بیٹیوں کی توہین کرنے والے – انصار عباسی
بیٹے والوں کو حق حاصل ہے کہ اپنی مرضی کا رشتہ جہاں چاہیں مانگیں لیکن اُنہیں کیا یہ حق بھی حاصل ہے کہ وہ بیٹی والوں کی توہین کریں، جو ہمارے ہاں ایک عام رواج بن چکا؟ ایک کے بعد ایک رشتہ دیکھنے جاتے ہیں توقع کرتے ہیں کہ دوسروں کی بیٹیوں کو اُن کے سامنے پیش کیا جائے اور پھر وہ ایک کے بعد ایک کو دیکھ کر Reject کرتے ہیں اور عموماً وجوہات غیر ضروری اور بے کار ہوتی ہیں۔
اکثر اپنے بیٹے کے بارے میں نہیں دیکھا جاتا کہ وہ کتنے پانی میں ہے لیکن دوسروں کی بیٹیوں کی اپنے سامنے پیشیاں کرا کے اس تلاش میں ہوتے ہیں کہ اُنہیں اپنے بیٹے کے لیے کوئی شہزادی مل جائے۔
اگر لڑکی پسند آ جائے تو دیکھتے ہیں کہ فیملی پیسے والی ہے یا نہیں، گھر اپنا ہے کہ نہیں، لڑکی کے والد کا عہدہ کیسا ہے اور پھر انہی وجوہات اور ایسی ہی بے ہودہ ترجیحات کی بنا پر اچھے اچھے رشتے Reject کر کے آگے سے آگے چلتے جاتے ہیں۔میں ایسی فیملیوں کو بھی جانتا ہوں جنہوں نے اپنے بیٹوں کے لیے ایک نہیں، دو نہیں بلکہ درجنوں لڑکیاں دیکھیں اور آخر کار کسی ایک بیٹی کو اپنے لڑکے کے لیے پسند کیا۔
میری نظر میں یہ بیٹیوں کے توہین کا رواج، یہ اُن کے والدین کی توہین کا سلسلہ ہے، یہ انسانیت کی تذلیل کا ایک رخ ہے جسے نہ بُرا جانا جاتا ہے نہ ہی اس پر کوئی اعتراض ہوتا ہے۔ یہ جو سلسلہ یا رواج چل نکلا ہے، اس کا تعلق اکثریت سے ہے۔ اچھے لوگ بھی ہیں جو دوسروں کی بیٹیوں اور دوسرے خاندانوں کی عزت کا خیال رکھتے ہیں۔ حال ہی میں ایک جوان بیٹی کی ماں کا مجھے پیغام ملا۔
اُس ماں کا دکھ یہ تھا کہ رشتہ دیکھنے کے نام پر اُن کی تذلیل تو نہ کی جائے، سب کچھ اچھا لگے تو پوچھتے ہیں کہ گھر اپنا ہے کہ کرائے کا۔ بعض تویہ بھی توقع رکھتے ہیں کہ اگر ہم نے رشتہ کر لیا تو لڑکے کو سسرال والے کوئی نوکری بھی دلوا سکتے ہیں۔ اس ماں کا روتے ہوے کہنا تھا کہ اب تو کوئی رشتے کی بات کرتا ہے یا بیٹی کو دیکھنے کے لیے گھر آنے کی اجازت مانگتا ہے تو ڈر لگتا ہے، اپنا آپ چھوٹا لگنے لگتا ہے۔ اس ماں کا ایک ایسے خاندان سے تعلق ہے جو پڑھے لکھے ہیں، اسلام آباد میں ایک اچھی جگہ رہتے ہیں لیکن چوں کہ گھر کرائے پر ہے تو اس لیے اکثر آنے والے اس بات پر بددل ہو جاتے ہیں کہ لڑکی والوں کا گھر اپنا نہیں۔
اس توہین آمیز سلسلے کو رکنا چاہیے۔ بیٹیوں کو ہر آنے والے کے سامنے بن سنور کر چائے پیش کرنے اور گھورتی آنکھوں کا سامنے کرنے سے بچانا چاہیے۔ میں تو اس بات کا قائل ہوں کہ دیکھنے دکھانے کا سلسلہ بالکل غیر محسوس انداز میں ہونا چاہیے۔
بیٹے والوں کو شرم کرنی چاہیے اور بیٹی والوں کی عزت اور بیٹیوں کے احساسات کا خیال رکھنا چاہیے۔ جو کچھ پتا کرنا کرانا ہے معلوم کر لیں لیکن بیٹیوں کو جب دیکھنے کا وقت آئے تو یہ غیر محسوس ہو۔ بیٹے والے کوشش کریں جس گھر میں جائیں تو اپنا مائنڈ بنا کر جائیں، دوسروں کی بیٹیوں کے احساسات کے ساتھ کھیلنے سے باز رہیں۔
بہت سے والدین اپنی بیٹیوں کے وقت پر رشتہ نہ ہونے کی وجہ سے پریشان ہیں لیکن اس کے باوجود میں بیٹیوں کے والدین سے بھی درخواست کروں گا کہ اگر کوئی رشتہ دیکھنے کی خواہش کرے تو اُنہیں کہیں کہ ہماری بیٹی کو دیکھنا ہے تو غیر محسوس انداز میں دیکھ لیں، جس کا ماں باپ کوئی رستہ بھی نکال سکتے ہیں۔ ایسا مت ہونے دیں کہ بیٹیوں کو ایک کے بعد ایک رشتہ مانگنے والوں کے سامنے پیش کیا جائے۔
اس رواج، اس سلسلہ کو روکیں۔ آج ہم اگر اپنے بیٹے کے لیے اس رواج کو پروان چڑھا رہے ہیں تو کل ہماری بیٹی اسی رواج کی وجہ سے دکھی ہو گی اُس کی Self Respect کو ٹھیس پہنچے گی۔ بس کر دیں، خدارا بس کردیں۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)
Source: Jung News
Read Urdu column Baition ki Toheen Karnay walay By Ansar Abbasi