احتیاط اور بس احتیاط! – ارشاد بھٹی
کیا وقت، کیا منظر، ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز، نہ کوئی بندہ رہا نہ بندہ نواز، 50ارب ڈالر جیب میں رکھے سپر پاور کا سپر صدر ٹرمپ بےبس، ہم ماجے گامے، نتھو خیرے نما ملک بھی بےبس، وسائل سے مالا مال یورپ، تیل سے بھرا مڈل ایسٹ بےبس، مسائل کی دلدلوں میں نکونک دھنسے جھونپڑ پٹی نما قسم کے ملک بھی بےبس، امریکہ، برطانیہ، یورپ والے بھی وینٹی لیٹر، وینٹی لیٹر کر رہے، سوئٹزر لینڈ، اٹلی، اسپین، فرانس کے اسپتال بھی مریضوں کو لینے سے انکاری، کراچی، لاہور، دلی، کولکتہ میں بھی وینٹی لیٹرز نہیں مل رہے، اسلام آباد، تہران کے اسپتال بھی مریضوں سے دور بھاگ رہے۔کیا وقت، کیا منظر، سپر پاور کا سپر صدر ٹرمپ بتائے، میں اتنا ڈرا ہوا تھا، پورا دن اپنے منہ کو نہیں چھوا، کینیڈا کا وزیراعظم بیگم، بچوں کو علیحدہ کرکے اپنے گھر میں خود ہی قید، ملکہ برطانیہ بکنگھم پیلس چھوڑ گئیں، اسپین کی ملکہ بیمار، مناکو کا شہزادہ بیمار، امریکی وزیر دفاع بیمار، ہالی وڈ کے اداکار بیمار، ایرانی پارلیمنٹ کے اراکین، مشیر، نائب صدر جاں بحق، کیا وقت، کیا منظر، ویٹیکن سٹی بند، قبلہ اول بند، مسجدیں، گردوارے، چرچ، مندر بند، مسجد نبوی صرف نماز کیلئے کھلے، خانہ کعبہ خالی کرا لیا گیا، ’’الصلوٰۃ فی بیوتکم، الصلوۃ فی بیوتکم‘‘ نماز گھر پڑھو، نماز گھر پڑھو کی اذانیں، بیسیوں مسلمان ممالک میں جمعہ کا خطبہ ہوا نہ نماز۔کیا وقت، کیا منظر، اٹلی کا وزیراعظم کہہ رہا، سب وسائل پاس مگر معاملات زمینی طاقتوں سے باہر، اب آسمانی مدد کا انتظار، ارشادِ باری تعالیٰ یاد آجائے، یہ دنیا امتحان گاہ، یہ دنیا مچھر کا پر، یہ دنیا مکڑی کا جالا، واہ، واہ، واقعی دیکھتے ہی دیکھتے یہ دنیا 187ملکوں کیلئے امتحان گاہ ہوگئی، مچھر کا پر، مکڑی کا جالا نکلی، 31دسمبر 2019،چین میں پراسرار بیماری کی خبر آئی، 7جنوری 2020، عالمی ادارۂ صحت نے اس بیماری وائرس کو ’کورونا‘ کا نام دیا، 11جنوری 2020، چین میں پہلی ہلاکت، آج 23مارچ 2020، مطلب صرف 2ماہ 23دنوں میں کورونا وائرس پوری دنیا کی اینٹ سے اینٹ بجا چکا، ایک ارب انسان گھروں میں قید، معیشت تباہ، معاشرت برباد، کاروبار، میل ملاپ، سیر و تفریح، سب پلان، سارے منصوبے ختم، 7براعظموں میں نفسانفسی، افراتفری، خوف اور موت سے بچنے کی تدبیریں، یہ وائرس، یہ کورونا، یہ 70سال سے دنیا میں موجود، اسے سال میں ایک آدھ بار ہم بھگتیں بھی، بس اس بار یہ ذرا سی ایڈوانس شکل لیے نوول کورونا بن کر کیا آگیا کہ اس گلوبل ویلیج کی ساری سائنسیں، تمام عقلیں دھری کی دھری رہ گئیں، پتاہی نہیں چل رہا، یہ پھیلے کیسے، ہاتھ سے، سانس سے، ہوا سے، پتا ہی نہیں چل رہا، یہ ختم کیسے، کب ہوتا ہے، پتا ہی نہیں چل رہا، اس کا علاج کیا۔
کیا وقت، کیا منظر، بحیثیت مسلمان یہ سوچ کر ہی دل ڈوبا جا رہا کہ ایسا کیوں، ﷲ نے ہم سے اپنا گھر خالی کروا لیا، اپنے گھر میں آنے پر پابندی لگا دی، بحیثیت مسلمان یہ سوچ کر اطمینان بھی آئے کہ فرمایا گیا ’’دنیا میں 3ہزار امراض، دو ہزار کا علاج مل جائے گا، ایک ہزار امراض کا علاج صرف دعا میں‘‘ مطلب دعا کا، توبہ کا، استغفار کا دروازہ کھلا ہوا، واپس پلٹنے کا آپشن موجود، ارشادِ باری تعالیٰ ’’اور میں دلوں، دنوں کو پھیر دیا کرتا ہوں‘‘۔
کیا وقت، کیا منظر، ہم کیسے بدنصیب، کورونا قیامت بھی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ پا رہی، ادھر کورونا وائرس آیا، اُدھر سینی ٹائزر، ماسک ذخیرہ کر لیے گئے، دوائیاں، آٹا، چینی، گھی سب مہنگا، مومن چھ چھ مہینوں کا راشن اکٹھا کر رہے، حیران ہوں انہیں کیسے پتا کہ یہ 6ماہ زندہ رہیں گے، جسم میں 37ٹریلین باڈی سیلز، 39ٹریلین بیکٹریاز، اوپر سے کورونے وائرس اور حالت یہ، پہلی سانس سے آخری ہچکی تک کچھ کنڑول میں نہیں، مگر لالچ، حرص، ہوس ختم ہونے کو نہ آئے، سچ کہا باری تعالیٰ نے، بیشک انسان خسارے میں ہے۔
کیا وقت، کیا منظر، کہیں خوشی کہیں غم، ایک طرف چین کورونا وائرس یوں کنٹرول کر چکا کہ 5کروڑ افراد کو قرنطینہ کیمپ میں رکھا، وائرس زدہ سانسوں کو سیدھا فضا میں جانے کے بجائے قرنطینہ میں بنائے گئے خصوصی راستوں سے نکالا اور فضا میں بھیجنے سے پہلے خصوصی ٹریٹمنٹ کی، دوسری طرف امریکہ یوں بےبس، کہہ رہا، عین ممکن یہ وائرس مزید ایک سال رہے، 16سے 22لاکھ امریکی مر سکتے ہیں، ایک طرف کینیا میں ایک ہلاکت بھی نہیں، دوسری طرف اٹلی میں اتنی لاشیں، فوجی ٹرکوں پر لاشیں لے جاکر ویران جگہوں پر جلائی جا رہیں، ایک طرف دنیا بھر کے سائنسدان کورونا توڑ نکال رہے، دوسری طرف ہم پاکستانی یہی سوچ سوچ کر خوش، گرمی آئے گی، کورونا خود بخود مر جائے گا۔کیا وقت، کیا منظر، کورونا وائرس پاکستان میں، پہلا مرحلہ گزر چکا، پہلا مرحلہ تھا، یہ یہاں نہ پہنچے، یہ ذمہ داری تھی حکومت کی، اب یہ پہنچ چکا، اب دوسرا مرحلہ، اب حکومت کے ساتھ ساتھ ذمہ داری ہم سب کی بھی، اب ہمارے سامنے دو راستے، اٹلی، امریکہ، ایران کا رستہ، حکومتیں نااہل نکلیں، عوام نے ساتھ نہ دیا اور تباہی، بربادی مقدر، دوسرا رستہ چین کا، حکومت، عوام اکٹھی ہوئی اور اپنی موت کو کورونا کی موت میں بدل دیا، اب ہم سب کو کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکنا، ہم روک سکتے ہیں، کرنا کیا ہے، کرنا یہ، کورونا سے خود بچنا، دوسروں کو بچانا، اپنے اِردگرد والوں سے خود بچنا اور انہیں بچانا، یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں، یہ بہت آسان، بس احتیاط کرنی ہے، ہاں صرف احتیاط، احتیاط کیا، ہر گھنٹے بعد صابن سے ہاتھ دھوئیں، ہر گھنٹے پانی پئیں، کھانسی، چھینک سے بچیں اور بچائیں، گھر میں رہیں،
زیادہ وقت الگ تھلگ، غیر ضروری باہر جانا بالکل بند، رش والی جگہوں سے مکمل پرہیز، غیر ضروری کام نہیں، غیر ضروری چیزوں کو بالکل نہیں چھونا، صابن سے ہاتھ دھوئے بنا اپنی آنکھوں، اپنے ناک، اپنے چہرے کو بھی نہیں چھونا، وٹامن سی لیں، لیموں قہوہ پئیں، اپنے امیون سسٹم کو بہتر بنانے والی خوراک کھائیں ، ریسٹ کریں، بس یہ پندرہ 20دن کی احتیاط، جاتے جاتے یہ بتانا ضروری، بلاشبہ یہ وائرس بہت تیز، جلدی لگے، مگر جتنا تیز اتنا خطرناک نہیں، پھر ہمارا ملک، ماحول، رہن سہن ایسا کہ ہم لکڑ ہضم، پتھر ہضم، جعلی، نقلی، دو نمبر خوراکیں کھا کھا کر ہمارے معدے ٹارزن بن چکے، ہم زکام، گلا خراب، سر درد، بخار کو ٹونوں، ٹوٹکوں سے ہرا چکے، دیکھ لیجئے گا، کورونا جتنا نقصان امریکہ، برطانیہ، یورپ کو پہنچا چکا، اتنا ہمیں نہیں پہنچا سکے گا مگر پھر بھی سب نے احتیاط کرنی ہے اور بحیثیت مسلمان دعا اور استغفار بھی۔‘‘
Source: Jung News
Read Urdu column Ahtiat aur bus Ahtiat By Irshad Bhatti