ایک دن جو ٹمی کے نام لکھا گیا! – عطا ء الحق قاسمی
صاحب نے امریکہ سے اپنے ایک پرانے دوست کی آمد پر اپنے سب مشترکہ دوستوں کو لنچ پر مدعو کیا تھا۔ صاحب نے ڈرائیور کو پچاس روپے دیے اور کہا تم کسی قریبی تنور سے کھانا کھا آئو۔ کھانے کے دوران دنیا جہاں کے موضوع پر گپ شپ ہوئی۔ دس بیس پرانے دلچسپ واقعات دہرائے گئے اور یوں مشترکہ دوستوں نے اپنی پرانی یادیں تازہ کیں۔ اُس روز صاحب کے ہونٹوں پر بہت دنوں کے بعد مسکراہٹ آئی تھی ، کھانے کے بعد ڈرائیور نے گاڑی کا رخ گھر کی طرف موڑا اور گاڑی پورچ میں کھڑی کرنے کے بعد صاحب کے بیڈروم میں داخل ہوگیا، صاحب کو قیلولہ کی عادت تھی اور جب تک ڈرائیور سونے سے پہلے ان کی مٹھی چاپی نہیں کرتا تھا اسے نیند نہیں آتی تھی، جب ڈرائیور کو صاحب کے خراٹے سنائی دیے وہ دبے پائوں کمرے سے باہر نکل آیا۔
بیگم صاحبہ نے اسے کمرے سے نکلتے دیکھ کر آواز دی، گاڑی نکالو اوریگا کمپلیکس جانا ہے، بچے بھی بیگم صاحبہ کے ساتھ تھے، انٹرنیشنل فوڈ چین سے برگر کھانے کے بعد وہ اوریگا کمپلیکس گئے جہاں اسمگلڈ کپڑوں کی تازہ ورائٹی کی وجہ سے کھوے سے کھوا چھل رہا تھا، عورتیں نئے ڈیزائن کے نہایت مہنگے کپڑوں پر یوں ٹوٹ کر گر رہی تھیں جیسے یہ مفت مل رہے ہوں، بیگم صاحبہ نے دس بارہ سوٹ پسند کئے اور ڈرائیور سے لبرٹی مارکیٹ چلنے کے لئے کہا، بیگم صاحبہ کیلئے کاسمیٹکس یوں تو صاحب امریکہ ہی سے لاتے تھے لیکن عمر میں اضافے کے ساتھ ساتھ کاسمیٹکس کی Consumptionمیں بھی اضافہ ہوگیا تھا، چنانچہ بیگم صاحبہ کو مجبوراً امپورٹڈ لپ اسٹک اور دوسری چیزیں ایمرجنسی میں یہاں سے خریدنا پڑیں حالانکہ انہیں شبہ تھا کہ یہ جینون نہیں ہیں۔ گھر واپسی پر صاحب جاگ چکے تھے اور دفتر جانے کے لئے تیار کھڑے تھے۔ صاحب کی یہ پرانی روٹین تھی کہ وہ لنچ بریک کے بعد واپس دفتر جاتے اور پھر شام تک پینڈنگ فائلیں نمٹاتے،
ڈرائیور دفتر کے باہر بنچ پر بیٹھ گیا، اسے صاحب کے انتظار میں دو تین گھنٹے اسی عالم میں ان کا انتظار کرنا تھا، تاہم آج صاحب جلد ہی اٹھ گئے کیونکہ ان کے لاڈلے بیٹے ٹمی کی سالگرہ تھی، واپس گھر پہنچ کر ڈرائیور نے دوسرے ملازموں کے ساتھ مل کر لان میں کرسیاں وغیرہ لگائیں اور دوسرے انتظامات کے لئے بھاگ دوڑ شروع کر دی۔ ڈرائیور کے بچے کی طبیعت خراب تھی، وہ آج جلدی گھر جانا چاہتا تھا مگر صاحب سے بات کرنے کی اسے ہمت نہ پڑی کیونکہ آج ان کے ٹمی کی سالگرہ تھی، مہمانوں کی آمد شروع ہوئی تو تھوڑی دیر بعد ایک بڑی میز تحفوں سے بھر گئی۔ صاحب اپنے اسٹڈی روم میں مرد مہمانوں کے ساتھ بیٹھے تھے اور ڈرائیور کو ہدایت تھی کہ جب ٹمی نے کیک کاٹنا ہو اس وقت انہیں اطلاع دی جائے، مرد مہمانوں میں بیشتر صاحب کی’’شام کی محفلوں‘‘ کے دوست تھے۔ ڈرائیور صاحب کے کمرے میں برف کی ڈلیاں، کباب اور شام کی محفل کی دوسری ضروری اشیاء رکھ آیا تھا۔ وہ زرق برق لباس اور زیورات میں لدی ہوئی مہمان خواتین اور
ان کے شریر بچوں کی مدارت میں مصروف تھا، اس کے ساتھ دیگر ملازم بھی یہ ڈیوٹی پوری تندہی سے انجام دے رہے تھے مگر ڈرائیور کی فرض شناسی اور اس کی مستعدی کی عادت کی بنا پر بیگم صاحبہ ہر کام کے لئے اسی کو پکارتیں۔ جب برتھ ڈے پارٹی ختم ہوئی تو لان بچی کھچی اشیائے خور و نوش سے اَٹا ہوا تھا۔ صفائی کرتے اور چیزوں کو واپس ان کے ٹھکانے پر رکھتے رکھتے رات کے گیارہ بج گئے، صاحب کے دوست بھی جا چکے تھے اور مہمان خواتین بھی رخصت ہو چکی تھیں، صاحب لڑکھڑاتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف چلے گئے، ڈرائیور ان سے کچھ کہنا چاہتا تھا مگر اسے اس کا موقع ہی نہیں ملا تھا۔ وہ بیگم صاحبہ کے پاس گیا اور کچھ کہنے ہی کو تھا کہ اس نے خود ہی بات بدل دی اور کہا بیگم صاحبہ، میں گھر جائوں، بیگم صاحبہ نے کہا ’’ہاں اب جائو مگر صبح چھ بجے پہنچ جانا، بچے اسکول سے لیٹ نہ ہوں‘‘ وہ روزانہ یہ بات کہتی تھیں حالانکہ وہ کبھی لیٹ نہیں ہوا تھا۔
ڈرائیور، باورچی نور دین کے کوارٹر میں گیا کہ اس سے کچھ پیسے ادھار مانگ لے مگر اس کے پاس کل ایک سو روپے تھے وہ مجبوراً واپس بیگم صاحبہ کے پاس آیا اور کہا ’’بیگم صاحبہ میرا بچہ بیمار ہے، مہربانی کرکے تنخواہ میں سے مجھے کچھ رقم ایڈوانس دے دیں‘‘ بیگم صاحبہ نے کہا، آج مہینے کی بیس تاریخ ہے، مہینے کی ان تاریخوں میں تنخواہ دار لوگوں کے پاس کہاں پیسے ہوتے ہیں اور پھر اسے تاکید کی کہ وہ صبح چھ بجے کوٹھی پہنچ جائے تاکہ بچے اسکول سے لیٹ نہ ہوں مگر ڈرائیور صبح چھ بجے بچوں کو اسکول پہنچانے کے لئے صاحب کی کوٹھی نہ پہنچ سکا کیونکہ اس نے اپنے ’’ٹمی‘‘ کو قبرستان پہنچانا تھا۔
Source: Jung News
Read Urdu column Aik din jo timmy k naam likha gya By Ata ul Haq Qasmi