بازی پلٹے گی؟ – سہیل وڑائچ
ملکی اور غیرملکی حالات کے تیور سے یہ نہیں لگتا کہ بازی پلٹنے والی ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ سینیٹ الیکشن میں غیرمتوقع کامیابی مل جائے گی، حکومت ہار جائے گی اور یوں تحریکِ عدم اعتماد کی راہ ہموار ہو جائے گی۔
بظاہر ایسا ہوتا نظر نہیں آتا، نہ ملکی فضا اس طرح کی بازی پلٹنے کو تیار ہے اور نہ ہی پس پردہ اس طرح سے بازی الٹنے کے کوئی آثار ہیں، آ جا کر کچھ ووٹوں کی اِدھر سے اُدھر اڑان پر مرچ مصالحے والی کہانیاں بنیں گی اور بس…
ویسے بھی اوپر اور نیچے کی سوچ میں فرق ہے۔ اوپر سب کچھ اوکے ہے اور سمجھا جا رہا ہے کہ ہمارے اور حکومت کے فائدے اور نقصان ایک ہیں، ہماری آپس کی لڑائی ہوئی تو دونوں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا۔ حکومت کو کم نقصان ہو گا اور ہمیں اس کا زیادہ نقصان ہو گا۔ نیچے کی سوچ یہ ہے کہ حکومت کی غلطیاں حکومت کے کھاتے میں پڑنی چاہئیں اور اگر حکومت کارکردگی دکھانے میں ناکام ہے تو اس کا ’’کور اپ‘‘ بند کر دینا چاہئے۔
نیچے اور اوپر کے درمیان مباحث کے بعد اب اندازہ یہ ہے کہ معاملہ غیرجانبداری کی طرف بڑھ رہا ہے مگر اس غیرجانبداری میں بھی حکومت کی جانبداری پنہاں ہے کیونکہ غیرجانبداری کے باوجود اسے نکالنا نہیں ہے، اس کے 5سال پورے کروانے ہیں، نہ اسے نکالنے کی سازش کرنی ہے اور نہ ہی اسے نکالنے کی کوشش میں مدد کرنی ہے۔ گویا حکومت کو ہر صورت میں چلانا ہے تبدیلی البتہ صرف اس بات میں ہے کہ ہر سیاسی کھیل میں حکومت کے ساتھ جڑ کر کھڑے ہونے کی پالیسی جاری نہیں رکھنی بلکہ سیاست سے تھوڑا سا ہٹ کر رہنا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ غیرجانبداری کی تجویز نیچے سے اوپر گئی ہے۔ نیچے والوں کو معاشرتی دبائو محسوس ہو رہا تھا اور انہیں یوں لگ رہا تھا کہ انہیں ان ناکردہ غلطیوں کا بھی ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے جن میں ان کا کوئی کردار نہیں ہوتا اور پھر انہیں یہ بھی گلہ ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب اور وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کو تبدیل کرنے کے حوالے سے ان کی تجاویز کو درخورِ اعتنا نہیں سمجھا گیا۔ وہ اس پر بھی شکوہ کناں رہتے ہیں کہ وزیراعظم سیکرٹریٹ میں تبدیلیوں کے حوالے سے ان کی تجاویز کو نہیں مانا گیا۔
یہی وہ صورتحال تھی جس میں نیچے والے ہر میٹنگ میں یہ زور ڈالتے رہے کہ ہمیں حکومت سے تھوڑا سا فاصلہ پیدا کرنا چاہئے۔ بالآخر ان کی سنی گئی اور اب یہی سنایا جا رہا ہے کہ اوپر نیچے سب غیرجانبدار ہو گئے ہیں۔
بازی پلٹنے کا جب موسم آئے گا تو اس کے آثار پیدا ہوں گے، حالات کے تیور بدلیں گے۔ پاکستان تحریک انصاف کے اندر سے بغاوت پیدا ہونا، حکومت جانے کی پہلی علامت ہو گی۔ بازی جب بھی پلٹتی ہے متبادل انتظامات کی پہلے سے تیاری شروع ہو چکی ہوتی ہے۔ اب بھی جب آپ کو متبادل انتظامات اور متبادل نام کے بارے میں سُن گن ملے اس وقت پس پردہ حکومت کے جانے کی تیاریاں ہو رہی ہوں گی۔
فی الحال نہ بازی پلٹے گی، نہ حکومت جائے گی مگر حکومت کا عروج ختم ہو چکا ہے اور اب یہ زوال کی جانب گامزن ہے۔ پہلے اڑھائی سال میں حکومتیں اپنے اگلے اڑھائی سال کی بنیاد رکھتی ہیں، منصوبے بناتی ہیں اور پھر آخری اڑھائی سال ان منصوبوں کی تکمیل کا پھل کھاتی ہیں۔
موجودہ حکومت نے ایسی کوئی منصوبہ بندی نہیں کی، پاکستان کے حکمران ہوں یا ان کے بدترین مخالف، سب کو علم ہے کہ پانچ سال بعد بھی پاکستان معاشی طور پر وہیں کھڑا ہو گا جہاں آج کھڑا ہے۔ اسحاق ڈار تو اپنے دور میں یہ خواب دکھایا کرتے تھے کہ پاکستان آئندہ چند برسوں میں دنیا کی 20بڑی اور ابھرتی ہوئی معاشی طاقتوں کے ساتھ کھڑا ہوگا، اب صورتحال یہ ہے کہ ہم بھارت اور بنگلہ دیش دونوں سے معاشی طور پر کہیں پیچھے رہ گئے، معاشی نمو میں دونوں ممالک ہم سے کہیں آگے نکل گئے ہیں۔ پاکستان کو برآمدات کے حوالے سے جی ایس پی کی جو سہولت ملی ہوئی ہے اس پر بھی کئی اعتراضات اٹھ رہے ہیں۔
فیٹف کی بہت سی شرائط پوری کرنے کے باوجود ہمیں اس سے چھٹکارا نہیں مل رہا۔ قرضوں کی ادائیگی کے لئے ہمیں مزید قرضے لینا پڑ رہے ہیں اور یوں ہم آئی ایم ایف کے شکنجے میں مزید پھنستے جا رہے ہیں۔ معاشی صورتحال کے حوالے سے اوپر سے نیچے تک سب اس خوش فہمی سے نکل آئے ہیں کہ ہم اعداد و شمار کا چکر دیکر معاشی قوت بن سکتے ہیں اور تو اور حکومت ٹیکس کولیکشن میں بھی اپنی کارکردگی دکھانے میں ناکام رہی ہے۔
سیاسی حوالے سے پی ڈی ایم فی الحال میٹنگوں اور صلاح مشورے تک محدود ہے لیکن ظاہر ہے اس نے بھی جلد بدیر متحرک ہونا ہی ہے۔ پی ڈی ایم نے لازماً پہلے مرحلے میں اپنی غلطیوں پر غور کیا ہوگا اور اب ایسی حکمت عملی تشکیل دے گی جو کارگر ثابت ہو۔ پی ڈی ایم کے لئے پہلا بڑا چیلنج لانگ مارچ ہوگا، لانگ مارچ میں چاروں صوبوں سے لوگوں کو اسلام آباد لانا اور پھر ان کا ایک بڑا جلسہ کرنا ایک مشکل ٹاسک ہے اور اگر اس مارچ نے دھرنے کا فیصلہ کیا تو پھر اس کے لئے وسیع انتظامات کرنا پڑیں گے۔
زیادہ امید یہی ہے کہ لانگ مارچ کو دھرنے میں تبدیل نہیں کیا جائے گا بلکہ اسے لانگ مارچ تک ہی محدود رکھا جائے گا۔ پی ٹی آئی حکومت کے لئے سینیٹ الیکشن کے بعد سب سے بڑا چیلنج یہ ہو گا کہ اگلے اڑھائی سال میں وہ عوام کے سامنے کیا بیچے گی؟ سنا گیا ہے کہ پس پردہ پنجاب میں ہیلتھ کارڈ کی تیاریاں جاری ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ اگلا الیکشن جیتنے کے لئے پنجاب کے ہر فرد کو ہیلتھ کارڈ دیا جائے گا۔
دوسری طرف بہت سے بیوروکریٹ اس پروگرام کے مخالف بھی ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ محکمہ صحت پہلے سے ہی ایک بڑے بجٹ کے ساتھ کام کر رہا ہے جس کے اسپتال، ڈاکٹر اور ڈسپنسریاں ہر جگہ عوام کی خدمت کر رہی ہیں، ایسے میں ہیلتھ کارڈ ایک اضافی بوجھ ہوگا چنانچہ ہیلتھ کارڈ کے اضافی بجٹ کے لئے بہت سے ترقیاتی منصوبوں کی کٹوتی کرنا پڑے گی۔
دوسری طرف ہیلتھ کارڈ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ہیلتھ کارڈ گیم چینجر ہو گا، جسے ہیلتھ کارڈ ملے گا وہ پی ٹی آئی کے گن گائے گا۔
سینیٹ الیکشن میں ووٹوں کے اتار چڑھائو کے بعد اگلی سیاست شروع ہو گی۔ ظاہر ہے اپوزیشن کی کوشش ہو گی کہ حکومت کو یا تو اتار دیا جائے یا کمزور کیا جائے جبکہ حکومت کو ایسی حکمتِ عملی بنانی ہے کہ ایک تو وہ اپنی مدت پوری کرے دوسرا اگلے الیکشن کے لئے اپنے مہرے اور اپنی گیم تیار کرے، فی الحال پی ٹی آئی کی کارکردگی ایسی نہیں کہ وہ اگلے اڑھائی سال لوگوں کو مطمئن رکھ سکے۔
اگلے الیکشن کے حوالے سے امیدیں باندھنا تو بہت دور کی کوڑی لانے کے مترادف دکھائی دیتا ہے پی ٹی آئی کو اس سال سیاسی دھچکے لگیں گے، بازی بےشک نہ پلٹے قلابازیاں ضرور لگیں گی…
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)
Source: jang News
Must Read Urdu column Baazi Paltay g By Sohail Warraich