ایک ٹکٹ میں دومزے! – ارشاد بھٹی
خوشی ہے کہ ہماری شرح ترقی 3.94 فیصد ہوگئی، خوشی ہے کہ اگلے مالی سال میں شرح ترقی 4.8فیصد ہوگی، خوشی ہے کہ بین الاقوامی ادارے موڈیز نے پاکستان کا معاشی ’آؤٹ لک‘ مستحکم قرار دیا،گو کہ مجھے معلوم رواں مالی سال کے آغاز پر خود حکومت نے شرح ترقی کا ہدف 2.1فیصدرکھا تھا، مجھے معلوم کہ آئی ایم ایف نے شرح ترقی کا اندازہ 2 فیصد لگایا تھا، ورلڈ بینک نے شرح ترقی ڈیڑھ فیصد بتائی تھی، مجھے معلوم کہ گزشتہ ماہ خود حکومت نے ایک عالمی معاشی ادارے کو مطلع کیا کہ ہماری شرح ترقی 2.9 فیصد ہوگی، مجھے معلوم کہ ڈاکٹر حفیظ پاشا، ڈاکٹر اشفاق حسن، قیصر بنگالی اور فرخ سلیم جیسے ماہرین معیشت شرح ترقی کی کہانی کچھ اور ہی سنا رہے، مجھے معلوم کہ حکومت پچھلے سال 1.9فیصد شرح ترقی کو 3.3 فیصد دکھا چکی، مجھے معلوم کہ چپکے چپکے سے ہماری شرح ترقی منفی اعشاریے کو بھی چھو آئی، مجھے معلوم کہ میر ی حکومت 3.94 فیصد شرح ترقی پر لڈیاں ڈال رہی جبکہ گھر گھر میں مہنگائی، بے روزگاری، غربت کی دھمالیں جاری، مجھے یہ سب کچھ معلوم مگر پھر بھی مجھے خوشی، کم ازکم کچھ اچھا سننے کو تو ملا، ہم تو اچھا سننے کو بھی ترس گئے تھے، یہاں خوشی یہ بھی کہ اس سال گندم ریکارڈ ساز، گنے کی پیداوار توقعات سے زیادہ، تعمیراتی کاروبار اور اس سے جڑے 32شعبوں میں تیزی، خوشی یہ بھی کہ احساس ہیلتھ کارڈ پروگرام کمال کا جا رہا، خوشی یہ بھی کہ اس سال بیرون ملک پاکستانیوں نے ریکارڈ پیسہ بھجوایا ،ا سٹاک ایکسچینج سمیت معاشی اشاریوں میں بہت بہتری، ایف بی آرکی وصولی 14فیصد بڑھی، دعا یہی یہ سب اچھی باتیں کاغذوں ، دعوؤں تک ہی نہ رہیں ، ان کے اثرات عوامی زندگیوں میں بھی آئیں، عمران خان کے پاس اب دو سال، یہ Do or Die والے دو سال، کپتان ان دوسالوں میں کچھ کر گئے تو ٹھیک ورنہ ’اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں‘ ایک بار پھر یہی دعا ہے کہ جو کچھ حکومت کہہ رہی وہ سچ نکلے مگر دکھ کی بات یہ ہے کہ معیشت ہو یا سیاست ،ہمارا نظام ایسا مضحکہ خیز ، کبھی سچ جھوٹ کا پتا نہ چلے۔
مضحکہ خیز نظام سے یاد آیا، دوسال 10ماہ بعد چوہدری نثار نے ممبر پنجاب اسمبلی کاحلف اُٹھا لیا، مطلب وہ دو سال 10ماہ پہلے ایم پی اے منتخب ہوئے اور گھر بیٹھے رہے، کیوں، پتا نہیں، سیٹ کیوں نہیں چھوڑی ،پتا نہیں، بے چارہ قانون بھی ایسا بے بس کہ نہ چوہدری صاحب کو اسمبلی بلاسکا نہ فارغ کرسکا، مضحکہ خیز نظام سے یاد آیا کہ اسحٰق ڈار عدالتی مفرور اور لندن میں مگر سینیٹر منتخب ہو گئے، ایوان بالا کے رکن، چشم بددور، یہاں بھی بے چارہ قانون ایسا بے بس کہ چپ چاپ منہ تک رہا، مضحکہ خیز نظام سے ہی یاد آیا، خیر سے شہباز شریف کا پھر سے مفاہمت مشن شروع ہوچکا، نواز شریف کی مزاحمت ایک بار پھر ’ریسٹ‘ پر، رائے ونڈ محل میں ایک سوئچ لگا ہوا، یہ آن آف سوئچ نہیں ،یہ انقلابی، مفاہمتی سوئچ، بٹن دباؤ تو نواز شریف میدان میں، سویلین بالادستی، جمہوریت کی بالادستی ،ووٹ کو عزت دو کی کیسٹ چل پڑے، مطلب وہی گھسی پٹی تقریریں، وہی گھسی پٹی باتیں، بٹن دبائو تو نواز شریف چپ، مفاہمت شروع، شہباز کی پروازیں شروع، راتوں کی ملاقاتیں، بیک ڈور رابطے، بھینو تے بھرائو، چوہدریو، نمبردارو ملک خطرے میں ،ملک بحران میں ، عوام پس گئے، کہیں 71 کا سانحہ دوبارہ نہ ہوجائے، آئیے مل بیٹھیں ، نظام چلانے ،ملک وقوم کیلئے آئیے میثاق معیشت کر لیں، آئیے میثاق جمہوریت کرلیں ،ہمیں کچھ نہیں چاہئے، آئیے پاکستان کی خاطر اکٹھے ہو جائیں ، اس با ر شہباز شریف نے جب کہا کہ ملکی مفاد کی خاطر لند ن جاکر نواز شریف کے پاؤں بھی پکڑنے پڑے تو پکڑوں گاتو یقین جانیے یہ سن کر آنکھوں میں آنسو آ گئے، وہ تو خدا کا شکر کہ پچھلی تین دہائیوں سے مزاحمت، مفاہمت کے کھیل تماشے دیکھتے سنتے رہے، میثاق جمہوریت ،میثاق معیشت ،میثاق عوام ،میثاق پاکستان جیسے سب ڈرامے بھگت چکے، ورنہ اس پاؤں پڑنے پرتو نجانے دل کتنے عرصے تک رنجیدہ رہتا، نجانے کب تک آنسو بہتے۔
بس کر ویار ،بہت ہو گیا اور نہیں تو کم ازکم بے وقوف بنانے کا کوئی نیا طریقہ ہی ڈھونڈ لو ،اپوزیشن میں جمہوریتیں، اقتدار میں بادشاہتیں ،جب پھنس جاؤ تب میثاق ورنہ تو کون میں کون ، ہمیں پتا مسئلہ کیا، مسئلہ یہ دونوں بھائی خاندان سمیت نکونک کیسوں میں پھنسے ہوئے، یہ کیس ختم کرانے، 2023 میں ہر حال میں اقتدار میں واپس آنا، یہ سروائیول کا مسئلہ، اب جب بڑا بھائی اور بھتیجی عدلیہ، اسٹبلشمنٹ پر چڑھائیاں کر چکے، جب پی ڈی ایم بنوا، تڑوا چکے، جب جلسے جلوس ریلیاں نکال چکے، جب دھمکیاں دے، بڑھکیں مار چکے، تب بڑے نے چھوٹے سے کہا، جاؤ ذرا اپنی مفاہمتی مشین سے انقلابی فصل کاٹو، چشم بددور، یقین جانیے ،اگر یہ لوگ ہالی ووڈ میں ہوتے توا ب تک کئی بار آسکر ایوارڈ لے چکے ہوتے، کیا پرفارمنس ہے ان کی،چشم بددور، اس بار چورن یہ بیچا جارہا کہ شہباز شریف 3نکاتی مفاہمتی ایجنڈا لے کر آخری سیاسی گفتگو کرنے لندن نواز شریف کے پاس جانا چاہ رہے، اگر نواز شریف بات مان گئے اور شہباز شریف کو’فل چارج ود فل اختیارات‘مل گیا تو شہباز شریف واپس آکر اپنے 3نکاتی مفاہمتی ایجنڈے پر کام شروع کر کے ملک کی کشتی بھنور سے نکالیں گے اور اگر نوازشریف نے بات نہ مانی تو پھر شہبازشریف سیاست سے ریٹائر منٹ لے لیں گے ،پہلی بات ہماری اتنی خوش نصیبی کہاں کہ کوئی سیاستدان ریٹائر ہو، دوسری بات اگر نواز شریف مان گئے تو شہبا زشریف کو فل چارج ملے گا ، نہ مانے توفل چارج مریم نواز اور نواز شریف کے اپنے پاس مطلب دونوں صورتوں میں ’فل چارج‘ گھر میں ، پارٹی کے باقی لوگ پرانی تنخواہوں پر ہی کام کریں گے ، پیارے بچو یہ ہوتا ہے جمہوریت کا حسن ، چتر چالاکیاں ملاحظہ ہوں ،چونکہ وقت کم مقابلہ سخت، لہٰذا جب تک کوئی ہاتھ نہیں پکڑاتا تب تک مریم نواز پی ڈی ایم پلیٹ فارم سے مزاحمت اور شہباز شریف پارلیمنٹ کے فورم سے مفاہمت کریں گے، مزاحمت ،مفاہمت ساتھ ساتھ ،مطلب جہاں سے داؤ لگ جائے، صدقے جاواں، مزاحمت بھی اپنے لئے ،مفاہمت بھی اپنے لئے، شریف ڈکشنری ، جمہوریت اصلی وہی جس میں اقتدار اپنے پاس، سویلین بالادستی سے مراد اپنی بالادستی ،ووٹ کو عزت دو سے مطلب اپنی عزت ،واہ رے مزاحمت ، واہ رے مفاہمت،عوام کتنے خوش نصیب ،ایک ٹکٹ میں دوفلمیں،ایک ٹکٹ میں دومزے، پیارے عوام انجوائے کرو۔
Source: Jung News
Read Urdu column Aik Ticket main do Mazay By Irshad Bhatti