عوام یا نظام – علی معین نوازش

ali-moeen-nawazish

کورونا وائرس کی وبا میں عوام کے ردعمل نے ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ اِس میں حکومتی عہدیداروں اور حمایتیوں کا بھی ایک کردار رہا ہے۔ پنجاب کی وزیر صحت نے پچھلے دنوں شاہ زیب خانزادہ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ لاہوری تو ایک الگ ہی مخلوق ہیں جو کسی کے بات نہیں سنتے، عید پر لوگ بلا جھجک باہر نکلے،حفاظتی تدابیر پر کسی بھی طرح عمل نہیں کیا جا رہا۔ اب حکومتی ہٹ لسٹ پر اپوزیشن سے زیادہ عوام نظر آنےلگے ہیں۔ سینئر صحافی طلعت اسلم صاحب نے ایک ٹویٹ میں کیا خوب کہا، عمومی طور پر عوام حکومتوں سے مایوس ہو جاتے ہیں لیکن شاید پہلی دفعہ پاکستان میں ایسا ہو رہا ہے کہ حکومت اور اس کے حمایتی عوام سے مایوس ہو گئے ہیں۔

عوام کو پاکستان کے حالات کا قصوروار ٹھہرانا اتنی بھی نئی چیز نہیں ہے۔ ٹیکس کی عموماً جب بھی بات کی جاتی ہے تو گلہ یہی ہوتا ہے کہ لوگ ٹیکس نہیں دیتے، اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتے۔ اسی طرح روڈ پر ٹریفک کی بات ہو تو لوگوں میں صبر نہیں، ہمیں لائن بنانے کی تمیز نہیں وغیرہ جیسی باتیں ماضی میں بھی کی جاتی رہی ہیں۔ تو کیا ہم واقعی ایسی قوم ہیں جس کو کنٹرول کرنا ناممکن ہے؟

پہلی بات تو یہ کہ اِس طرح کے تصورات Reductionist(عذرِ گناہ)ہوتے ہیں یعنی ایک پیچیدہ مسئلے کو بہت سادہ بنانے کی ایک غلط کوشش ہوتے ہیں۔ ہمارے عوام تو بیچارے حکومت کے ہر حکم کو جس کو حکومت نافذ کروائے، چُپ کر کے سن لیتے ہیں۔ مہنگائی ہوئی، چُپ کر کے برداشت کی، بدترین لوڈشیڈنگ برداشت کی، متعدد بالواسطہ ٹیکسز برداشت کر رہے ہیں۔ کسی کام کے لیے رشوت دیں یا لمبی لائنوں میں لگے رہیں، کبھی شکوہ نہیں کرتے۔ اکثر اوقات یہی دیکھنے کو ملا کہ جہاں حکومت نے عمل کرایا، عوام نے حکومت کے احکامات پر عمل کیا۔ اِس میں اہم پہلو حکومت کے احکامات اور قانون کے نفاذ کا بھی ہے۔ سادہ سی مثال ہے کہ وہی ڈرائیور جو سیٹ بیلٹ نہیں باندھتا اور گاڑی بھی غلط چلاتا ہے، جب موٹروے پر آتا ہے تو سیٹ بیلٹ بھی لگاتا ہے، لائن اور لین کا بھی خیال رکھتا ہے اور لائن بدلتے ہوئے انڈیکیٹر بھی دیتا ہے کیونکہ اسے پتا ہے کہ یہاں قانون کی خلاف ورزی پر چالان ہو جائے گا۔ وہی پاکستانی مسافر جو پاکستانی ایئر پورٹ پر لائن بھی توڑتے ہیں، سامان کی بیلٹوں پر بھی چڑ جاتے ہیں، بیرونِ ملک سیدھی لکیر میں کھڑے ہو جاتے ہیں کیونکہ انہیں یہ علم ہوتا ہے کہ یہاں یہ نہیں چلے گا۔

جہاں تک وبا، لاک ڈاؤن اور حفاظتی تدابیر کا معاملہ ہے تو دنیا کے تمام ممالک سے اگر موازنہ کریں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اُن ممالک میں لاک ڈاؤن اور سماجی فاصلہ زیادہ کامیاب رہا جہاں حکومتوں نے پہلے دن سے حتمی فیصلے کیے اور کسی تاخیر یا کنفیوژن کا شکار نہیں رہیں۔ نیوزی لینڈ کی مثال لے لیں جہاں فوری طور پر اقدامات کیے گئے اور باہر سے آنے والے لوگوں پر پابندی لگا دی گئی، کورونا مریضوں سے ملنے والے افراد کو بھی چن چن کر ڈھونڈا گیا، یہی وجہ ہے کہ آج نیوزی لینڈ میں یہ وبا تقریباً ختم ہو گئی ہے۔ چین جہاں سے یہ وائرس شروع ہوا، نے بھی فوری اقدامات کیے۔ دوسری طرف امریکہ یا برطانیہ جہاں پر عام طور پر عوام کو پڑھا لکھا سمجھا جاتا ہے، وہاں پر کنفیوژن رہی اور فوری فیصلے نہیں ہو سکے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پہلے تو اِس کو سنجیدگی سے نہیں لیا، پھر ان کی بیان بازی مزید کنفیوژن پیدا کرتی رہی۔ امریکا میں جہاں عوام پڑھے لکھے بھی ہیں اور زیادہ تر اصول پسند بھی، انہوں نے لاک ڈاؤن کے خلاف احتجاج بھی کیے اور حفاظتی تدابیر پر ٹھیک طرح عمل بھی نہیں کیا، اس لئے دنیا کے سب سے زیادہ کورونا کیسز اور اموات وہاں ہوئیں۔

پاکستان ان میں سے کس زمرے میں آتا ہے، وہ آپ بخوبی جانتے ہیں۔ کل ایک سروے رپورٹ آئی جس کے مطابق 57فیصد پاکستانی سمجھتے ہیں کہ کورونا وائرس کا خطرہ اتنا زیادہ نہیں ہے جتنا بتایا جا رہا ہے۔ حکومت جتنی کلیئر ہوگی اور جتنی اس کی قوتِ نافذہ ہو گی، لوگ اتنی ہی اس کی بات سنیں گے اور سمجھیں گے۔

پِھر اگر عوام کو آپ ماسک نہ پہننے پر، سماجی فاصلوں اور احتیاطی تدابیر پر عمل نہ کرنے پر قصوروار ٹھہراتے ہیں تو وینٹی لیٹرز، بیڈز، اسپتال اور ادویات وغیرہ کی عدم دستیابی میں تو عوام کی کوئی غلطی نہیں ہے، ان سب چیزوں کی بلا تعطل فراہمی تو حکومت کا کام ہے،پوری دنیا میں لاک ڈاؤن کے دوران حکومتوں نے بیڈز اور وینٹی لیٹرز کی سہولتوں میں اضافہ کیا، ہم نے یہ کام اتنا لیٹ شروع کیا کہ ہمیں مارکیٹ میں وینٹی لیٹر ہی نہیں ملے۔ آج بھی کورونا کے مریض کو آرام سے اسپتال میں بیڈ نہیں ملتا۔اپنی غلطیوں کا سارا ملبہ عوام پر ڈالنے سے اپنی ذمہ داری کم نہیں ہوتی۔ یہی توانائی اگر عوام کو برا بھلا کہنے کے بجائے مسائل حل کرنے پر لگائی جائے تو حالات شاید بہتر ہو جائیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

Must Read Urdu column awam ya nizam By Ali Moeen Nawazish
Source: Jang

Leave A Reply

Your email address will not be published.