’’عوام کے نمائندے بمقابلہ عوام کے نوکر – حسن نثار
ایک سنجیدہ اورنسبتاً خشک موضوع پر قلم اٹھانے سے پہلے دو ہلکے پھلکے موضوعات پر دعوت فکر، شہریوں پر گورنر ہائوس کے دروازے کھلنے سے یہ ’’راز‘‘ بھی کھل گیا کہ ہم کس قماش و کلاس کے لوگ ہیں۔ غور کریں یہ کاہنے کاچھے نہیں، لاہور اور اہل لاہور جیسے اہم شہر اور شہریوں کی بات ہورہی ہے۔ ہم سیاستدانوں، سرکاری ملازموں کے تو بہت لتے لیتے ہیں۔ آج ذرا اپنے گریبان میں بھی جھانک لیں۔ سیر کیلئے آنے والی فیملیز نے جہاں تک بس چلا گورنر ہائوس ادھیڑ کر رکھ دیا۔ وہی کیا جیساکبھی ’’زندہ دلان‘‘ منگولیا کے تاتاریوں نے عروس البلاد بغداد کے ساتھ کیا تھا۔ کچے پھل کھونچ کھونچ اور نوچ نوچ کر پھل دار درخت ننگے اور گنجے کردیئے گئے۔ کچ پکی سبزیاں اکھاڑ لی گئیں۔ خوبصورت لان کبڈی کے میدان سے بدتر کردیا گیا۔ گھاس کے ساتھ گھمسان کا رن ڈال کر کشتوں کے پشتے لگا دیئے گئے۔ گھاس کی ہریالی اور کوملتا کو روند کر رکھ دیا گیا۔ بقول شخصے مال غنیمت کی طرح جس کے ہاتھ جو لگا وہ لے اڑا۔ واقعی شکرے کے لئے کبوتر کے خون سے زیادہ مزہ کبوترپر جھپٹنے میں ہے اور ’’الٹنا پلٹنا پلٹ کر جھپٹنا، لہو گرم رکھنے کا ہے ایک بہانہ‘‘۔ تاریخی شہر لاہور کے تاریخی لوگوں نے دشت تو دشت، دریا بھی نہ چھوڑے اور وہ اس طرح کہ شہری جھیل کے پل پر چڑھ دوڑے جو بیچارہ اتنا بوجھ برداشت نہ کرسکا اورکسی سولہ سالہ دوشیزہ کے دل کی طرح ٹوٹ گیا جس پر مجھے نسیم حجازی کا ناول ’’اور تلوار ٹوٹ گئی‘‘ یاد آیا۔واقعی نئیں ریساں شہر لاہور دیاں اور نہ لہوریاںدیاں جن کی زندہ دلی ضرب المثل ہے اور یہ بھی کہ جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا اور جو پیدا ہو جائے اس کا سب سے بڑا مسئلہ یہ بتایا گیا کہ ’’بارہ دروازے تے تیرہ میلے گھر جاواں میں کیہڑے ویلے‘‘۔ حیرت ہے کہ نسل در نسل میلوں ٹھیلوں کا وسیع تجربہ ہونے کے بعد بھی گورنر ہائوس کا ’’میلہ‘‘ نبھایا نہ گیا کہ میلوں کی بھی قسمیں ہوتی ہیں۔ ہر میلہ ہر کسی کیلئے نہیں ہوتا لیکن یہیں رک جائوں تو بہتر ہے ورنہ بات بہت دورنکل جائے گی….. اتنی دور کہ وہاں سے ’’اچے برج لہوردے‘‘ بھی نظر نہیں آئیں گے۔ صرف ایک آوازسنائی دے گی کہ فاتحین کی گزرگاہوں پر ایسا ہی ہوتا ہے۔معاف کیجئے کہ منظر تو ابھی تک ادھورا ہے۔ پورا منظر میں نے ٹی وی سکرینوں پر دیکھا ہے۔ گورنر ہائوس کی سیر کرنے والے جا چکے تھے لیکن ان کی نشانیاں دور دور تک بکھری ہوئی تھیں۔ بدصورتی کے خوب صورت یادگار شہکار جا بجا ’’ثنا خوان تقدیس مشرق‘‘ کو پکار رہے تھے کہ ایسی تیسی اہل مغرب کی۔ کوئی ہم سا ہو تو سامنے آئے اور ہم سے ملتا جلتا ہی کر دکھائے۔ جگہ جگہ پانی اور جوسز کی خالی بوتلیں اور ڈبے، استعمال شدہ ٹشو پیپرز کی پہاڑیاں، پھلوں کے چھلکے، برگرز، سینڈوچز کی پیکنگ، مختلف رنگوں اور اقسام کے شاپرز، سگریٹوں کے ٹوٹے اور خالی ڈبیاں سیرکر کے جانے والوں کے ’’وزیٹنگ کارڈز‘‘ کی طرح گوروں کے گورنر ہائوس کا مذاق اڑا رہی تھیں۔ کلونیل دور کی یادگاروں کے ساتھ ایسا سلوک ہی ہونا چاہئے تھا۔ شکر ہے جو پل ٹوٹا اس کی جھیل گہری نہ تھی ورنہ ممکن تھا ’’فاتحین‘‘ میں سے کچھ ڈوب کر مر جاتے لیکن جھیل میں چلو بھر پانی تو ضرور ہوگا۔ یہ خیال بھی آتا ہے کہ اگر گورنر ہائوس چودہ اگست 1947ء کو ہی کھول دیا جاتا تو شاید ستر سال میں ہمیں اسے برتنے کی تمیز تہذیب آگئی ہوتی لیکن خیر ہے۔ دیر آید درست آید۔اس ’’درست آید‘‘ میں دوسرا موضوع بھی شامل کرلیں تومزہ دوبالا ہو جائے گا۔ یہ مزہ دراصل اس میچ کا ہوگا جو ’’بیوروکریسی‘‘ اور سیاسو کریسی‘‘ میں شروع ہونے والا ہے بلکہ ہو چکا ہے۔ عمران خان کی شدید خواہش ہے کہ پولیس اور دیگر سول سروسز کو سیاسی مداخلت سے پاک، آزاد اور علیحدہ کر دیا جائے۔ مجھے یقین ہے یہ ’’میچ‘‘ بیحد دلچسپ اور یادگار ہوگا۔یہ ایک ایسا میچ ہوگا جس میں نہ ہار جیت ہوگی نہ یہ ڈرا ہوگا۔سیاستدان عوام کے نمائندے۔بیوروکریسی پبلک کی سرونٹ یعنی نوکر۔ایک طرف عوام کے نمائندے ہوں گے تو دوسری طرف عوام کے نوکر ….. عوام درمیان میں ہوں گے تو اس بات کا اندازہ آپ خود لگا لیں کہ ان دو پاٹن کے بیچ آنے والوں کا بنے گا کیا؟ اور اگر دونوں پاٹ یعنی چکی خالی چلائی گئی تو چکی کا کیا حشرہوگا؟قارئین! اصل موضوع یعنی 50لاکھ سمارٹ گھروں کی تعمیر کے سلسلہ میں چند تجاویز تو بیچ میں ہی رہ گئیں لیکن یار زندہ صحبت باقی۔ان شاء اللہ کل سہی۔