عذاب اِلٰہی – ڈاکٹر عبد القدیر
پچھلے دو برسوں سے ملک جن تکالیف و عذاب (دنیاوی اور سماوی) کا شکار ہوا ہے پچھلے 70 برسوں میں کبھی ایسا نہیں ہوا تھا۔ اس قسم کی تکالیف، قدرتی عذاب یونہی نازل نہیں ہوتے بلکہ اللہ تعالیٰ، رحمن، رحیم، کریم، لوگوں کو بہت ڈھیل، مہلت دیتا رہتا ہے اور جب تمام حجت کا وقت ختم ہوجاتا ہے تو پھر اچانک ایسا عذاب و عتاب نازل فرماتا ہے کہ ظالم، گنہگار، بدچلن، چور، راشی سب ہی گڑ گڑا کر دعائیں مانگتے ہیں۔ لیکن پھر چونکہ وقت دعا و معافی گزر چکا ہوتا ہے بالکل اسی طرح جس طرح فرعون کا ڈوبتے وقت ہوا تھا تو پھر یہ عذاب و عتاب سے بچ نہیں پاتے اور نا ہی کہیں بھاگ سکتے ہیں۔ جب پاکستان کی مسلسل تباہ کاریاں دیکھتا ہوں تو مجھے ایران کے مشہور شاعر انوریؔ کا یہ شعر یاد آجاتا ہے۔
ہر بلائے کہ از سما باشد
گرچہ بر دیگراں قضا باشد
بر زمیں نہ رسد کہ می پُرسَد
خانہِ انوریؔ کجا باشد
اس قطعہ کا لب لُباب یہ ہے کہ بے چارہ انوریؔ اس قدر بدقسمت اور آفت سماوی کا شکار ہے کہ وہ یہ کہنے پر مجبور ہوگیا ہے کہ جو بھی بریشانی، مصیبت آسمان سے آتی ہے وہ اِدھر اُدھر ماری ماری نہیں پھرتی بلکہ سیدھی انوریؔ کے گھر کا پتہ معلوم کرتی ہے اور اس پر آپڑتی ہے۔ بس یہی حال پوری پاکستانی قوم کا ہے، موسم کی خرابی ہو یا مہنگائی اور بے روزگاری ، پاکستانیوں کو جکڑ لیتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے کسی نے واٹس ایپ پر ایک پیغام بھیجا کہ ملک کے لئے موجودہ حکمراں مُبارک ثابت نہیں ہوئے۔ جس چیز پر ہاتھ ڈالا اس کا ستیاناس ہوگیا۔ ٹیم کی صلاحیت پر سوال اُٹھائے جاتے ہیں۔ کوئی بھی کام، پروگرام، پروجیکٹ اس وقت کامیاب ہوتا ہے جب سربراہ قابل ہو، مردم شناس ہو اور اس قابل ہو کہ وہ ٹیم کی رہنمائی کرسکے یعنی تجربہ کار ہو اور ساتھی اس کی جانب رہنمائی کے لئے دیکھیں۔
حقیقت یہ ہے کہ جیسے عوام ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ایسے ہی حکمراں دیتا ہے۔ سورۃ المائدہ، آیت 105 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنی فکر کرو، کسی دوسرے کی گمراہی (گناہ) سے تمھارا کچھ نہیں بگڑتا اگر تم خود راہِ راست پر ہو، اللہ کی طرف تم سب کو پلٹ کر جانا ہے پھر وہ تمھیں بتا دے گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو‘‘۔ مطلب یہ ہے کہ انسان بجائے اس کے کہ ہر وقت یہ دیکھتا رہے کہ فلاں کیا کررہا ہے اور فلاں کے عقیدے میں کیا خرابی ہے اور فلاں کے اعمال میں کیا خرابی ہے، اس کو دیکھنا چاہئے کہ وہ خود کیا کررہا ہے۔ اس کو فِکر اپنے خیالات کی،اپنے اخلاق و اعمال کی کرنی چاہئے کہ کہیں وہ خراب نا ہوں ۔ اگر انسان خود اللہ کی اطاعت کررہا ہے، خدا اور بندوں کے جو حقوق اس پر عائد ہوتے ہیں انھیں ادا کررہا ہے اور راست روی و راست بازی کے فرائض پورے کررہا ہے جن میں لازماً امر بالمعروف و نہی عن المنکر بھی شامل ہے تو یقینا کسی شخص کی گمراہی، کج روی اس کے لئے نقصان دہ نہیں ہو سکتی۔ اس آیت کا یہ منشا ہرگز نہیں ہے کہ آدمی بس اپنی نجات کی فکر کرے دوسروں کی اصلاح کی فکر نا کرے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے اس غلط فہمی کی تردید کرتے ہوئے اپنے ایک خطبہ میں فرمایا تھا۔ ’’لوگو تم اس آیت کو پڑھتے ہو اور اس کی غلط تاویل کرتے ہو۔ میں نے خود رسولﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ جب لوگوں کا یہ حال ہوجائے کہ وہ بُرائی کو دیکھیں اور اسے تبدیل کرنے کی کوشش نا کریں، ظالم کو ظلم کرتا دیکھیں اور اس کا ہاتھ نا پکڑیں تو بعید نہیں کہ اللہ اپنے عذاب میں سب کو لپیٹ لے۔ خدا کی قسم تم پر لازم ہے کہ بھلائی کا حکم دو اور بُرائی سے روکو، ورنہ اللہ تم پر ایسے لوگوں کو مسلط کردے گا جو تم میں سب سے بدتر ہونگے اور وہ تم کو سخت تکالیف دینگے، پھر تمھارے نیک لوگ خدا سے دُعائیں مانگیں گے مگر وہ قبول نا ہونگی ۔ (تفہیم القرآن علّامہ مودودی)
ایسا احساس ہورہا ہے کہ ہم یعنی پاکستانی اس دور میں داخل ہوگئے ہیں، نیک لوگ دعائیں مانگ رہے ہیں اور ان کی دعائیں قبول نہیں ہو ر ہیں۔ چند سال پہلے کا تباہ کن زلزلہ اور اب یہ بارشیں و سیلاب ،سب یہ ہی اشارہ کررہے ہیں۔ معصوم، غریب بچے، بوڑھے، خواتین جن آفات کا سامنا کررہے ہیں بس اللہ ربّ العزت ہی ان کی مدد کرسکتا ہے اور اس تکلیف سے نجات دلا سکتا ہے۔
دیکھئے سورہ المائدہ میں ہی آیت 60 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جب لوگوں نے اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کی تعمیل نا کی تو ان پر بہت ہی سخت عذاب نازل ہوا۔ کچھ لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے سور اور کچھ کو بندر بنا دیا۔ یہ عتاب چیدہ چیدہ، گنہگار لوگوں پر اتارا گیا تھا۔ ایک مرتبہ ایک انگریز پروفیسر، ماہر بشریات، مجھ سے بحث کرنے لگا کہ ڈارون کی تھیوری صحیح ہے اور ہم سب بندر کی نسل سے ہیں، میں نے مسکرا کر کہا کہ مجھے قطعی شک و شبہ نہیں ہے کہ تم بندر کی اولاد سے ہو ہم تو حضرت آدم کی اولاد میں سے ہیں اور اگر ہم ڈارون کی تھیوری کو قبول کریں تو پھر مجھے یہ سمجھا دو کہ دنیا میں اتنے گوریلے (انسان نما بندر) کیوں اپنی اصلی حالت میں ہیں وہ تمھاری طرح انسان کیوں نہیں بن گئے۔ پھر میں نے اس کو قرآن کی آیت کا حوالہ دیا اور بتلایا کہ گنہگار لوگ عتاب کا شکار ہوئے تھے اور اللہ پاک نے ان کو سور اور بندر بنا دیا تھا۔
آپ اگر کلام مجید کا مطالعہ مع ترجمہ کریں تو آپ کو فوراً علم ہوجائے گا کہ اللہ تعالیٰ نے لاتعداد گنہگار قوموں کو صفحہ ہستی سے نیست و نابود کردیا، ان میں گنہگار، متکبر، منافقین، وغیرہ شامل تھے۔ چند حالات حاضرہ کے اور ماضی قریب کے واقعات (عتاب و عذاب) پر غور کریں تو آپ کو احساس ہوجائے گا کہ اللہ پاک ڈھیل تو ضرور دے دیتا ہے لیکن جب پکڑتا ہے تو پھر کوئی نہیں بچا سکتا۔ اللہ پاک ہم سب کو نیکی کی توفیق دے کہ ہم اللہ اوراس کے رسول کے احکامات و ہدایات پر عمل کریں اور یومِ حشر سرخرو ہوں۔
Read Urdu column Azab e Ilahi by Dr Abdul Qadeer khan