اپنے حلف کی خلاف ورزی کرنے والی پارلیمنٹ – انصار عباسی
گزشتہ کئی سالوں سے ہر بجٹ کے موقع پر میری کوشش رہی کہ میں حکمرانوں کی توجہ خاص طور پر بجٹ میں سود کی ادائیگی کے لیے مختص رقم کی طرف مبذول کرائوں لیکن چاہے پیپلز پارٹی کی حکومت ہو، نون لیگ کی یا پھر موجودہ پی ٹی آئی حکومت، کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ ایک طرف سود کا معاملہ اس لیے بہت سنگین ہے کیونکہ اسلامی تعلیمات کے مطابق یہ ایک ایسا کبیرہ گناہ ہے جس کے ارتکاب سے دنیا و آخرت میں سوائے گھاٹے کے کچھ نہیں ملتا۔
دوسری طرف ہم دیکھ بھی رہے ہیں کہ ہمارے بجٹ کا بہت بڑا حصہ ہر سال سود کھا جاتا ہے لیکن اس بارے میں نہ کسی فکر کا اظہار کیا جاتا ہے اور نہ ہی کوئی ایسی تدبیر کی جا رہی ہے کہ اس لعنت سے ہماری جان چھوٹ سکے۔
بجٹ دستاویزات کو پڑھیں تو سود کی ادائیگی کے لیے رکھی گئی رقم کو دیکھ کر دل جیسے بیٹھ سا جاتا ہے لیکن اس کا عمومی طور پر پارلیمنٹ کے ممبران اپنی تقاریر میں ذکر تک نہیں کرتے، میڈیا کو بھی جیسے سود کے لیے مختص رقم نظر ہی نہیں آتی۔
سال 2020-21ء کے بجٹ کا کل تخمینہ 7136ارب روپے ہے جس میں سے ایک خطیر رقم یعنی 2946ارب روپے سود کی ادائیگی کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ دفاع کے لیے رکھی گئی رقم سود کی رقم سے پچاس فیصد سے بھی زیادہ کم ہے جو 1289ارب روپے ہے۔ سول حکومت کے کل اخراجات 476ارب روپے ہیں یعنی سود کی رقم سے تقریباً چھ سو فیصد کم۔
سود کی رقم کل ترقیاتی اخراجات کے لیے متعین رقم سے چار سو فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ یہ وہ ظلم ہے جو پاکستان اور اس کے عوام پر ہر سال ڈھایا جا رہا ہے اور ہر گزرتے سال کے ساتھ اس ظلم میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ظلم اس لحاظ سے کہ ہماری دنیا بھی تباہ ہو رہی ہے اور آخرت بھی لیکن اس بارے میں کسی کو کوئی فکر ہی نہیں۔
اس بارے کتنی بحث ہوتی ہے کہ ملک کے دفاعی بجٹ کو کیسے کم کیا جائے، سول حکومت کے اخراجات گھٹائے جائیں تاکہ پیسے عوام کی ترقی اور خوشحالی پر صرف ہو سکیں لیکن کوئی سود کے لیے مختص اتنی خطیر رقم کو کم اور ختم کرنے کی بات نہیں کرتا۔
سب روتے ہیں کہ تعلیم و صحت اور عوام کی فلاح اور اُن کی خوشحالی کے لیے بہت کم رقم بجٹ میں رکھی جاتی ہے، کہتے ہیں ہمارے ہاں اچھے اسپتال نہیں، معیاری تعلیم فراہم نہیں کی جاتی کیونکہ تعلیم اور صحت کے لیے بہت کم پیسہ رکھا جاتا ہے، اکثر یہ بحث کی جاتی ہے کہ دفاعی بجٹ کو کم کرکے تعلیم و صحت اور ترقیاتی اسکیموں پر پیسہ لگائیں لیکن سود کے خاتمہ کی بات کی جاتی ہے اور نہ ہی اس کے لیے اتنی خطیر رقم رکھے جانے پر کوئی اعتراض اٹھایا جاتا ہے۔
بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ سود کی رقم کا تعلق اُس قرضہ سے ہے جو پاکستان نے بین الاقوامی اداروں یا دوسرے ممالک سے لیا ہے، یہ بات درست نہیں ہے۔ سود کے لیے مختص رقم کا تقریباً نوے فیصد پاکستان کے اندرونی قرضوں پر سود کی ادائیگی پر خرچ ہوتا ہے، یعنی اگر ہم پاکستان کی حد تک سود کی لعنت سے جان چھڑا لیں تو سود کے لیے مختص اس خطیر رقم کا کم و بیش نوے فیصد ملک و قوم کی خوشحالی پر خرچ کیا جا سکتا ہے۔
ہماری بیرونی قرضوں سے جان چھوٹ سکتی ہے۔ اس بارے میں سنجیدہ سوچ بچار کی ضرورت ہے جس پر حکومت، پارلیمنٹ، سیاسی جماعتوں اور میڈیا‘ کسی کو کوئی دلچسپی نہیں۔ سود ہے کہ پاکستان کے بجٹ کے ایک بڑے حصے کو ہر سال کھانے کے باوجود روز بروز بڑھتا ہی جا رہا ہے۔
جس تناسب سے ہر سال سود میں اضافہ ہو رہا ہے اُس کو اگر روکا نہ گیا تو سود بجٹ کو تو کھا ہی رہا ہے وہ ہمیں بھی اور پاکستان کو بھی کھا جائے گا۔ سود غیر اسلامی فعل ہے اور غیر آئینی بھی، لیکن ہر سال ہماری پارلیمنٹ سودی نظام اور سود کی ادائیگی کے لیے کھربوں روپے بجٹ میں مختص کرکے اسلام مخالف اور آئین مخالف اقدام کا حصہ بنتی ہے جو اُن کے اپنے حلف کی بھی خلاف ورزی ہے۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)
Source: Jung News
Read Urdu column Apnay Halaf ki Khilaf warzi kerne wali parliament By Ansar Abbasi