اگر سمت درست نہ ہوئی تو….!-ارشاد بھٹی
آئی ایم ایف پیکیج کہانی سے پہلے کچھ سنی سنائی باتیں، سنا ہے دونوں اپوزیشن جماعتوں کے قاصد چیئرمین نیب سے ملے، کہا ’’مستعفی ہو جائیں، جو چاہیں گے ملے گا‘‘۔ تین مراعات بھری پیشکشیں وصول کر کے چیئرمین نیب نے جب بہت اصرار کیا کہ ’’یہ تو بتاو ٔمیرے مستعفی ہونے سے آپ کو کیا ملے گا‘‘ جواب ملا ’’احتساب کا عمل slowہوگا، آپ کے جانے کے بعد نیا چیئرمین لگانے کا مرحلہ آئے گا، اپوزیشن ہر حکومتی امیدوار رد کر دے گی، پیچیدہ، گمبھیر صورتحال میں لین دین ہوگا، اُس کے بعد کا پلان، یہ نہیں بتا سکتے‘‘، اندازہ لگائیں جو اپوزیشن چیئرمین نیب کو اتنی بڑی پیشکشیں صرف اِس لئے کر رہی کہ نظام مفلوج کیا جائے، وہ حکومت کو خوشی خوشی کیسے چلنے دے گی، ہاں کچھ لین دین، سودے بازی ہو تو وہ علیحدہ بات، جیسے اندر خانے چھوٹے سے ’مک مکا‘ کے بعد دو دن پہلے پارلیمنٹ میں عمران خان کی تقریر اپوزیشن نے سکون سے سنی، زیادہ شور ڈالنے والے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت اسمبلی میں ہی نہ آئے، باقی چپ چاپ بیٹھے رہے، سنا ہے کہ نیب پر بہت دباؤ کہ ایک صاحب کو کلیئر کیا جائے کیونکہ اُسے وفاقی وزیر اطلاعات لگانا، نیب حکام جوابی پیغام بھجوا چکے ’’کیس چلے گا، میرٹ پر بری ہو جائیں تو ٹھیک، اُس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں‘‘۔ سنا ہے کہ ایک وفاقی وزیر کی انکوائری حتمی مراحل میں، پبلک عہدوں کے دوران اثاثوں میں اربوں کا اضافہ ہوا‘‘، سنا ہے کہ دو نامور سیاستدانوں کے خلاف تحقیقات آخری مراحل میں، جنگلات کی سینکڑوں ایکڑ زمین دے کر ایک ہاؤسنگ سوسائٹی سے 2سو کنال زمین لی، سنا ہے کہ وزیراعظم کے ایک مشیر کے خلاف فنڈز کی خوردبرد، سرکاری بسیں NGOکو دینے کا معاملہ بھی اختتامی لمحوں میں، سنا ہے کہ نیب نے ایک وفاقی وزیر کیخلاف ڈیکلیئر کی گئی بیرون ملک جائیدادوں، منی لانڈرنگ ثبوت ملنے پر انکوائری شروع کی تو نیب کو بتایا گیا یہ انکوائری ایف آئی اے میں ہو رہی، آپ اُس سے دور ہی رہیں، اب نیب اور ایف آئی اے میں خط و کتابت ہورہی، سنا ہے ایک وفاقی وزیر کے خلاف ریفرنس تیار ہو چکا، کبھی بھی کچھ ہو سکتا ہے، سنا ہے پنجاب کے چند حاضر، کچھ سابق وزراء کے خلاف بھی کرپشن ثبوت مل چکے، کرپشن ریکارڈ کی چھان بین ہورہی۔
سنا ہے کہ ایف آئی اے نے 8ارب ہنڈی اسکینڈل پکڑ کر ریکارڈ ایف بی آر کو دیا کہ اُن سے غیر قانونی طور پر بھیجی گئی رقم پر ٹیکس وصول کریں، ایف بی آر نے ایف آئی اے سے کہا ’’فکر نہ کریں، اب یہ معاملہ ہمارا ہوا‘‘ اور پھر اُس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی، ایف بی آر نے ابھی تک مذکورہ پارٹی کو ایک نوٹس بھی نہیں بھیجا، سنا ہے کہ اِسی طرح ایف آئی اے نے کراچی میں 15ارب کا ہنڈی اسکینڈل ایف بی آر کے سپرد کیا، اُس پر 3ماہ سے خاموشی، سنا ہے کہ سندھ میں منی لانڈرنگ کی تحقیق کرنے والی جے آئی ٹی ٹیم نے شوگر مافیا کے ذمے واجب الادا ساڑھے 9ارب کا ٹیکس ریکارڈ ایف بی آر کے ذمے کیا، یہاں بھی لمبی چپ، یہ سب وہاں ہو رہا جہاں ایک ایک ڈالر کی بھیک مانگی جارہی، جہاں ٹیکس شارٹ فال ریکارڈ ساز ہو چکا، جہاں غریبوں پر ٹیکس پہ ٹیکس لگائے جا رہے وہاں تینوں مذکورہ پارٹیاں ایف آئی اے کے سامنے کہہ چکیں کہ ہم جرمانہ، واجب الادا ٹیکس دینے کو تیار مگر ایف بی آر فل اسٹاپ، کاموں کی غلطیاں نکالنے، میٹنگوں پہ میٹنگیں ہی کر رہا، سنا ہے کہ سندھ، پنجاب میں کرپشن کی کئی ہوش ربا داستانیں سامنے آنے والیں، سنا ہے کہ خیبر پختونخوا، بلوچستان سے بھی بڑے بڑے ناموں کے بڑے بڑے ’کرتوتوں‘ کا کچھا چٹھا کھلنے والا، سنا ہے کہ مرکز، پنجاب، خیبر پختونخوا میں عید کے بعد وسیع پیمانے پر تبدیلیاں ہونے والیں۔
اب آجائیں آئی ایم ایف پیکیج پر، بلاشبہ نئے ٹیکسوں کی بھرمار ہونے والی، مہنگائی جوبن پر ہوگی، بلاشبہ آئی ایم ایف کی شرطیں، پل صراط پر چلنے کے مترادف، حکومت کیلئے اگلے 39ماہ Do or Dieوالے، حکومت یہ امتحان پاس کر گئی، قوم آئی ایم ایف کے جھٹکے برداشت کر گئی تو آگے اچھا وقت، آئی ایم ایف پیکیج کیا، شرطیں کیا، کیا کچھ کتنے عرصے میں ملے گا، یہ سب تو سب کے سامنے، یہاں کرنے والی چند باتیں، بلاشبہ حکومتی معاشی ٹیم نے 9مہینے ضائع کئے، نالائقی، نااہلی دکھائی، کنفیوژن کا شکار رہی مگر وہ ملک جہاں پاناما، دبئی لیکس یہ بتائیں کہ سیاستدانوں کا کرپشن مال باہر، بڑے بڑے تاجروں کی ڈکیتیوں کا کالا دھن باہر، بیوروکریسی نے دونوں ہاتھوں سے ملک لوٹا، اپنی اپنی اوقات، بساط کے مطابق قوم کی اکثریت لوٹ مار کر رہی، جہاں نظام کرپٹ، ٹیکس چوری انتہا پر، ٹیکس لینے والے ٹیکس چوری کے طریقے بتانے والے، جہاں بیڈ گورننس کے تڑکے ’کرپشن ہانڈی‘ کے مزے دوبالا کر چکے، مطلب جہاں حکمراں خود خزانہ لوٹیں، بیوروکریسی مال بنائے، دوسروں کو مال بچانے کے رستے بتائے اور جہاں مردہ جانوروں کی انتڑیوں، چربی سے گھی بناتی، یتیموں، مسکینوں کی زکٰوتیں ہڑپ کر جاتی، گدھوں، کتوں کی کڑاہیاں کھلاتی قوم کا حال یہ کہ 22کروڑ میں صرف 7لاکھ ٹیکس دیں وہاں پالیسیاں آئی ایم ایف ہی بنائے گا، وہاں رضا باقر ہی آئیں گے، پھر یاد رہے بھکاریوں کی خود مختاریاں نہیں ہوا کرتیں، بھوکوں سے من مرضی کے معاہدے نہیں کئے جاتے، کرپٹ لیڈروں والی کرپٹ قوم سے برابری کی سطح پر ڈیلیں نہیں کی جاتیں اور اپنے گھروں میں خود چوریاں کرنے والوں کی عزتیں نہیں ہوا کرتیں۔
ہاں عمران خان سے یہ امید ضرور تھی کہ کرپشن، ڈکیتیاں، چوریاں روکیں گے، فرسودہ نظام بدلیں گے، پرانی غلطیاں نہیں دہرائیں گے، تبدیلی غریبوں کی زندگیوں میں آئے گی مگر 9مہینوں میں تو وہی ہوا جو پہلے ہورہا تھا، وہ بھی بیڈ گورننس کے ساتھ، لیکن ہم پہلی بار آئی ایم ایف کے پاس نہیں گئے، گزرے 70سالوں میں 21بار آئی ایم ایف کا دروازہ کھٹکھٹا چکے اور ابتک صرف ایک آئی ایم ایف پیکیج کامیابی سے سرے چڑھا، لیگی حکومت کے دور میں وہ بھی 15چانسز لینے کے بعد، آئی ایم ایف کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا، اگر ہم آئی ایم ایف کی شرائط پوری کر گئے، ادارہ جاتی ریفارمز، ٹیکس اصلاحات کر گئے، سمت درست ہوئی تو حالات بدل سکتے ہیں، یہ نہ ہوا تو موجودہ حالات تو بہت اچھے، بعد کے حالات ایسے ہوں گے کہ ہوش ٹھکانے آجائیں گے۔
Source: Jung News
Read Urdu column Agar simt darust na huwi to By Irshad Bhatti