اور پھر ایک دن – روف کلاسرا
تھرڈ ورلڈ ملکوں کی قسمت میں لکھ دیا گیا ہے کہ ان کو ایسے لیڈر ملیں گے جو انہیں آسانی سے بیوقوف بنائیں گے۔ ان ملکوں کی قیادت کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ یہ نئی نئی کتابیں نہیں پڑھتے جو ان کا جہاں ایک طرف ذہن کھلا رکھیں‘ نئی نئی باتیں سکھائیں‘ وہاں دوسری قوموں کے تجربات سے واقف رکھیں‘ اور انہیں تنقید اور ناقدین کی بھی قدر سکھائیں۔
یوں آپ اکثر دیکھتے ہوں گے کہ بڑے بڑے سیاستدانوں اور حکمرانوں کے پاس گفتگو کرنے کے لیے کچھ نیا نہیں ہوتا۔ وہ بار بار خود کو دُہراتے رہتے ہیں اور لوگ ایک مرحلے پر بور ہوجاتے ہیں۔ لوگ انہیں سننا بند کردیتے ہیں۔ ان کے سکرین پر نمودار ہوتے ہی لوگ چینل تبدیل کر لیتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ان کا مذاق بنتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ انہیں پتہ ہے فلاں لیڈر اب کیا گفتگو کرے گا۔ جب بھی آپ اہم عہدوں پر بیٹھے لوگوں کو بار بار ایک ہی تقریر کرتے سنیں تو سمجھ لیں وہ کچھ نہیں پڑھتے‘ لہٰذا ان کے پاس نیا کچھ نہیں۔ وہ اگر کسی کتاب کے ساتھ کوئی تصویر کھنچوا لیں تو بھی جب بولیں تو ظاہر ہو جاتا ہے کہ کتاب کا ان سے تعلق صرف تصویر کی حد تک تھا۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ آپ نئی نئی کتابیں پڑھتے ہوں اور آپ کے پاس گفتگو کرنے کے لیے نئی نئی باتیں اور آئیڈیاز نہ ہوں۔ جب آپ کتابیں نہیں پڑھتے تو آپ اندر اندر ہی تنگ نظر ہو جاتے ہیں۔ آپ کے اندر انتقام کے جذبے طاقتور ہو جاتے ہیں۔ کتاب آپ کے اندر جو ٹالرنس پیدا کرتی ہے اس سے آپ محروم ہوجاتے ہیں۔ آپ کو اپنے ناقد ذاتی دشمن لگتے ہیں‘ جنہیں آپ ہر قیمت پر ختم کرنا چاہتے ہیں۔ آپ کے نزدیک معاشرے میں جو آپ کی ہاں میں ہاں نہیں ملاتا وہ آپ کا دشمن ہے۔ آپ خود کو ہی سچا اور حرفِ آخر سمجھ کر دوسروں پر پابندیاں لگانا شروع کر دیتے ہیں۔ آپ معاشرے کو اس طرح سوچنے پر مجبور کرنے کی کوششوں میں لگ جاتے ہیں جیسا آپ چاہتے ہیں۔ پھر حکمران یہ تصور کر لیتے ہیں کہ ہر کوئی وہی سوچے‘ وہ سمجھے اور کرے جو آپ چاہتے ہیں۔ اگر آپ ایسا نہیں کرتے تو آپ کی سوچ کو قید کرنے کے لیے قوانین کا سہارا لیا جاتا ہے اور اگر اس سے بھی بات نہ بنے تو پھر آپ اسے نئے قوانین کی مدد سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچا دیتے ہیں۔
یوں جب آپ سب ایسی آوازیں جیل میں ڈال دیتے ہیں اور مطمئن ہوجاتے ہیں تو پھر سمجھ لیں آپ دو زیادتیاں کررہے ہیں۔ پہلی زیادتی‘ آپ اپنے ساتھ کر رہے ہیں کہ آپ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ انسان کے طور پر آپ سے کوئی غلط بات یا کام نہیں ہوسکتا‘ لہٰذا کسی کو حق نہیں کہ وہ آپ پر تنقید کرے۔ آپ یہ بھی تصور کیے بیٹھے ہیں کہ آپ بادشاہ ہیں اور قدیم دور میں یہ تصور عام تھا کہ بادشاہ کوئی غلط کام نہیں کرسکتا‘ لہٰذا بادشاہ کو سزا نہیں ملتی۔ یوں آپ دھیرے دھیرے عوام سے دور ہوتے جاتے ہیں۔ زمینی حقائق کا آپ کو پتہ نہیں چلتا۔ چند خوشامدی آپ کو گھیر لیتے ہیں۔ وہ آپ کی ہاں میں ہاں ملا تے ہیں‘آپ کے ہر لفظ کو مقدس آواز کا درجہ دیتے ہیں‘ ان ترجمانوں اور خوشامدیوں کو آپ کی کمزوری کا علم ہوتا ہے کہ آپ اپنے خلاف کوئی بات نہیں سن سکتے۔ آپ ہر اس آواز کو کرش کرنا چاہتے ہیں جو یہ کہے : بادشاہ تو ننگا ہے۔ وہ آپ کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہیں‘ جہاں آپ کے اجلاس میں وہ آپ کی تعریفوں کے پل باندھ دیتے ہیں وہیں وہ ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر آپ کے تعریفوں سے پروگرام شروع کرتے ہیں اور آپ کی تعریف پر ہی ختم کرتے ہیں۔ وہ مسلسل لوگوں کو یقین دلاتے ہیں کہ شاید آپ ان کی وجہ سے زندہ ہیں اور آپ کو چوبیس گھنٹے ان کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ ایک طرف آپ نے خود کو یقین دلایا ہوتا ہے کہ آپ کو اللہ نے بہت خاص بنا کر پیدا کیا ہے‘ وہیں آپ کے اردگرد طاقت کے بھوکے مشیر اور درباری آپ کے اندر آسمان کو چھوتی انا کو بھی مزید ہوا دے رہے ہوتے ہیں۔ ان درباریوں کو یہ بھی علم ہوتا ہے کہ آپ دنیا میں اگر کسی سے محبت کرتے ہیں تو وہ اور کوئی نہیں آپ کی اپنی ذات ہے۔ آپ اپنے آپ سے محبت میں گرفتار رہتے ہیں‘ نرگیست پسندی کا شکار ہیں‘ہر وقت اپنی تعریفیں سننا چاہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو اس بات کا بھی شدت سے احساس ہوتا ہے کہ ان کو خدا نے دیگر انسانوں سے مختلف بنایا ہے‘ لہٰذا وہ عام نہیں خاص سلوک کے مستحق ہیں۔ دوسروں پر لازم ہے کہ وہ خدا کی پیدا کی گئی اس خاص مخلوق سے محبت کریں‘ اس سے عشق کریں۔انہیں اپنے اردگرد نارمل انسان نہیں بلکہ پجاری چاہیے ہوتے ہیں جو اِن کے بت کی ہر وقت پوجا کریں‘ اس بت پر پھول نچھاور کریں‘ جب اس کا موڈ اداس ہو تو وہ بھی اداس ہوں‘ ان کا موڈ خوش ہو تو وہ بھی اپنا موڈ خوش رکھیں۔
اور پھر آپ ایک ایسی دنیا میں ڈوب جاتے ہیں جو وقتی طور پر آپ کو لذت دیتی ہے۔ آپ اس رومانٹک ورلڈ سے باہر نہیں نکلنا چاہتے۔ آپ کو یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ دنیا صرف آپ کی وجہ سے قائم ہے۔ یہ رعایا آپ کی مہربانی کی وجہ سے چل پھر رہی ہے۔ آپ نہ ہوتے تو پتہ نہیں ان کا کیا بنتا۔ آپ کو لگتا ہے آپ ایک ایسی ناگزیر چیز ہیں جس کے بغیر یہ کائنات نہیں چل سکے گی۔ آپ نہ رہے تو سب کچھ ختم ہوجائے گا۔ اگر آپ کچھ دیر کے لیے ایک فانی اور گناہگار انسان بن کر سوچنا بھی چاہتے ہوں تو آپ کے درباری اور خوشامدی ڈر جاتے ہیں کہ اگر صاحب نے خود کو ایک عام انسان سمجھ لیا تو وہ تو گئے کام سے‘ لہٰذا وہ آپ کو اس فرضی جنت میں دوبارہ گھسیٹ کر لے جاتے ہیں۔ یہ فرضی جنت ایک ایسا نشہ بن جاتی ہے جس سے باہر نہ آپ نکلنا چاہتے ہیں نہ آپ کے درباری آپ کو نکلنے دینا چاہتے ہیں۔ ان درباریوں کے سب ذاتی مفادات آپ سے جڑے ہوتے ہیں۔ آپ ان درباریوں کی ایک دوسرے کے خلاف سازشوں ‘ لڑائی جھگڑوں اور پیٹھ پیچھے غیبت کو بھی انجوائے کرتے ہیں۔ آپ اس میں خوش رہتے ہیں کہ آپ کے درباری کبھی اکٹھے نہ ہوں کہ کہیں آپ کے خلاف ہی کوئی سازش نہ کر بیٹھیں‘ لہٰذا آپ کو سوٹ کرتا ہے کہ وہ آپس میں لڑتے رہیں اور اپنے جھگڑے آپ کے دربار میں لاتے رہیں اور آپ‘بادشاہ سلامت پوری سنجیدگی سے اداکاری کرتے رہیں کہ آپ کی پوری ہمدردیاں ان کے ساتھ ہیں اور دوسرا بیکار بندہ ہے۔ دوسرے کو بھی آپ یہی احساس اور یقین دلاتے ہیں ‘لہٰذادونوں درباری آپ کے گن گاتے ہیں اور آپ کے خلاف مل کر کوئی سازش نہیں کرسکتے۔ ان درباریوں کی کوشش ہوتی ہے کہ آپ کے کانوں تک کوئی ایسی آواز نہ پہنچے جس سے آپ کی سمع خراشی ہو۔ آپ کے کانوں میں ہر وقتLong Live the King کی موسیقی کی آواز آنی چاہیے۔ آپ کو پتہ چلے کہ کسی گستاخ نے آپ کی شان میں ایسی گستاخی کر دی ہے تو پھر اسے قرار واقعی سزا ملنی چاہیے۔
جب آپ مکمل طور پر اس کیفیت میں تادیر رہتے ہیں تو آپ کو احساس نہیں ہوتا کہ اب پاور آپ کے ہاتھوں سے سرک رہی ہے‘ آپ کمزور ہورہے ہیں‘ آپ کی ذہنی صلاحیتیں جواب دے رہی ہیں ‘کیونکہ ذہن اس وقت ایکٹو اور شارپ رہتے ہیں جب آپ بہت کتابیں پڑھتے ہیں‘ آپ لوگوں کی تنقید سنتے ہیں کہ آپ کہاں غلطیاں کررہے ہیں‘ آپ کی فلاسفی کو دوسرے غلط ثابت کررہے ہوتے ہیں تو پھر آپ کا ذہن ایکٹو رہتا ہے۔ آپ خود کو ناقدین کے وار سے بچانے کے لیے تیز ہوجاتے ہیں۔ مخالفوں اور ناقدین کے وار سے بچنے کے لیے ڈسپلن میں آجاتے ہیں ۔ آپ ڈلیور کرنا شروع کر دیتے ہیں اور آپ ایک اچھے اور بہتر حکمران بن جاتے ہیں۔لیکن جب آپ ایک آئرن ہینڈ سے سب کو کنٹرول کرتے ہیں اور ہر اس آواز کو ختم کر دیتے ہیں جو آپ پرتنقید کرے تو پھر یقین رکھیں ایک دن قذافی پل کے نیچے ہجوم کے ہاتھوں مارا جاتا ہے‘صدام حسین بغداد سے دور ایک بل میں سے پکڑ کر پھانسی پر چڑھا دیا جاتا ہے اور حسنی مبارک کو پنجرے میں ڈال کر عدالت لایا جاتا ہے۔ اور پھر ایک دن… آپ کے وہی درباری کوئی نیا بادشاہ تلاش کرنے نکل پڑتے ہیں!
Source: dunya news
Must Read Urdu column Aur Phir 1 Din By Rauf Klasra