغانستان میں تھی‘ یہ 30 اگست 2021 کی رات افغانستان سے نکلنے والے آخری فوجی تھے اور یہ اس اعزاز کے ساتھ اب تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے‘ میجر جنرل کرس ڈونا ہو کا اعزازصرف یہاں تک محدود نہیں بلکہ یہ دنیا کے تمام پسے ہوئے ملکوں اور طبقوں کے نام ایک پیغام بھی ہیں‘ کرس ڈونا ہو نے جوں ہی امریکی جہاز سی 17 کی سیڑھی پر قدم رکھا اور ان کا افغان سرزمین سے تعلق ختم ہوا‘ اس کے ساتھ ہی یہ پیغام پوری دنیا میں نشر ہو گیا‘ یہ زمین صرف اور صرف اللہ کی ہے اور اللہ جب چاہتا ہے یہ ہاتھیوں کو بھی کنکریوں سے بھس بھرے گدے بنا دیتا ہے‘ یہ امریکا کو بھی اپنے قدم بوریا نشینوں کے ملک سے سمیٹنے پر مجبور کر دیتا ہے۔
میں نے 2010 میں پاکستان میں طالبان کے آخری سفیر ملا عبدالسلام ضعیف کی کتاب ’’اژدھا کے منہ میں چار سال‘‘ پڑھی تھی‘ ملا عبدالسلام 2002 سے 2006 تک چار سال امریکا کی قید میں رہے تھے‘ یہ 2006ء میں گوانتانا موبے سے رہا ہوئے‘ کابل آئے اور گم نامی میں زندگی گزارنے لگے‘ انھوں نے2007 میں پشتو زبان میں اپنے چار سال کی روداد لکھی تھی۔
اس کتاب کو نوشہرہ میں ’’ہیومن رائٹس پبلی کیشنز‘‘ نے اردو میں ترجمہ کر کے شائع کیا‘ جنرل پرویز مشرف کا دور ختم ہو چکا تھا‘ پیپلز پارٹی کی حکومت تھی لہٰذا یہ کتاب شائع ہوئی اور اس نے درد دل رکھنے والوں کو ہلا کر رکھ دیا‘ میں نے طالبان کی واپسی کے بعد یہ کتاب دوبارہ پڑھی اور دیر تک افسردہ بیٹھا رہا‘ ملا عبدالسلام ضعیف نے لکھا ’’میں افغان ایمبیسی کے مہمان خانے میں آیا‘ وہاں تین افراد بیٹھے تھے‘ ان میں سے ایک پٹھان تھا جس نے گلزار کے نام سے اپنا تعارف کرایا جب کہ دیگر دونوں اردو بولنے والے تھے۔
ان میں سے ایک انتہائی بدصورت‘کالے کلوٹے اور بھدے ہونٹوں والے نے طنزیہ انداز میں کہا‘ آپ جانتے ہیں امریکا اس وقت سپر پاور ہے‘ پاکستان جیسا کم زور ملک اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا‘ اس سپر پاور کو آپ کی ضرورت ہے اور ہم آپ کو گرفتار کر کے امریکا کے حوالے کرنے آئے ہیں تاکہ امریکی خوش ہو سکیں اور پاکستان کو کوئی گزند نہ پہنچے‘‘ عبدالسلام ضعیف کے مطابق’’ میں نے جواب دیا امریکا ایک سپر پاور ہے لیکن اس کے باوجود دنیا کے معاملات چلانے کے لیے کچھ قوانین اور اصول ہیں۔
آپ مجھ سے کن اسلامی‘ غیر اسلامی اور بین الاقوامی اصولوں کے تحت یہ سلوک کر رہے ہیں‘ آپ مجھے زیادہ سے زیادہ ملک چھوڑنے کا حکم دے سکتے ہیں‘‘ ملا ضعیف کے مطابق’’ اس شخص نے توہین آمیز لہجے میں کہا ‘ہماری نظر میں اس وقت صرف پاکستان کے مفادات اہمیت کے حامل ہیں اور بس‘‘ ملاضعیف کے مطابق ’’مجھے اسلام آباد سے گرفتار کر کے پشاور لایا گیا اور پھر منہ پر پٹی باندھ کر امریکیوں کے حوالے کر دیاگیا اور امریکیوں نے مجھ پر لاتوں‘ گھونسوں‘ تھپڑوں اور مکوں کی بارش کر دی‘ مجھے زمین پر پٹخ دیا گیا اور چاقوؤں سے میرا لباس پھاڑ کر مجھے بالکل ننگا کر دیا گیا۔
اس دوران میری آنکھوں کی پٹی سرک گئی تو میں نے دیکھا‘ پاکستانی اہلکار فوجی انداز میں صف بستہ کھڑے تھے‘ ان میں غالباً کوئی افسر بھی تھا‘ دوسری طرف چند امریکی فوجی منظم انداز سے کھڑے تھے جب کہ باقی امریکی میرے ساتھ وحشیانہ اور ظالمانہ سلوک کر رہے تھے‘‘ ملا ضعیف نے لکھا ’’پاکستان مجھے امریکیوں کے حوالے کرنے پر مجبور تھا‘ میں مان لیتا ہوں لیکن یہ کم از کم امریکی اہلکاروں سے یہ تو کہہ سکتا تھا آپ ایک بے بس قیدی سے ہماری آنکھوں کے سامنے اس قسم کا غیر انسانی سلوک نہ کریں‘ امریکیوں کے اس توہین آمیز سلوک پر پاکستانی اہلکاروں کا یوں خاموش رہنا یہ وہ سنگین جرم ہے جسے نہ کوئی غیرت مند اور باضمیر انسان معاف کر سکتا ہے اور نہ بھول سکتا ہے‘ یہ زخم زندگی بھر مندمل نہیں ہو سکتے۔‘‘
ملا عبدالسلام ضعیف کو پشاور سے سمندر میں کھڑے امریکی بحری جہاز میں لے جایا گیا‘ وہاں اسے روز شدید تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا‘ تین بائی چھ فٹ کے قبر نما کمرے میں بند کر دیا جاتا تھا‘ ہاتھ پاؤں باندھ کر گٹھڑی سا بنا کر پھینک دیا جاتا تھا‘ پانی اور کھانا نہ ہونے کے برابر دیا جاتا تھا‘انھیں وہاں سے گٹھڑی کی طرح باندھ کر بگرام لایا گیا‘ وہاں انھیں شدید سردی میں ننگا لٹا دیا جاتا تھا‘ ان کے ساتھ دوسرے قیدی بھی تھے اور یہ سب رو رو کر اللہ سے موت کی دعا کرتے تھے کیوں کہ بگرام کی زندگی سے موت ہزار گنا بہتر تھی۔
ملا ضعیف کو پھر بگرام سے قندہار شفٹ کر دیا گیا‘ یہ ان کی زندگی کا مشکل ترین دور تھا‘ یہ پانچ ماہ قندہار میں رہے جس دوران انھیں ہاتھ منہ نہ دھونے دیا گیا‘ پینے کے لیے چند قطرے پانی دیا جاتا تھا اور یہ اگر اس سے ہاتھ گیلا کر کے منہ پر پھیرتے تھے تو انھیں بدترین سزا دی جاتی تھی‘ کھانے سے بو آتی تھی‘ قیدیوں کو سور کا گوشت کھلایا جاتا تھا‘ رفع حاجت کے لیے 20 افراد کو دو بالٹی پانی دیا جاتا تھا اور واش روم سے پہرے داروں کی نگرانی میں فارغ ہونا پڑتا تھا‘ قید خانے میں اور بھی قیدی تھے۔
تمام کو روزانہ تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا‘ ملاعبدالسلام ضعیف کو آخر میں قندہار سے گوانتانا موبے شفٹ کر دیا گیا‘ یہ جہاز میں بارہ گھنٹے بندھے رہے‘ بازو اور ہاتھ سوج گئے جن کی وجہ سے ان کے ہاتھ تین ماہ بے حس رہے‘ گوانتانا موبے کی جیل قندہار اور بگرام سے بھی خوف ناک تھی‘ ان کے سامنے بے شمار قیدی بیمار ہو کر فوت ہو گئے‘ بے شمار پاگل ہو گئے اور بے شمار تشدد کے دوران ہلاک ہو گئے‘ گوانتانا موبے کا احوال خون آشام تھا اور یہ پڑھ کر یقین نہیں آتا کیا انسان بھی انسانوں کے ساتھ یہ سلوک کر سکتے ہیں۔
بہرحال چار سال کی مسلسل اذیت اور ظلم کے بعد عبدالسلام ضعیف کو افغان حکومت کے حوالے کر دیا گیا اور یہ کابل کے مضافات میں اپنے خاندان کے ساتھ گم نامی کی زندگی گزارنے لگے لیکن امریکی تشدد اور جنرل پرویز مشرف کے ساتھیوں کی زیادتیاں ابھی تک ان کے ذہن میں تازہ ہیں‘ یہ دوبارہ نارمل نہیں ہو سکے۔
یہ صرف ملا عبدالسلام ضعیف کی داستان نہیں‘ ایسے لاکھوں لوگ تھے اور یہ لاکھوں لوگ امریکا کے ساتھ احمد شاہ مسعود کے رقص بسمل کا شکار بھی ہوئے اور رشید دوستم کے کنٹینروں میں بھی دم گھٹنے سے مر گئے‘ میں طالبان کے طرز حکمرانی کے بھی خلاف تھا‘ طالبان نے اپنے پہلے دور میں معاشرے کو غیر ضروری بندشوں کا شکار بنا دیا تھا‘ خواتین کو گھروں تک محدود کر دینا‘ لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی لگا دینا‘ داڑھی اور برقعے کو قانون بنا دینا اور پوری دنیا کے ساتھ ’’اڈہ‘‘ لگا لینا یہ حماقت تھی لیکن امریکا اور اس کے اتحادیوں نے طالبان کے ساتھ جو کیا ہم اسے بھی کسی طرح مہذب قرار نہیں دے سکتے۔
یہ بھی بے انتہا ظلم تھا اور یہ ظلم اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے یہاں تک کہ امریکا کو دو ٹریلین ڈالر کے اخراجات‘ 20 سال کے قبضے اور اڑھائی ہزار فوجیوں کی لاشوں کے ساتھ بالآخر 30 اگست کو افغانستان سے واپس لوٹنا پڑ گیا جس کے بعد علامہ اقبال کی پیشن گوئی سچ ثابت ہوگئی‘ افغان باقی…کہسار باقی…الحکم اللہ … الملک اللہ۔ افغانوں نے تیسری سپر پاور کو شکست دے کر ثابت کر دیا قوم اگر ڈٹ جائے تو پھر جارح برطانیہ ہو‘ روس ہو یا پھر امریکا ہو وہ بالآخر واپس جانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
برطانیہ کے پرانے فوجی کہتے تھے افغانستان پر قبضہ انتہائی آسان ہے‘ کوئی بھی آئے اور افغانستان پر قابض ہو جائے لیکن کیا وہ افغانوں کو زیر کر سکتا ہے‘ یہ ناممکن ہے‘ اسے بالآخر کبھی نہ کبھی افغانستان کو اس کے حال پر چھوڑ کر واپس جانا ہو گا‘افغانستان میں1839 میں برطانیہ آیا‘پہلی افغان اینگلو وار ہوئی‘برطانیہ تین سال افغانستان پر قابض رہا لیکن پھر اس کے 16 ہزارفوجی افغانستان کے پہاڑوں میں ذبح ہو گئے‘ افغانوں نے صرف ڈاکٹرولیم برائیڈن کو چھوڑا تاکہ وہ باقی زندگی دنیا کو افغانوں کے بارے میں بتاتا رہے اور ڈاکٹرولیم برائیڈن مرنے تک یہ فریضہ سرانجام دیتا رہا‘ سوویت یونین بھی 1979 میں آیا‘ دس سال رہا لیکن آخر میں خود ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا اور تیسری طاقت امریکا تھا۔
یہ بیس سال افغانستان میں رہا لیکن آخر میں کیا نتیجہ نکلا؟ میجر جنرل کرس ڈونا ہو نے کابل ایئرپورٹ کو ہاتھ ہلا کر گڈ بائی کہا اور امریکا بھی افغانستان سے واپس لوٹ گیا جس کے بعد طالبان آئے‘ کابل ایئرپورٹ پر کھڑے ہو کر اذان دی‘ صف بہ صف کھڑے ہو کر باجماعت نماز ادا کی اور دنیا کو یہ بتا دیا‘ یہ زمین صرف اور صرف اللہ کی ہے اور اللہ اگر نہ چاہے تو دنیا کی واحد سپر پاور بھی بیس سال میں طالبان جیسے بے آسرا لوگوں کو دبا نہیں سکتی۔
امریکا بھی پہاڑوں کے غاروں میں رہنے اور رات کے باسی ٹکڑے قہوے میں بھگو کر کھانے والے طالب علموں کا مقابلہ نہیں کر سکتا‘ طالبان اور افغانوں نے ثابت کر دیا اگر آسمان والا آپ کے ساتھ ہے تو پھر زمین کی کون کون سی طاقتیں آپ کے خلاف ہیں‘ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور اگر اوپر والا آپ کے ساتھ نہیں ہے تو پھر آپ روس ہوں یا امریکا آپ طالبان جیسے بے سروسامان لوگوں سے بھی ہار جاتے ہیں‘ بے شک اللہ ہی اکبر ہے اور یہ ہی رہے گا۔
Source: Express News
Must Read Urdu column Agar aasman Wala By Javed Chaudhry