ایروگینس، نو نان سینس – حسن نثار

hassan-nisar

ایک واقعہ حضرت علیؓ کے حوالہ سے بہت مشہور ہے کہ آپ اپنے غلام کے ساتھ منڈی تشریف لے گئے۔ غلام کو گھوڑے کے ساتھ چھوڑ کر اندر گئے۔ حساب کتاب کیا تو منافع توقع سے زیادہ نکلا تو آپ نے سوچا کہ دو درہم غلام کو دوں گا۔ گھوڑے کے پاس پہنچے تو صرف غلام ہی نہیں گھوڑے کی زین بھی غائب تھی۔ کچھ دن بعد چور غلام پکڑا گیا۔ مال مسروقہ خریدار سے برآمد ہو گیا۔ آپ نے غلام سے پوچھا ’’تم نے یہ زین کتنے میں بیچی تھی؟‘‘، ’’آقا! دو درہم میں‘‘ حضرت علیؓ مسکرائے اور فرمایا ’’میں تو منڈی میں ہی تمہیں دو درہم بطور انعام دینے کا فیصلہ کر چکا تھا، سو یہ تو تمہیں ملنے ہی تھے، تم نے وصولی کا اپنا انداز اپنایا‘‘۔ یعنی تدبیر تقدیر یہی باریک سی لکیر ہے۔

بچپن میں سکول کے اندر ہی ایک دکان تھی جہاں سے چاٹ، سموسے، مرنڈا کی بوتلیں اور ٹافیاں خریدتے تھے۔ وہاں بہت سے اقوال آویزاں ہوتے جن میں سے ایک آج تک میرے ذہن سے چپکا ہوا ہے۔ ’’وقت سے پہلے نہیں، مقدر سے زیادہ نہیں‘‘ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، اِس قول کی پرتیں اور جہتیں کھلتی گئیں اور عملی زندگی میں یہی قول میری ’’سیکنڈ نیچر‘‘ بن گیا۔

پورا کیریئر نفع نقصان، سود و زیاں سے مکمل طور پر ماورا، سو فیصد بےلچک، سمجھوتوں سے سو فیصد پاک۔ یہاں تک کہ بھٹو صاحب کے دور میں نامور نیک نام بیورو کریٹ جہانگیر اے خان سال بھر کی جدوجہد کے بعد تقریباً زبردستی لیٹریل اینٹری سکیم کے تحت بطور ڈائریکٹر 18ویں گریڈ میں پراونشل کوآرڈینیشن کے ڈائریکٹوریٹ میں اسلام آباد لے گئے اور ماہنامہ ’’السیف‘‘ سمیت تمام پبلی کیشنز کا انچارج بنا دیا۔ یہ وہی ہینڈسم دبنگ جہانگیر خان تھے جو سول سروس میں آنے سے پہلے تاریخی فلم ’’چن وے‘‘ کے ہیرو بھی رہ چکے تھے۔ اِس فلم کا یہ گیت لازوال ہے اور بےمثال بھی ’’تیرے مکھڑے تے کالا کالا تل وے منڈیا سیالکوٹیا‘‘۔ یہ فلم تاریخی اِس لئے ہے کہ اِسے ملکہ ترنم نور جہاں نے ڈائریکٹ کرکے پاکستان کی پہلی خاتون فلم ڈائریکٹر ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ آج کا مقبول سٹار شامل خان، جہانگیر خان صاحب مرحوم کا بڑا بیٹا ہے۔ ڈیڑھ دو سال بعد اُس وقت کے سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ وقار سے دبنگ خان کا جھگڑا ہوا تو اُس کم ظرف نے جہانگیر خان کو وہاں سے ٹرانسفر کردیا تو میں نے فوراً استعفیٰ دیدیا۔ عبدالحفیظ پیرزادہ متعلقہ وزیر تھے۔ وہ اور اُن کی بیگم محترمہ سعدیہ مجھے بچوں کی طرح ٹریٹ کرتے کہ میری عمر ہی ایسی تھی لیکن میں سب چھوڑ چھاڑ کر احتجاجاً لاہور واپس آ گیا جو ’’افسری‘‘ چھوڑ کر اندھیرے کنویں میں چھلانگ لگانے کے مترادف تھا۔ پھر کیا ہوا؟ لمبی کہانی ہے جو آپ بیتی کی شکل میں شیئر کروں گا، اگر زندگی نے مہلت دی۔

اِس سے بھی کہیں بڑھ کر مثال ’’دھنک‘‘ اور سرور سکھیرا صاحب کی ہے۔ سرور سکھیرا صاحب کو میں ہمیشہ سرور بھائی کہتا ہوں اور آج بھی پیار، احترام اتنا کہ وہ کھڑے ہوں تو میرے بیٹھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ وہی مجھے اکنامکس اور انگلش میڈیم سے اردو صحافت میں لائے، میری رہنمائی اور تربیت کی۔ حوصلہ افزائی اور تراش خراش کرکے یہاں تک پہنچنے کے قابل بنایا لیکن اپنی بےلچک طبیعت کی وجہ سے میں نے ڈیڑھ دو سال بعد ہی ’’دھنک‘‘ بھی چھوڑ دیا حالانکہ اُس وقت ملک کے نامور ترین لکھاری اُس کیلئے لکھنا اپنے لئے باعثِ افتخار سمجھتے تھے۔

’’وقت سے پہلے نہیں، مقدر سے زیادہ نہیں‘‘ والے قول کی روشنی میں، میں نے بےشک ایسی بونگیاں بھی ماریں، نقصان بھی اٹھائے لیکن لیکن لیکن….

’’ہیں دل پہ بہت داغ بجز داغِ ندامت‘‘ (فیض صاحب سے معذرت اگر کوئی لفظ اوپر نیچے ہوگیا ہو)۔ نہ کوئی ندامت ہے نہ پچھتاوا اور حسرت۔ مجھے سمجھوتے نہ کرنے، ’’پی آر‘‘ کی پلیدی، ناپاکی سے دور رہنے، بنیادی ویلیوز پر بالکل ہی بےلچک نہ ہونے کے باوجود میرے رب یعنی پالنے والے نے مجھے اتنا نوازا کہ مجھے اُس کو بیان کرنے کیلئے نئے الفاظ ایجاد کرنے ہوں گے۔

آج لور لور پھرنے، در در بھٹکنے، رکوع میں رہنے کا کلچر عام ہے۔ میں بھی شاید اِس ’’کورونا‘‘ کا شکار ہو جاتا اگر بچپن سے ہی یہ عظیم ترین سچائی دل و دماغ پر طاری نہ ہو گئی ہوتی کہ

’’وقت سے پہلے نہیں، مقدر سے زیادہ نہیں‘‘

اِس سارے کھیل میں ایک خراش ضرور لگی اور وہ یہ کہ کچھ مہربان مجھے ARROGANCEکا طعنہ دیتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ ARROGANCEاور NO NONSENSEبندہ ہونے میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔

ARROGANCEکا مطلب ہے ’’تکبر‘‘۔ خدا کی پناہ، جو آدمی زندگی کو پانی کا بلبلا بھی نہیں سمجھتا اُس پر یہ تہمت مناسب نہیں لیکن اگر یہی اچھا لگتا ہے تو ست بسم اللہ۔ جاری رکھو کہ یہاں تو مدتوں سے ’’ٹھنڈ پروگرام‘‘ جاری ہے۔ برپشم قلندر۔ ہم تو وہ منصور ٹھہرے جو حاسدوں کے پتھروں پر تو مسکراتے رہتے ہیں لیکن دوست پھول بھی مارے تو آنسوئوں پر کنٹرول نہیں رہتا۔

نہال ہو جاتا ہوں جب پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے ’’ممی ڈیڈی‘‘ بچے بھی گروپس کی شکل میں وقت طے کرکے ملنے آتے اور میرے کالموں پر مجھ سے وضاحتیں مانگتے ہیں تو میری یہ وضاحت بھی ایسے بچوں کیلئے ہی ہے، اُن للوئوں پنجوئوں کیلئے ہرگز نہیں جنہیں پذیرائی ہی نصیب نہیں ہوتی کیونکہ ’’وقت سے پہلے نہیں، مقدر سے زیادہ نہیں‘‘ہمارے تو ٹرکوں کے پیچھے بھی لکھا ہوتا ہے

’’محنت کر، حسد نہ کر‘‘

اور میرا ایک ذاتی شعر ہے

نوچتے رہتے ہیں اپنے ہی بدن کی بوٹیاں

حاسدوں کو خود ہی اپنا میزباں بننا پڑا

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

Source: Jung News

Read Urdu column ARROGANCE,NO NONSENSE By Hassan Nisar

Leave A Reply

Your email address will not be published.