بات اسی طرف جا رہی ہے – جاوید چوہدری

Javed Chaudhry

یہودی عبادت کے دوران اپنے بالائی بدن کو ایک چادر سے ڈھانپتے ہیں‘ یہ چادر عبرانی زبان میں تالیت کہلاتی ہے اور یہ احرام کی طرح سفید ہوتی ہے تاہم اس کے کناروں پر نیلے رنگ کی لمبی پٹیاں ہوتی ہیں‘ یہودیوں نے 1891ء میں صیہونی موومنٹ چلائی تو تالیت کے درمیان اسٹار آف ڈیوڈ لگا کر اسے اپنا جھنڈا بنا لیا اور یہ جھنڈا 1948ء میں اسرائیل کا قومی پرچم بن گیا‘ آپ اگر اسرائیل کے جھنڈے کو دیکھیں تو آپ کو اس میں اوپر نیچے نیلے رنگ کی دو پٹیاں نظر آئیں گی۔

یہ پٹیاں دریائے فرات اور دریائے نیل کو ظاہر کرتی ہیں‘ بنی اسرائیل ان دونوں دریاؤں کے درمیان موجود علاقوں کو اپنی زمین سمجھتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کیا اسرائیل یہ علاقے حاصل کر سکے گا؟ یہ فیصلہ مسلم امہ کی طاقت کرے گی‘ ہم اگر مضبوط ہوئے تو یہ زمین قیامت تک ہمارے پاس رہے گی اور ہم اگر کم زور ہو گئے تو اسرائیل کیا روانڈا بھی ہم سے یہ علاقے چھین لے گا اور یہ دنیا کی سب سے بڑی اور ننگی حقیقت ہے۔

پاکستان میں دو ہفتوں سے بحث چل رہی ہے کیا پاکستان کو اسرائیل کو تسلیم کر لینا چاہیے؟ یہ دعویٰ بھی کیا جارہا ہے علامہ اقبال اور قائداعظم اسرائیل کے خلاف تھے‘ یہ دعویٰ سو فیصد درست ہے بانیان پاکستان واقعی اسرائیل کے خلاف تھے لیکن دنیا میں ہر چیز کی کوئی نہ کوئی بیک گراؤنڈ ہوتی ہے اور ہم جب تک وہ بیک گراؤنڈ نہ جان لیں ہم ایشوز کو نہیں سمجھ سکتے اور علامہ اقبال اور قائداعظم کی مخالفت کی وجہ ترکی اور خلافت عثمانیہ تھی‘ فلسطین 1517ء سے لے کر 1917ء تک خلافت عثمانیہ کا حصہ رہاتھا‘ پہلی جنگ عظیم کے دوران برطانیہ نے اس پر قبضہ کر لیا‘ ہندوستان کے مسلمان خلافت کے حامی اور برطانوی راج کے خلاف تھے چناں چہ یہ فلسطین کے ایشو پر ترکی کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔

یہ برطانیہ سے آزادی بھی چاہتے تھے چناں چہ یہ برطانیہ کے ہر قبضے کو بھی مسترد کر دیتے تھے‘ اتاترک نے بھی فلسطین پر برطانیہ کا قبضہ تسلیم نہیں کیا تھا لہٰذا ہم نے بھی انکار کر دیا‘ برطانیہ نے 1948ء میں فلسطین پر اپنا قبضہ چھوڑ دیا اور یہودیوں نے اسرائیل کے نام سے ملک بنا لیا‘ روس‘ امریکااور یورپ نے اسے فوراً تسلیم کر لیا‘ ترکی نے بھی 1949ء میں اسرائیل کو مان لیا‘اب سوال یہ ہے اگر قائداعظم اور علامہ اقبال 1949ء میں حیات ہوتے تو کیا وہ اپنے آپ کو’’ ری پوزیشن‘‘ کرتے یا پرانے موقف پر قائم رہتے؟ میرا خیال ہے یہ بھی اپنی پوزیشن بدل لیتے؟ آپ یہ جان کر بھی حیران ہوں گے ذوالفقار علی بھٹو کے دور تک پاکستان میں یہودی تھے اور یہ عبادت کے لیے باقاعدہ اسرائیل بھی جاتے تھے اور ریاست کو ان کی آمدورفت پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا تھا لیکن پھر 1967ء میں عرب اسرائیل جنگ چھڑ گئی۔

مسلم امہ اکٹھی ہو گئی‘ او آئی سی نے جنم لیا اور پاکستان سمیت 57 اسلامی ملک اسرائیل کے خلاف اکٹھے ہو گئے‘ 1973ء میں عربوں اور اسرائیل کے درمیان یوم کپور جنگ ہوئی‘ ذوالفقار علی بھٹو نے عرب ملکوں میں پاکستانی ورکرز بھجوانا شروع کیے تھے چناں چہ انھوں نے اسرائیل پر عربوں سے بھی سخت اسٹینڈ لے لیا ‘ جنرل ضیاء الحق بھٹو صاحب سے بھی چند قدم آگے بڑھ گئے اور یوں اسرائیل پر پاکستان کا موقف اٹل ہو گیا‘ اس دوران وہ عرب ممالک جن کی زمینوں پر اسرائیل قائم ہوا تھا انھوں نے اسرائیل کو تسلیم کر نا شروع کر دیا لیکن ہم 3292کلو میٹر کے فاصلے پر بیٹھ کر انکار کرتے رہے۔

ہم نے اسے دو ملکوں کے بجائے اسلام اور کفر کا تنازع بھی بنا دیا‘یہاںیہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے یہ اگر واقعی کفر اور اسلام کا ایشو ہے توکیا پھر ہم مصر‘ اردن اور ترکی سے زیادہ بڑے مسلمان ہیں اور کیا ترکی اسرائیل کو تسلیم کر کے دائرہ اسلام سے خارج ہو گیا تھا؟ جی نہیں! یہ ملک آج بھی ہم سے زیادہ مسلمان ہیں لہٰذا یہ پھر مذہب کے بجائے سفارتی اور سیاسی ایشو ہے اور سیاست اور سفارت میں کوئی چیز قطعی نہیں ہوتی‘ ان کا فیصلہ ہمیشہ حالات کرتے ہیں مثلاً ہم اگر علامہ اقبال اور قائداعظم کی مثال ہی لے لیں تو ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا ‘‘بھی علامہ اقبال نے لکھا تھا اور قائداعظم بھی 1920ء تک ہندو مسلم بھائی بھائی کے حامی تھے۔

یہ کانگریس میں بھی رہے تھے لیکن پھر حالات نے علامہ اقبال اور قائداعظم دونوں کو دو قومی نظریے کا داعی بنا دیا‘ یہ دونوں ری تھنکنگ پر مجبور ہو گئے چناں چہ میرا خیال ہے اگر قائداعظم اور علامہ اقبال 1950ء تک حیات ہوتے تو یہ بھی اسرائیل کے ایشو پر’’ری تھنک‘‘ ضرور کرتے‘ کیوں؟ کیوں کہ یہ قدم انھوں نے ترکی کی محبت اور برطانیہ کی نفرت میں اٹھایا تھا اور برطانیہ نے 1948ء میں فلسطین چھوڑ دیا تھا اور ترکی نے 1949ء میں فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کے وجود کو تسلیم کر لیا تھا‘ترکی کے بعد ایران نے 1950ء(ایرانی انقلاب کے بعدایران اسرائیل تعلقات ختم ہو گئے)۔

مصر نے 1979ء‘ ازبکستان‘ تاجکستان‘ قرغزستان اور قزاقستان نے1992ء اور اردن اور تیونس نے 1994ء میں اسرائیل کو تسلیم کر لیا تھا(تیونس کے 2000ء میں اسرائیل سے تعلقات ختم ہوگئے)‘ یو اے ای نے اب اسرائیل سے معاہدہ کر لیا ہے اور چند ماہ میں اومان اور سوڈان بھی اسے مان لیں گے‘ یہ ملک کیوں مان رہے ہیں؟ کیوں کہ یہ اس ایشو کو اسلام اور کفر کی جنگ نہیں سمجھتے‘ یہ سفارتی اور سیاسی ایشو ہے اور سیاسی اور سفارتی ایشوز بالآخر اسی طرح سیٹل ہوتے ہیں۔

ہم اگر چند لمحوں کے لیے یہ بھی مان لیں یہ ایک مذہبی ایشو ہے تو پھر یہ ایشو عیسائیوں اور یہودیوں کے درمیان ہونا چاہیے تھا‘ مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان نہیں ‘ کیوں؟ کیوں کہ حضرت عیسیٰ ؑکو یہودیوں نے مصلوب کروایا تھا‘ حضرت مریم ؑ اور مسیحی حواریوں کو بھی یہودیوں نے بیت المقدس سے نکالا تھا اور بعد ازاں عیسائی ڈیڑھ ہزار سال تک یہودیوں سے بدلے لیتے رہے‘ ہولوکاسٹ کے ذمے دار بھی عیسائی تھے مسلمان نہیں‘یہ درست ہے نبی اکرمؐ نے یہودیوں سے چار غزوات کیے تھے لیکن آپؐ نے عیسائیوں کے خلاف کوئی بڑی جنگ نہیں لڑی تھی‘اسلام کے ابتدائی دنوں میں مسلمان عیسائیوں کے قریب سمجھے جاتے تھے۔

قرآن مجید کی سورۃ روم تک عیسائیوں کی حمایت میں اتری تھی لیکن پھر مسلمان اور عیسائی ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار ہوئے اور یہ دوسو سال تک صلیبی جنگیں لڑتے رہے جب کہ مسلمانوں نے 1970ء تک 14 سو سال میں یہودیوں کے خلاف کوئی بڑی جنگ نہیں لڑی چناں چہ ہم اگر تاریخی لحاظ سے دیکھیں تو مسلمانوں کی عیسائیوں سے زیادہ اور طویل جنگیں ہوئیں اور یہ یہودیوں کو رعایتیں دیتے رہے لہٰذا ہم اگر دشمن ہو سکتے ہیں تو عیسائیوں کے ہو سکتے ہیں اور دوسری طرف یہودی اور عیسائی دو ہزار سال سے لڑ رہے ہیں لیکن عجیب بات ہے ہم آج صلیبی جنگوں کے باوجود عیسائیوں کے اتحادی ہیں اوریہودی اور عیسائی ہولوکاسٹ اور حضرت عیسیٰ ؑ کو مصلوب کرنے کے باوجود ایک دوسرے کے دوست ہیں۔

کیوں؟ کیوں کہ یہ مخالفت مذہبی نہیں سیاسی اور سفارتی ہے‘ ہمارے علماء کرام اکثرسورۃ المائدہ کی آیت نمبر51 کا حوالہ دیتے ہیں ’’اے لوگوجو ایمان لائے ہو! یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا رفیق نہ بناؤ‘ یہ آپس ہی میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں اور اگر تم میں سے کوئی ان کو اپنا رفیق بناتا ہے تو اس کا شمار بھی پھر انھی میں ہے‘ یقینا اللہ ظالموں کو اپنی رہنمائی سے محروم کر دیتا ہے‘‘ یہ قرآن کا حکم ہے اور یہ برحق ہے‘ ہم میں سے کوئی اس سے انکار نہیں کر سکتا لیکن اس حکم میں تو ہمیں یہود اور نصاریٰ دونوں سے باز رہنے کا حکم دیا گیا ہے مگر ہم نے عیسائی دنیا کے تمام ممالک کو تسلیم بھی کر رکھا ہے اور ہمارے ان کے ساتھ برادرانہ تعلقات بھی ہیں۔

ہم افغان جہاد تک امریکی امداد سے لڑتے رہے ہیں جب کہ ہم اسرائیل کے خلاف ہیں‘ یہ بات بالکل اسی طرح ہے جس طرح ہم کسی حرام جانور کے بالائی حصے کو حلال قرار دے دیں اور نچلے حصے کو حرام لہٰذا ہم اگر اس آیت پر عمل کر رہے ہیں تو پھر ہمیں عیسائیوں سے بھی قطع تعلق کر لینا چاہیے اور تمام عیسائی ملکوں کو بھی مسترد کر دینا چاہیے مگر ہم یہ نہیں کر رہے‘ کیوں؟ میں جاہل ہوں لہٰذا میں علماء سے اس آیت کی تشریح اور بیک گراؤنڈ کی درخواست کرتا ہوں‘ مثلاً کیا یہ آیت واقعاتی ہے؟ کیا اس کے حکم کی وجہ وہ چند یہودی عرب قبیلے ہیں جو نبی اکرمؐ اور صحابہ کرامؓ کے خلاف سازشیں کرتے تھے؟ کیا باقی عیسائی اور یہودی اس حکم سے مبریٰ ہیں؟ یہ فیصلہ علماء اور مفتیان ہی کر سکتے ہیں لیکن ہمیں آج یہ ماننا ہو گا ہم نے سفارتی اور سیاسی ایشو کو مذہبی بنا کر غلطی کی اور ہم آج خوف سے اس ایشو پر بات تک نہیں کررہے‘ ہم اپنا اسٹینڈ شدید کرتے چلے جارہے ہیں۔

ہم اگر ملک ہیں تو پھر ہمیں اپنی سفارت کاری پر توجہ دینی ہو گی‘ یہ کیا بات ہوئی ہم نے جن کے لیے اسٹینڈ لیا وہ ہم سے سلام کے روادار ہیں اور نہ اسرائیل کو تسلیم کرنے سے پہلے ہم سے مشورہ کرتے ہیں‘ کیا یہ زیادتی نہیں؟ ہم اسرائیل کو بے شک تسلیم نہ کریں لیکن اس کی وجہ خالصتاً ہم ہونے چاہییں‘ یہ کیا بات ہوئی ہم پہلے ترکی کی محبت میں انکار کرتے رہے اور آج ہم سعودی عرب کے پیچھے کھڑے ہیں‘ ہم اگر آزاد ہیں تو پھر ہمارے فیصلے بھی آزاد ہونے چاہییں‘ ہم کب تک دوسروں کے لیلے یا بچھڑے بنتے رہیں گے؟ کل کہیں ایسا نہ ہو جائے سارے عرب اسرائیل کو مان لیں اور اسرائیل ہمیں ماننے سے انکار کردے‘ یہ اسلامی بم کی وجہ سے ایران اور ہم پر حملہ کر دے اور ہمارے سارے برادر ملک غیر جانب دار ہو جائیں‘ ایک لمحے کے لیے سوچیے گا ضرور کیوں کہ بات اسی طرف جا رہی ہے۔

Source

Must Read urdu column Baat isi terf Ja rahe hai by Javed Chaudhry

Leave A Reply

Your email address will not be published.